امارت غربت اور حکومت
غربت کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو سستا پٹرول دینے کا فیصلہ کر لیا ، جس کے لیے تجاویز کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔
غریب و متوسط طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات پر وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں رمضان المبارک میں ریلیف دینے کے حوالے سے بڑے فیصلے کیے گئے۔
پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ، اسلام آباد میں 10 لاکھ خاندانوں کو صرف ایس ایم ایس کرنے پر مفت آٹا دیا جائے گا۔
ایک عام آدمی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، اشیائے خورونوش غریب کیا متوسط طبقے کی استطاعت سے بھی باہر ہوگئی ہیں۔
ایسی صورتحال میں وزیراعظم کی جانب سے ریلیف اور سبسڈی دینے کا فیصلہ مستحسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے ، لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس سارے عمل کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کوئی میکنزم ہمارے یہاں سرے سے موجود نہیں ہے۔
ماضی کی حکومتیں بھی لنگر خانے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، احساس پروگرام، سستی روٹی اسکیم سمیت متعدد پروگراموں کے ذریعے حکومتیں غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کا اعلان کرتی ہیں ، لیکن ان تمام اسکیموں میں اصل حقدار تو محروم رہے جب کہ ہوشیار اور چالبازوں نے خوب خوب فائدے اٹھائے۔
حکمراں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی گرانی سے بے خبر ، جوڑ توڑ کی سیاست میں مگن ہیں، سیاسی تماشے بازیاں عروج پر ہیں ، ادھرگرفتاریوں کے احکامات دیے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ احکامات معطل ہورہے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر درخواستیں دائر ہورہی ہیں اور روزانہ ہی سنی جارہی ہیں جب کہ ہزاروں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا شکار ہیں۔ملک ڈوب رہا ہے لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق موجودہ دور میں پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ، دولت کی غیر مساوی تقسیم، وسائل کی کمی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
غریب خاندان اپنے مصارفِ زندگی پورے نہیں کرپاتے اور غربت کے سمندر میں غوطے لگاتے لگاتے بالآخر ڈوب جاتے ہیں۔ صد افسوس پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں افراد ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس خودکشی کرنے، خیراتی اداروں سے مدد لینے یا چھوٹے، بڑے جرائم میں ملوث ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
غربت کی دلدل میں پھنسے ایسے خاندانوں کے بے شمار بچے یا تو سڑکوں کے کنارے بھیک مانگتے ہیں یا ایسے دینی مدارس میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جہاں کم از کم خوراک اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوں۔ تقریباً پچیس برس سے بعض مفاد پرست گروہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک ہو گئے ہیں۔
دہشت گردی کے اسباب پر تحقیق کرنے والے ماہرین غربت کو اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فاقوں مرتا انسان چند سکوں کے عوض ضمیر فروشی پر تیار ہوجاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو خیرات کی نہیں بلکہ ٹھوس، موثر اور قابلِ عمل منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہماری آ مدن کا خطیر حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ زراعت، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں انقلاب لائے بغیر ملک کو ترقی دینے کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ خوش حالی کا معجزہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے زور پر دکھانے کے خواہش مند ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری اپنی جگہ پر، مگر اس سے کہیں زیادہ ضرورت ملک میں موجود وسائل کو استعمال کرنے کی ہے۔
ملک کی نصف آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جس پر چند زمین داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے۔ ان چند خاندانوں کو چھوڑ کر ملک کے کروڑوں غریب زمینوں کو اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں اور بدلے میں بہ مشکل دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں۔
ہمیں زرعی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ملک کا لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے ، دریا سوکھ رہے ہیں ، نہریں خشک ہیں۔ ہمیں اس کا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا۔ آب پاشی کا نظام بہتر بنا کر لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی اراضی اگر محنت کشوں میں ان کی ہمت اور استطاعت کے مطابق تقسیم کردی جائے تو بے شمار بے افراد بر سرِ روزگار ہوجائیں گے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امتیاز پسند لوگوں کا پیدا کردہ طبقاتی فرق کبھی نہیں ختم ہوسکتا۔ سیکیورٹی گارڈز، غیر معمولی پروٹوکول ، طبقہ اشرافیہ کے لیے الگ رہائشی آبادیوں کی تعمیر جیسے اقدامات نے دونوں طبقات کے درمیان بہت بلند فصیل حائل کر دی ہے۔ چند ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز صورت حال کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے۔
یہاں غریب آدمی امیروں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجود غریب اشیائے صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے کاروبار ، صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان نہ صرف اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرتے بلکہ اپنے سیاسی و کاروباری تعلقات بینک سے قرض لینے اور پھر اسے معاف کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی شرح بہت بلند ہوچکی ہے اور اب یہ خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔غربت کے ساتھ مہنگائی بھی لوگوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہے۔
ایک غیرملکی ادارے کے سروے کی رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریباً پچاس فی صد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ رپورٹ حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتی۔ اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔
چار افراد پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کے اخراجات کا حساب لگائیں تو یہ رقم پانچ تا چھ سو روپے بنتی ہے۔
جن لوگوں کی ماہانہ آمدن تیس تا چالیس ہزار روپے ماہانہ ہے ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف حصہ خوراک پر خرچ ہوجاتا ہے ، لیکن جن کی ماہانہ آمدن بارہ تا اٹھارہ ہزار روپے ہے وہ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھر م رکھتے ہیں، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
پاکستان کی یہ غربت فطری نہیں ہے، یہ غربت صرف دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت ان غریبوں کی ہے جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔
غربت کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے۔ یعنی تقریبا چھ کروڑ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کی نصف سے زاید، سندھ کی تینتیس، خیبر پختون خوا کی بتیس اور پنجاب کی انیس فی صد آبادی اس صورت حال کا سامنا کررہی ہے۔ یقینا یہ اعداد و شمار خوف ناک ہیں۔
ہماری آبادی میں کئی طرح کے غذائی اجزا کی کمی ہے جن میں پروٹین سے لے کر آیوڈین، فولاد وغیرہ تک کی کمی شامل ہے۔
یہاں بھی غربت اہم وجہ ٹھہرائی جاتی ہے کیوں کہ آبادی کے بہت بڑے حصے کو خوراک میسر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس میں ضروری غذائیت نہیں ہے۔
پھر کھانے پینے کی اشیا کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نرخ سے بھی غریب افراد شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب ہنگامی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس مسئلے کے حل میں مزید تاخیر بہت تباہ کن ثابت ہوگی۔
قومی خزانہ خالی ہے، عوام کے لیے اس میں کچھ نہیں لیکن اشرافیہ اور حکمران طبقے کے پروٹوکول اور مراعات پر جو خرچ ہو رہا ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں بلکہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے غریب کا خون نچوڑ کر حکمران طبقے اور ملک کی اشرافیہ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔
ان سفارشات کو عملی شکل دینے کی ضرورت تھی مگر فی الوقت یہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر ، مشیر ، ارکان پارلیمنٹ ، ججز ، جرنیل اور سرکاری افسر خود اپنی اپنی مراعات میں کمی کرنے کا رضاکارانہ اعلان کرتے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق ان سے یہ توقع عبث ہے۔
آئی ایم ایف پچھلی حکومت کے رویے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حالیہ مذاکرات میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر اپنی شرائط منوانے پر بضد ہے، سرِ دست موجودہ حکومت ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر اور شرائط کو تسلیم کر کے ہی قرض حاصل کر سکے گی، جس سے پاکستان کو قرض تو مل جائے گا مگر مہنگائی کا طوفان غریب کو تباہ و برباد کر دے گا، جسے روکنے کے لیے سیاسی افہام و تفہیم کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت ملکی اور معاشی استحکام سیاسی رویوں کا محتاج ہے، بعض سیاسی عناصر ملک میں انار کی پھیلا کر ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ساری قوم ایک ہی کشتی کی سوار ہے طوفانی لہریں بلا تفریق سب کو بہا کر لے جاتی ہیں۔
غریب و متوسط طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات پر وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں رمضان المبارک میں ریلیف دینے کے حوالے سے بڑے فیصلے کیے گئے۔
پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ، اسلام آباد میں 10 لاکھ خاندانوں کو صرف ایس ایم ایس کرنے پر مفت آٹا دیا جائے گا۔
ایک عام آدمی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، اشیائے خورونوش غریب کیا متوسط طبقے کی استطاعت سے بھی باہر ہوگئی ہیں۔
ایسی صورتحال میں وزیراعظم کی جانب سے ریلیف اور سبسڈی دینے کا فیصلہ مستحسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے ، لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس سارے عمل کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کوئی میکنزم ہمارے یہاں سرے سے موجود نہیں ہے۔
ماضی کی حکومتیں بھی لنگر خانے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، احساس پروگرام، سستی روٹی اسکیم سمیت متعدد پروگراموں کے ذریعے حکومتیں غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کا اعلان کرتی ہیں ، لیکن ان تمام اسکیموں میں اصل حقدار تو محروم رہے جب کہ ہوشیار اور چالبازوں نے خوب خوب فائدے اٹھائے۔
حکمراں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی گرانی سے بے خبر ، جوڑ توڑ کی سیاست میں مگن ہیں، سیاسی تماشے بازیاں عروج پر ہیں ، ادھرگرفتاریوں کے احکامات دیے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ احکامات معطل ہورہے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر درخواستیں دائر ہورہی ہیں اور روزانہ ہی سنی جارہی ہیں جب کہ ہزاروں عام شہریوں کے مقدمات کی سماعت تاریخ پر تاریخ کے کلچر کا شکار ہیں۔ملک ڈوب رہا ہے لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق موجودہ دور میں پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ، دولت کی غیر مساوی تقسیم، وسائل کی کمی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
غریب خاندان اپنے مصارفِ زندگی پورے نہیں کرپاتے اور غربت کے سمندر میں غوطے لگاتے لگاتے بالآخر ڈوب جاتے ہیں۔ صد افسوس پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں افراد ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس خودکشی کرنے، خیراتی اداروں سے مدد لینے یا چھوٹے، بڑے جرائم میں ملوث ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
غربت کی دلدل میں پھنسے ایسے خاندانوں کے بے شمار بچے یا تو سڑکوں کے کنارے بھیک مانگتے ہیں یا ایسے دینی مدارس میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جہاں کم از کم خوراک اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوں۔ تقریباً پچیس برس سے بعض مفاد پرست گروہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک ہو گئے ہیں۔
دہشت گردی کے اسباب پر تحقیق کرنے والے ماہرین غربت کو اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ فاقوں مرتا انسان چند سکوں کے عوض ضمیر فروشی پر تیار ہوجاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کو خیرات کی نہیں بلکہ ٹھوس، موثر اور قابلِ عمل منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہماری آ مدن کا خطیر حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ زراعت، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں انقلاب لائے بغیر ملک کو ترقی دینے کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ خوش حالی کا معجزہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے زور پر دکھانے کے خواہش مند ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری اپنی جگہ پر، مگر اس سے کہیں زیادہ ضرورت ملک میں موجود وسائل کو استعمال کرنے کی ہے۔
ملک کی نصف آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جس پر چند زمین داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے۔ ان چند خاندانوں کو چھوڑ کر ملک کے کروڑوں غریب زمینوں کو اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں اور بدلے میں بہ مشکل دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں۔
ہمیں زرعی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ملک کا لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے ، دریا سوکھ رہے ہیں ، نہریں خشک ہیں۔ ہمیں اس کا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا۔ آب پاشی کا نظام بہتر بنا کر لاکھوں ایکڑ بے کار پڑی اراضی اگر محنت کشوں میں ان کی ہمت اور استطاعت کے مطابق تقسیم کردی جائے تو بے شمار بے افراد بر سرِ روزگار ہوجائیں گے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امتیاز پسند لوگوں کا پیدا کردہ طبقاتی فرق کبھی نہیں ختم ہوسکتا۔ سیکیورٹی گارڈز، غیر معمولی پروٹوکول ، طبقہ اشرافیہ کے لیے الگ رہائشی آبادیوں کی تعمیر جیسے اقدامات نے دونوں طبقات کے درمیان بہت بلند فصیل حائل کر دی ہے۔ چند ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز صورت حال کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے۔
یہاں غریب آدمی امیروں کو سبسڈی دے رہا ہے۔ یعنی قلیل آمدن کے باوجود غریب اشیائے صرف پر بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بڑے کاروبار ، صنعتی یونٹس اور جاگیروں کے مالکان نہ صرف اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرتے بلکہ اپنے سیاسی و کاروباری تعلقات بینک سے قرض لینے اور پھر اسے معاف کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی شرح بہت بلند ہوچکی ہے اور اب یہ خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔غربت کے ساتھ مہنگائی بھی لوگوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہے۔
ایک غیرملکی ادارے کے سروے کی رپورٹ کے مطابق اکثر پاکستانیوں کی آمدن کا تقریباً پچاس فی صد حصہ خوراک پر خرچ ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ رپورٹ حقیقت کی پوری عکاسی نہیں کرتی۔ اس وقت ایک عام گھرانے کے کچن کا خرچ پندرہ سے بیس ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔
چار افراد پر مشتمل گھرانے کے ناشتے اور دو وقت کے معمولی اور بالکل سادہ کھانے کے اخراجات کا حساب لگائیں تو یہ رقم پانچ تا چھ سو روپے بنتی ہے۔
جن لوگوں کی ماہانہ آمدن تیس تا چالیس ہزار روپے ماہانہ ہے ان کے بارے میں تو یہ کہنا درست ہے کہ ان کی آمدن کا نصف حصہ خوراک پر خرچ ہوجاتا ہے ، لیکن جن کی ماہانہ آمدن بارہ تا اٹھارہ ہزار روپے ہے وہ کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھر م رکھتے ہیں، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
پاکستان کی یہ غربت فطری نہیں ہے، یہ غربت صرف دیہات تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اکثریت ان غریبوں کی ہے جو دو تین عشرے پہلے متوسط درجے کی زندگی گزار رہے تھے اور پھر رفتہ رفتہ غربت کی سطح پر آگئے۔
غربت کے بارے میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے۔ یعنی تقریبا چھ کروڑ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کی نصف سے زاید، سندھ کی تینتیس، خیبر پختون خوا کی بتیس اور پنجاب کی انیس فی صد آبادی اس صورت حال کا سامنا کررہی ہے۔ یقینا یہ اعداد و شمار خوف ناک ہیں۔
ہماری آبادی میں کئی طرح کے غذائی اجزا کی کمی ہے جن میں پروٹین سے لے کر آیوڈین، فولاد وغیرہ تک کی کمی شامل ہے۔
یہاں بھی غربت اہم وجہ ٹھہرائی جاتی ہے کیوں کہ آبادی کے بہت بڑے حصے کو خوراک میسر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس میں ضروری غذائیت نہیں ہے۔
پھر کھانے پینے کی اشیا کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نرخ سے بھی غریب افراد شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب ہنگامی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اس مسئلے کے حل میں مزید تاخیر بہت تباہ کن ثابت ہوگی۔
قومی خزانہ خالی ہے، عوام کے لیے اس میں کچھ نہیں لیکن اشرافیہ اور حکمران طبقے کے پروٹوکول اور مراعات پر جو خرچ ہو رہا ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں بلکہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے غریب کا خون نچوڑ کر حکمران طبقے اور ملک کی اشرافیہ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔
ان سفارشات کو عملی شکل دینے کی ضرورت تھی مگر فی الوقت یہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر ، مشیر ، ارکان پارلیمنٹ ، ججز ، جرنیل اور سرکاری افسر خود اپنی اپنی مراعات میں کمی کرنے کا رضاکارانہ اعلان کرتے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق ان سے یہ توقع عبث ہے۔
آئی ایم ایف پچھلی حکومت کے رویے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حالیہ مذاکرات میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر اپنی شرائط منوانے پر بضد ہے، سرِ دست موجودہ حکومت ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر اور شرائط کو تسلیم کر کے ہی قرض حاصل کر سکے گی، جس سے پاکستان کو قرض تو مل جائے گا مگر مہنگائی کا طوفان غریب کو تباہ و برباد کر دے گا، جسے روکنے کے لیے سیاسی افہام و تفہیم کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت ملکی اور معاشی استحکام سیاسی رویوں کا محتاج ہے، بعض سیاسی عناصر ملک میں انار کی پھیلا کر ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ساری قوم ایک ہی کشتی کی سوار ہے طوفانی لہریں بلا تفریق سب کو بہا کر لے جاتی ہیں۔