پاکستان کیوں نہیں بدل سکتا
بدلتی دنیا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے فیصلے کیے جائیں
پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال کا بنیادی سبب صرف سیاسی عدم استحکام ہی نہیں بلکہ معاشی تنزلی کا مسلسل عمل ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر کوئی ملک معاشی اعتبار سے ترقی کر رہا ہو تو وہاں بڑے سیاسی بحران جنم نہیں لیتے۔ ہماری زیادہ توجہ عموماً سیاسی بحران کو ختم یا کم کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور ہم اپنے نظام اور پالیسیوں میں وہ اصلاحات نہیں لاتے جن کے بغیر معیشت کو ڈوبنے سے بچانا ممکن نہیں ہوتا۔
پون صدی سے ترقی دشمن پالیسیوں کے تحت اپنا نظام چلا رہے ہیں۔ ہم نے چند ایسے نعرے، نظریے اور مفروضے بنا رکھے ہیں جن کی بنیاد خوف ، دشمنی اور محاذ آرائی پر رکھی گئی ہے۔ شہریوں کے ذہنوں میں ایسے منفی خیالات راسخ کر دیے گئے ہیں جن کو بدلنا اتنا آسان نہیں ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے ہم نے کیا سیکھا ؟ اتنے بڑے واقعہ کے بعد کیا ہم نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کیا ؟ ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور باقی ماندہ پاکستان میں وہ سب کچھ ہوتا رہا جس کے باعث ملک کے مشرقی بازو نے ہم سے نجات حاصل کرنے میں اپنی عافیت جانی تھی۔
1947سے 197 تک کیا ہوا اور اس کے بعد سے 2023 تک کیا کچھ ہوا اور ہورہا ہے اس کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تاہم اس حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے کہ اب ہمارے پاس مہلت بہت کم ہے۔
معاشی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں میں جو اصلاحات کافی عرصے سے ناگزیر ہوچکی ہیں ان پر عملدرآمد میں مزید تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
کیا ہم سب اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے؟ کیا ہم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ امریکا افغانستان سے جاچکا ہے؟ کیا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ سوویت یونین کے خاتمے اور افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نئی بساط بچھائی جارہی ہے؟
دنیا اور خطے کے تمام اہم ممالک نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں ، پرانی دشمنیاں ختم ہورہی ہیں ، دوستیوں کے نئے رشتے بنائے جا رہے ہیں اور وہ ملک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں جو کچھ وقت پہلے تک ایک دوسرے کو اپنا دائمی دشمن تصور کیا کرتے تھے۔
کیا ہم نے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ کیا ہم نے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کے حوالے سے کسی سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا ہے؟ دیانتداری سے سوچا جائے تو اوپر اٹھائے گئے ہر سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔
یہ باتیں اس لیے بھی ذہن میں آرہی ہیں کہ پچھلے چند ماہ کے دوران بعض حیرت انگیز اور ناقابل تصور واقعات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات تیزی سے بہتر ہونے والے ہیں۔ چین نے ایک بہترین ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدے کی راہ ہموار کردی ہے۔
ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تقریباً سات سال سے منقطع تھے۔ اب سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر یہ دونوں ملک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کیونکہ اس پیش رفت کے بعد بہت جلد علاقائی اور عالمی سیاست میں کئی دور رس تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔
سعودی عرب اور ایران متضاد مسلک اور نظریاتی فکر رکھنے والے ملک ہیں۔ سعودی عرب اب سے کچھ عرصے پہلے تک ایک سخت گیر سنی ملک تھا جب کہ ایران کٹر شیعہ اسلامی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا۔
سعودی عرب کی آبادی 3 کروڑ 42 لاکھ اور ایران کی آبادی 8کروڑ 31 لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ دونوں ملکوں کا شمار تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی ایران سے کافی کم ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے سعودی عرب ایران سے کافی بڑا ہے۔ اس کا رقبہ 21 لاکھ مربع کلو میٹر جب کہ ایران کا رقبہ 16 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔
کم آبادی اور بڑا رقبہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو ایران پر کئی اعتبار سے سبقت حاصل ہے۔ تیل کی بے پناہ آمدنی کا فائدہ سعودی شہریوں کو عام ایرانیوں سے کہیں زیادہ پہنچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب تیل کی قیمت کم رکھنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔
اس کے برعکس عالمی پابندیاں عائد ہونے سے پہلے تک ایران تیل کی قیمت زیادہ رکھنے کا حامی تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی کثیر آبادی کے معیار زندگی کو زیادہ تیزی سے بہتر کرسکتا تھا۔ یہ دونوں ملک اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کی بھی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
سعودی عرب چونکہ زیادہ مالدار ملک ہے اس لیے وہ اسلامی ملکوں کے مالی مسائل حل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوتے چلے گئے۔
ایران کی امریکا مخالف پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب خلیج میں امریکی مفادات کے لیے پہلے سے زیادہ اہمیت اختیارکر گیا۔ ایران میں انقلاب کے بعد 1980 میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو 8 سال جاری رہی۔ اس طویل جنگ میں ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق دونوں ملکوں کے 11 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور فریقین کو ایک ہزار ارب ڈالر سے کہیں زیادہ کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں نے اس جنگ میں عراق کی بھرپور مالی مدد کی۔ سعودی عرب نے 30 ارب ڈالر فراہم کر کے عراق کی سب سے زیادہ مالی مدد کی تھی۔ امریکا اور مغربی یورپ کے ملک عراق کی حمایت کر رہے تھے جب کہ چین، لیبیا اور شام ایران کا ساتھ دے رہے تھے۔ 2003 میں امریکا نے عراق پر قبضہ کر کے صدام حسین کا خاتمہ کردیا۔ صدام حسین ایران کا بڑا مخالف تھا۔
امریکی اقدام سے سعودی مفادات کو نقصان پہنچا اور عراق میں شیعہ بالادستی والی حکومت اقتدار میں آگئی۔ اس تبدیلی نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔ بعدازاں ، عرب ملکوں میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دونوں ملک اپنے ہم خیال اور ہم مسلک گروہوں کی حمایت کرنے لگے اور عرب دنیا دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔
متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر اور اردن سعودی عرب اور شام اور عراق ایران کی حمایت کرنے لگے۔ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں خوں ریز خانہ جنگی سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل اور دمشق سمیت متعدد تاریخی شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے۔
سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن میں اس وقت بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ ایران کے حامی حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پر کئی مرتبہ حملے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا منظر نامہ کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اچھے تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے ، اس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ یہ ملک ایک نہیں بلکہ کئی طرح سے ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے۔
دونوں ملکوں نے باہمی کشیدگی اور محاذ آرائی کی بہت بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت، فیصلہ کرنے والے طاقتور ادارے اور شخصیات ماضی کی نفرتوں کو فراموش کرکے ایک پرامن مستقبل کی جانب سفر کرنے کا فیصلہ کر لیں گے۔
چین کی بھی تعریف کی جانی چاہیے جس کی ثالثی کے نتیجے میں دو متحارب اور مخالف ملکوں نے ایک ایسا تاریخی معاہدہ کرلیا جو نہ صرف عرب دنیا اور ایشیا بلکہ عالمی سیاست میں ہمہ جہت تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
پاکستان کا معاشی بحران اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم معاشی، علاقائی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے اپنی ماضی کی پالیسیوں کو ترک کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ نہیں کریں گے۔
ایران اور سعودی عرب کی مثال سامنے رکھی جائے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے فیصلے کیے جائیں۔ سعودی عرب اور ایران بدل سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں بدل سکتا؟اس سوال کا جواب جلد دینا ہوگا۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر کوئی ملک معاشی اعتبار سے ترقی کر رہا ہو تو وہاں بڑے سیاسی بحران جنم نہیں لیتے۔ ہماری زیادہ توجہ عموماً سیاسی بحران کو ختم یا کم کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور ہم اپنے نظام اور پالیسیوں میں وہ اصلاحات نہیں لاتے جن کے بغیر معیشت کو ڈوبنے سے بچانا ممکن نہیں ہوتا۔
پون صدی سے ترقی دشمن پالیسیوں کے تحت اپنا نظام چلا رہے ہیں۔ ہم نے چند ایسے نعرے، نظریے اور مفروضے بنا رکھے ہیں جن کی بنیاد خوف ، دشمنی اور محاذ آرائی پر رکھی گئی ہے۔ شہریوں کے ذہنوں میں ایسے منفی خیالات راسخ کر دیے گئے ہیں جن کو بدلنا اتنا آسان نہیں ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے ہم نے کیا سیکھا ؟ اتنے بڑے واقعہ کے بعد کیا ہم نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کیا ؟ ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور باقی ماندہ پاکستان میں وہ سب کچھ ہوتا رہا جس کے باعث ملک کے مشرقی بازو نے ہم سے نجات حاصل کرنے میں اپنی عافیت جانی تھی۔
1947سے 197 تک کیا ہوا اور اس کے بعد سے 2023 تک کیا کچھ ہوا اور ہورہا ہے اس کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تاہم اس حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے کہ اب ہمارے پاس مہلت بہت کم ہے۔
معاشی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں میں جو اصلاحات کافی عرصے سے ناگزیر ہوچکی ہیں ان پر عملدرآمد میں مزید تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
کیا ہم سب اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے؟ کیا ہم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ امریکا افغانستان سے جاچکا ہے؟ کیا ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ سوویت یونین کے خاتمے اور افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نئی بساط بچھائی جارہی ہے؟
دنیا اور خطے کے تمام اہم ممالک نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں ، پرانی دشمنیاں ختم ہورہی ہیں ، دوستیوں کے نئے رشتے بنائے جا رہے ہیں اور وہ ملک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں جو کچھ وقت پہلے تک ایک دوسرے کو اپنا دائمی دشمن تصور کیا کرتے تھے۔
کیا ہم نے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ کیا ہم نے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کے حوالے سے کسی سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا ہے؟ دیانتداری سے سوچا جائے تو اوپر اٹھائے گئے ہر سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔
یہ باتیں اس لیے بھی ذہن میں آرہی ہیں کہ پچھلے چند ماہ کے دوران بعض حیرت انگیز اور ناقابل تصور واقعات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات تیزی سے بہتر ہونے والے ہیں۔ چین نے ایک بہترین ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدے کی راہ ہموار کردی ہے۔
ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تقریباً سات سال سے منقطع تھے۔ اب سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر یہ دونوں ملک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کیونکہ اس پیش رفت کے بعد بہت جلد علاقائی اور عالمی سیاست میں کئی دور رس تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔
سعودی عرب اور ایران متضاد مسلک اور نظریاتی فکر رکھنے والے ملک ہیں۔ سعودی عرب اب سے کچھ عرصے پہلے تک ایک سخت گیر سنی ملک تھا جب کہ ایران کٹر شیعہ اسلامی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا۔
سعودی عرب کی آبادی 3 کروڑ 42 لاکھ اور ایران کی آبادی 8کروڑ 31 لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ دونوں ملکوں کا شمار تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی آبادی ایران سے کافی کم ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے سعودی عرب ایران سے کافی بڑا ہے۔ اس کا رقبہ 21 لاکھ مربع کلو میٹر جب کہ ایران کا رقبہ 16 لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔
کم آبادی اور بڑا رقبہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کو ایران پر کئی اعتبار سے سبقت حاصل ہے۔ تیل کی بے پناہ آمدنی کا فائدہ سعودی شہریوں کو عام ایرانیوں سے کہیں زیادہ پہنچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب تیل کی قیمت کم رکھنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔
اس کے برعکس عالمی پابندیاں عائد ہونے سے پہلے تک ایران تیل کی قیمت زیادہ رکھنے کا حامی تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی کثیر آبادی کے معیار زندگی کو زیادہ تیزی سے بہتر کرسکتا تھا۔ یہ دونوں ملک اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کی بھی شدید خواہش رکھتے ہیں۔
سعودی عرب چونکہ زیادہ مالدار ملک ہے اس لیے وہ اسلامی ملکوں کے مالی مسائل حل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوتے چلے گئے۔
ایران کی امریکا مخالف پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب خلیج میں امریکی مفادات کے لیے پہلے سے زیادہ اہمیت اختیارکر گیا۔ ایران میں انقلاب کے بعد 1980 میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ شروع ہوگئی جو 8 سال جاری رہی۔ اس طویل جنگ میں ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق دونوں ملکوں کے 11 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور فریقین کو ایک ہزار ارب ڈالر سے کہیں زیادہ کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں نے اس جنگ میں عراق کی بھرپور مالی مدد کی۔ سعودی عرب نے 30 ارب ڈالر فراہم کر کے عراق کی سب سے زیادہ مالی مدد کی تھی۔ امریکا اور مغربی یورپ کے ملک عراق کی حمایت کر رہے تھے جب کہ چین، لیبیا اور شام ایران کا ساتھ دے رہے تھے۔ 2003 میں امریکا نے عراق پر قبضہ کر کے صدام حسین کا خاتمہ کردیا۔ صدام حسین ایران کا بڑا مخالف تھا۔
امریکی اقدام سے سعودی مفادات کو نقصان پہنچا اور عراق میں شیعہ بالادستی والی حکومت اقتدار میں آگئی۔ اس تبدیلی نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔ بعدازاں ، عرب ملکوں میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دونوں ملک اپنے ہم خیال اور ہم مسلک گروہوں کی حمایت کرنے لگے اور عرب دنیا دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔
متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر اور اردن سعودی عرب اور شام اور عراق ایران کی حمایت کرنے لگے۔ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں خوں ریز خانہ جنگی سے لاکھوں افراد لقمۂ اجل اور دمشق سمیت متعدد تاریخی شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے۔
سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن میں اس وقت بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ ایران کے حامی حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب پر کئی مرتبہ حملے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا منظر نامہ کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اچھے تعلقات کا ایک نیا دور شروع کرنے کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے ، اس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ یہ ملک ایک نہیں بلکہ کئی طرح سے ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے۔
دونوں ملکوں نے باہمی کشیدگی اور محاذ آرائی کی بہت بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت، فیصلہ کرنے والے طاقتور ادارے اور شخصیات ماضی کی نفرتوں کو فراموش کرکے ایک پرامن مستقبل کی جانب سفر کرنے کا فیصلہ کر لیں گے۔
چین کی بھی تعریف کی جانی چاہیے جس کی ثالثی کے نتیجے میں دو متحارب اور مخالف ملکوں نے ایک ایسا تاریخی معاہدہ کرلیا جو نہ صرف عرب دنیا اور ایشیا بلکہ عالمی سیاست میں ہمہ جہت تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
پاکستان کا معاشی بحران اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم معاشی، علاقائی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے اپنی ماضی کی پالیسیوں کو ترک کرنے کا جرأتمندانہ فیصلہ نہیں کریں گے۔
ایران اور سعودی عرب کی مثال سامنے رکھی جائے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے فیصلے کیے جائیں۔ سعودی عرب اور ایران بدل سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں بدل سکتا؟اس سوال کا جواب جلد دینا ہوگا۔