اناؤں کو چھوڑیں اور ملک کے لیے سر جوڑیں
لگتا ہے کسی کو بھی حالات کی سنگینی کا نہ ادراک ہے اور نہ ہی اصلاحِ احوال کا کوئی ارادہ یا عزم
سیاسی مارکیٹ میں موجود تمام سیاستدان اقتدار میں بھی رہے ہیں اور اپوزیشن میں بھی۔ ہر پارٹی اور ہر سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیا اور سیاسی حریفوں کو کچلنے کی کوشش کی۔
دوسروں نے تو سیاسی حریفوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی مگر عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار میں چن دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اِس وقت ملک کو درپیش چیلنجز کا حجم موجودہ سیاسی قائدین کی سوچ اور stature سے بڑا ہے۔
ان کا اندازِ سیاست روایتی اور گھسا پٹا ہے۔ لگتا ہے کسی کو بھی حالات کی سنگینی کا نہ ادراک ہے اور نہ ہی اصلاحِ احوال کا کوئی ارادہ یا عزم۔ ریاست کے کسی بھی ادارے کے قائدین میں وہ خوبیاں نظر نہیں آتیں جو دانائے راز نے میرِ کارواں کے لیے ضروری قرار دی تھیں۔
ملکی صورت حال کے بارے میں جو اضطراب اور تشویش پڑھے لکھے اور دردِ دل رکھنے والے خواتین وحضرات میں ہے وہ فیصلوں کا اختیار رکھنے والے افراد میں ناپید ہے۔ وہاں اقتدار تک پہنچنے یا اقتدار کو طول دینے کے منصوبوں اور اسکیموں کے سوا کچھ نہیں۔
قیامِ پاکستان کے پچیس سال بعد تک ہماری معیشت بھارت سے بہت آگے تھی اور ہم کوریا اور سنگاپور کے لیے رول ماڈل تھے۔ چند برس پہلے تک بھی یہ عالم تھا کہ پاکستان دنیا کے پہلے بیس ممالک میں شامل ہوا چاہتا تھا۔ 2017 میں معیشت کا عروج تھا، ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں تھے۔
پھر کسی کی نظر لگ گئی اور اناؤں کا گھناؤنا کھیل شروع ہوگیا، ایک انتہائی مضحکہ خیز بنیاد پر منتخب وزیراعظم کو ہٹانے سے ملک ایسا غیر مستحکم ہوا کہ اس کے بعد استحکام حاصل نہ کرسکا۔ پڑھے لکھوں کی محفل میں اب ہر چہرے پر ایک ہی سوال ہوتا ہے۔
''ملک کا کیا بنے گا''؟ موجودہ سنگین ترین صورتِ حال کا کوئی حل نکل آئے گا؟ ملک کے ممتاز دانشور اور کالم نگار جناب اظہارالحق صاحب کبھی کسی فرد کی محبت یا نفرت میں گرفتار نہیں ہوئے ، انھیں اگر کسی کا مفاد عزیز ہے تو صرف ملک کا اور ملک میں بسنے والے انسانوں کا ہے، کچھ روز قبل جب وہ ملک کی حالتِ زار سے زیادہ پریشان ہوئے تو انھوں نے اپنے کالم میں تجویز دی کہ ملک کی معیشت میں ڈالروں کی آکسیجن سے جان ڈالی جا سکتی ہے مگر ملک کے اندر اور باہر رہنے والے پاکستانیوں کو قابلِ اعتبار افراد نظر نہیں آتے۔
اگر کچھ نیک نام (credible) افراد اس چیز کابیڑہ اٹھا لیں اور آگے آئیں تو پاکستانی پیسوں کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اسی طرح سیلانی ٹرسٹ کے مولانا بشیر احمد فاروقی صاحب نے بھی کچھ تجاویز پیش کیں مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔
ملک ایک خوفناک سیلاب کی موجوں میں پھنسا ہوا ہو تو کیا ہم ساحل پر کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے رہیں یا ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا بھی چاہیے، ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردارر ادا کر سکتے ہیں۔
اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرنے اور کوئی قابلِ عمل حل ڈھونڈنے کے لیے اسلام آباد میں تیس کے قریب اصحابِ فکر وعمل کو اکٹھا کیا گیا۔
عدالتی شخصیات عموماً ایسی مجالس میں شریک ہونے سے گریز کرتی ہیں مگر راقم کی ذاتی درخواست پر ہائیکورٹ کے انتہائی نیک نام ریٹائرڈ جسٹس مجاہد مستقیم صاحب اس میں شریک ہوئے، ہماری دعوت پر سابق ڈیفنس سیکریٹری جنرل نعیم لودھی شریک ہوئے ،ہماری خصوصی دعوت پر الخدمت کے سربراہ جناب عبدالشکور بھی تشریف لائے، سابق سفیر جناب قاضی رضوان صاحب اور عبدالباسط صاحب بھی موجود تھے۔
ایف بی آر کی نمایندگی انکم ٹیکس کمشنر ناصر خان نے کی، سابق آئی جی جناب پرویز راٹھور، بزنس اور صنعت کی ممتاز شخصیات جناب اقبال شیخ، محمد جاوید چیمہ، نورالامین اور افتخار مسعود بھی موجود تھے۔ محترم اظہارالحق صاحب علالت کے باعث شریک نہ ہوسکے مگر دانشوروں اور کالم نگاروں کی نمایندگی برادرم خورشید ندیم نے بڑے بھرپور طریقے سے کی۔
سیاستدانوں میں سے صرف اکبر ایس بابر کو بلایا گیا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ان کی استقامت، ایمانداری اور قابلیّت نے بہت متاثر کیا۔ بہت سے باخبر حضرات بتا چکے ہیں کہ اس شخص کو عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس چھوڑدینے کے عوض بہت بڑے عہدے پیش کیے، مگر اس نے ہر پیشکش ٹھکرادی۔
پھر اس پر اپنے معتمد جرنیل سے دباؤ ڈلوایا مگر پھر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سابق صدر سجاد افضل چیمہ نے وکلاء کی نمایندگی کی اور اساتذہ کی جانب سے ڈاکٹر مسعود زاہد اور سابق سول سرونٹس کی جانب سے میاں جاویدصاحب، جمیل افضل، عبدالخالق سرگانہ اور بشیر عابد شریک ہوئے۔ اس بات پر سب نے زور دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مل بیٹھنا چاہیے۔
ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی جتنی اِس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی، ایسا گرینڈ ڈائیلاگ جس میں نواز شریف بھی ہوں اور عمران خان بھی، باقی پارٹیوں کے سربراہ بھی ہوں اور ملٹری اور جوڈیشری کی لیڈر شپ بھی شریک ہو۔ایک دو حضرات نے آئین پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کرانے پر زور دیا مگر کچھ شرکاء کا خیال تھا کہ الیکشن لازمی ہوں مگر ان سے قبل گرینڈ ڈائیلاگ منعقّد ہو جس میں کچھ بنیادی ایشوز پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے تاکہ ملک کی سمت کا واضح طور پر تعیّن ہوسکے۔
تمام قومی اداروں کی لیڈر شپ پر زور دیا گیا کہ ''اپنی اناؤں کو چھوڑیں اور ملک کی بقاء اور بہتری کے لیے سر جوڑیں''۔ موجودہ سیاسی نظام میں کوئی جان اور توانائی نہیں رہی یہ صرف چند خاندانوں کو تخفّظ دیتا ہے۔ اسے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں اُجلے کردار کے قابل اور جرأت مند افراد فیصلہ سازی کا حصّہ بنیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ قدم قدم پر آئین شکنی ہو رہی ہے، خود عدالتوں نے آئین کی روح کے خلاف ایسے فیصلے دے دیے جنھیں خود جج صاحبان نے rewriting of constitution قرار دیا مگر کوئی ازالہ نہیں ہوسکا۔
آئین میں بہت زیادہ ابہام ہے، اس میں زیادہ صراحت پیدا کرنے اور اتنا توانا بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ خود کسی بھی آئین شکن کا راستہ روک سکے اور اسے سزا دے سکے۔ معزز جج صاحب سمیت تمام شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تعیّناتیوں کا طریقۂ کار شفاف اورfair بنانے کی ضرورت ہے، ایک حل یہ ہے کہ Judicial service of Pakistan کا اجراء کیا جائے اور قانون کی ڈگری رکھنے والے مقابلے کے امتحان کے ذریعے عدلیہ میں داخل ہوسکیں۔
لوکل باڈیز سسٹم بحال ہو اور اسے مزیدempower کیا جائے کیونکہ مقامی حکومتیں ہی جمہوریّت کی اساس ہیں۔ اجلاس کے شرکاء کا اس بات پر مکمّل اتفاق تھا کہ گرینڈڈائیلاگ میں بنیادی اشوز پر تمام قائدین اتفاق رائے پیدا کرکے متفقہ طور پران پر عمل در آمد کرائیں۔ اس بات کو باعثِ شرم قرار دیا گیا کہ ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی گندم اور سبزیاں درآمد کرتے ہیں، اس بات پر زور دیا گیا کہ زرعی زمین پر ہر قسم کی تعمیر کو جرم قرار دیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا کہ باہر سے پاکستان کے بینکوں میں ڈالر بھیجنے کاطریقۂ کار آسان بنایا جائے۔ اس بات پراتفاق رائے پایا گیا کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر بند کردیے جائیںاور اوورسیز پاکستانی متحد ہو کر میزبان ملک کی سیاست میں بھرپور حصہ لیں۔
اس تجویز سے بھی اتفاق کیا گیا کہ احتسابی عمل میں شفافیّت کو یقینی بنانے کے لیے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے سربراہوں کی تقرّری وزیراعظم یا قائدِ حزب ِ اختلاف کے بجائے نیک نام افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی کیا کرے۔مگر یہ سب کون کرے؟ گرینڈ ڈائیلاگ کی میزبانی کون کرے؟ میری تجویز ہے کہ ملک کی بقاء کی خاطر سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہونے کے ناطے میاں نوازشریف آگے آئیں اور عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دیں اور وہ بھی روایتی ضد چھوڑکر مثبت ردّعمل کا مظاہرہ کریں۔
میزبانی صدر صاحب کریں اور اس میں سروس چیفس اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج صاحبان شریک ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ جس روز پریذیڈنسی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوگا، اسی روز ملک کے کروڑوں باشندوں کی مستقبل سے مایوسی چَھٹ جائے گی، برین ڈرین رک جائے گا اور قوم کا مورال آسمانوں کو چھولے گا۔ کیا ہمارے سیاسی قائدین وطنِ عزیز کی خاطر Statesmen بن کر دکھائیں گے؟
دوسروں نے تو سیاسی حریفوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی مگر عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار میں چن دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اِس وقت ملک کو درپیش چیلنجز کا حجم موجودہ سیاسی قائدین کی سوچ اور stature سے بڑا ہے۔
ان کا اندازِ سیاست روایتی اور گھسا پٹا ہے۔ لگتا ہے کسی کو بھی حالات کی سنگینی کا نہ ادراک ہے اور نہ ہی اصلاحِ احوال کا کوئی ارادہ یا عزم۔ ریاست کے کسی بھی ادارے کے قائدین میں وہ خوبیاں نظر نہیں آتیں جو دانائے راز نے میرِ کارواں کے لیے ضروری قرار دی تھیں۔
ملکی صورت حال کے بارے میں جو اضطراب اور تشویش پڑھے لکھے اور دردِ دل رکھنے والے خواتین وحضرات میں ہے وہ فیصلوں کا اختیار رکھنے والے افراد میں ناپید ہے۔ وہاں اقتدار تک پہنچنے یا اقتدار کو طول دینے کے منصوبوں اور اسکیموں کے سوا کچھ نہیں۔
قیامِ پاکستان کے پچیس سال بعد تک ہماری معیشت بھارت سے بہت آگے تھی اور ہم کوریا اور سنگاپور کے لیے رول ماڈل تھے۔ چند برس پہلے تک بھی یہ عالم تھا کہ پاکستان دنیا کے پہلے بیس ممالک میں شامل ہوا چاہتا تھا۔ 2017 میں معیشت کا عروج تھا، ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں تھے۔
پھر کسی کی نظر لگ گئی اور اناؤں کا گھناؤنا کھیل شروع ہوگیا، ایک انتہائی مضحکہ خیز بنیاد پر منتخب وزیراعظم کو ہٹانے سے ملک ایسا غیر مستحکم ہوا کہ اس کے بعد استحکام حاصل نہ کرسکا۔ پڑھے لکھوں کی محفل میں اب ہر چہرے پر ایک ہی سوال ہوتا ہے۔
''ملک کا کیا بنے گا''؟ موجودہ سنگین ترین صورتِ حال کا کوئی حل نکل آئے گا؟ ملک کے ممتاز دانشور اور کالم نگار جناب اظہارالحق صاحب کبھی کسی فرد کی محبت یا نفرت میں گرفتار نہیں ہوئے ، انھیں اگر کسی کا مفاد عزیز ہے تو صرف ملک کا اور ملک میں بسنے والے انسانوں کا ہے، کچھ روز قبل جب وہ ملک کی حالتِ زار سے زیادہ پریشان ہوئے تو انھوں نے اپنے کالم میں تجویز دی کہ ملک کی معیشت میں ڈالروں کی آکسیجن سے جان ڈالی جا سکتی ہے مگر ملک کے اندر اور باہر رہنے والے پاکستانیوں کو قابلِ اعتبار افراد نظر نہیں آتے۔
اگر کچھ نیک نام (credible) افراد اس چیز کابیڑہ اٹھا لیں اور آگے آئیں تو پاکستانی پیسوں کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اسی طرح سیلانی ٹرسٹ کے مولانا بشیر احمد فاروقی صاحب نے بھی کچھ تجاویز پیش کیں مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔
ملک ایک خوفناک سیلاب کی موجوں میں پھنسا ہوا ہو تو کیا ہم ساحل پر کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے رہیں یا ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا بھی چاہیے، ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردارر ادا کر سکتے ہیں۔
اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرنے اور کوئی قابلِ عمل حل ڈھونڈنے کے لیے اسلام آباد میں تیس کے قریب اصحابِ فکر وعمل کو اکٹھا کیا گیا۔
عدالتی شخصیات عموماً ایسی مجالس میں شریک ہونے سے گریز کرتی ہیں مگر راقم کی ذاتی درخواست پر ہائیکورٹ کے انتہائی نیک نام ریٹائرڈ جسٹس مجاہد مستقیم صاحب اس میں شریک ہوئے، ہماری دعوت پر سابق ڈیفنس سیکریٹری جنرل نعیم لودھی شریک ہوئے ،ہماری خصوصی دعوت پر الخدمت کے سربراہ جناب عبدالشکور بھی تشریف لائے، سابق سفیر جناب قاضی رضوان صاحب اور عبدالباسط صاحب بھی موجود تھے۔
ایف بی آر کی نمایندگی انکم ٹیکس کمشنر ناصر خان نے کی، سابق آئی جی جناب پرویز راٹھور، بزنس اور صنعت کی ممتاز شخصیات جناب اقبال شیخ، محمد جاوید چیمہ، نورالامین اور افتخار مسعود بھی موجود تھے۔ محترم اظہارالحق صاحب علالت کے باعث شریک نہ ہوسکے مگر دانشوروں اور کالم نگاروں کی نمایندگی برادرم خورشید ندیم نے بڑے بھرپور طریقے سے کی۔
سیاستدانوں میں سے صرف اکبر ایس بابر کو بلایا گیا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ان کی استقامت، ایمانداری اور قابلیّت نے بہت متاثر کیا۔ بہت سے باخبر حضرات بتا چکے ہیں کہ اس شخص کو عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس چھوڑدینے کے عوض بہت بڑے عہدے پیش کیے، مگر اس نے ہر پیشکش ٹھکرادی۔
پھر اس پر اپنے معتمد جرنیل سے دباؤ ڈلوایا مگر پھر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سابق صدر سجاد افضل چیمہ نے وکلاء کی نمایندگی کی اور اساتذہ کی جانب سے ڈاکٹر مسعود زاہد اور سابق سول سرونٹس کی جانب سے میاں جاویدصاحب، جمیل افضل، عبدالخالق سرگانہ اور بشیر عابد شریک ہوئے۔ اس بات پر سب نے زور دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مل بیٹھنا چاہیے۔
ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی جتنی اِس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی، ایسا گرینڈ ڈائیلاگ جس میں نواز شریف بھی ہوں اور عمران خان بھی، باقی پارٹیوں کے سربراہ بھی ہوں اور ملٹری اور جوڈیشری کی لیڈر شپ بھی شریک ہو۔ایک دو حضرات نے آئین پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کرانے پر زور دیا مگر کچھ شرکاء کا خیال تھا کہ الیکشن لازمی ہوں مگر ان سے قبل گرینڈ ڈائیلاگ منعقّد ہو جس میں کچھ بنیادی ایشوز پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے تاکہ ملک کی سمت کا واضح طور پر تعیّن ہوسکے۔
تمام قومی اداروں کی لیڈر شپ پر زور دیا گیا کہ ''اپنی اناؤں کو چھوڑیں اور ملک کی بقاء اور بہتری کے لیے سر جوڑیں''۔ موجودہ سیاسی نظام میں کوئی جان اور توانائی نہیں رہی یہ صرف چند خاندانوں کو تخفّظ دیتا ہے۔ اسے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں اُجلے کردار کے قابل اور جرأت مند افراد فیصلہ سازی کا حصّہ بنیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ قدم قدم پر آئین شکنی ہو رہی ہے، خود عدالتوں نے آئین کی روح کے خلاف ایسے فیصلے دے دیے جنھیں خود جج صاحبان نے rewriting of constitution قرار دیا مگر کوئی ازالہ نہیں ہوسکا۔
آئین میں بہت زیادہ ابہام ہے، اس میں زیادہ صراحت پیدا کرنے اور اتنا توانا بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ خود کسی بھی آئین شکن کا راستہ روک سکے اور اسے سزا دے سکے۔ معزز جج صاحب سمیت تمام شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تعیّناتیوں کا طریقۂ کار شفاف اورfair بنانے کی ضرورت ہے، ایک حل یہ ہے کہ Judicial service of Pakistan کا اجراء کیا جائے اور قانون کی ڈگری رکھنے والے مقابلے کے امتحان کے ذریعے عدلیہ میں داخل ہوسکیں۔
لوکل باڈیز سسٹم بحال ہو اور اسے مزیدempower کیا جائے کیونکہ مقامی حکومتیں ہی جمہوریّت کی اساس ہیں۔ اجلاس کے شرکاء کا اس بات پر مکمّل اتفاق تھا کہ گرینڈڈائیلاگ میں بنیادی اشوز پر تمام قائدین اتفاق رائے پیدا کرکے متفقہ طور پران پر عمل در آمد کرائیں۔ اس بات کو باعثِ شرم قرار دیا گیا کہ ہم زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی گندم اور سبزیاں درآمد کرتے ہیں، اس بات پر زور دیا گیا کہ زرعی زمین پر ہر قسم کی تعمیر کو جرم قرار دیا جائے۔
یہ بھی کہا گیا کہ باہر سے پاکستان کے بینکوں میں ڈالر بھیجنے کاطریقۂ کار آسان بنایا جائے۔ اس بات پراتفاق رائے پایا گیا کہ بیرون ممالک میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں اور دفاتر بند کردیے جائیںاور اوورسیز پاکستانی متحد ہو کر میزبان ملک کی سیاست میں بھرپور حصہ لیں۔
اس تجویز سے بھی اتفاق کیا گیا کہ احتسابی عمل میں شفافیّت کو یقینی بنانے کے لیے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے سربراہوں کی تقرّری وزیراعظم یا قائدِ حزب ِ اختلاف کے بجائے نیک نام افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی کیا کرے۔مگر یہ سب کون کرے؟ گرینڈ ڈائیلاگ کی میزبانی کون کرے؟ میری تجویز ہے کہ ملک کی بقاء کی خاطر سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہونے کے ناطے میاں نوازشریف آگے آئیں اور عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دیں اور وہ بھی روایتی ضد چھوڑکر مثبت ردّعمل کا مظاہرہ کریں۔
میزبانی صدر صاحب کریں اور اس میں سروس چیفس اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج صاحبان شریک ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ جس روز پریذیڈنسی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوگا، اسی روز ملک کے کروڑوں باشندوں کی مستقبل سے مایوسی چَھٹ جائے گی، برین ڈرین رک جائے گا اور قوم کا مورال آسمانوں کو چھولے گا۔ کیا ہمارے سیاسی قائدین وطنِ عزیز کی خاطر Statesmen بن کر دکھائیں گے؟