توشہ خانے کا کڑوا سچ

توشہ خانہ کے حمام میں سب ننگے دکھائی دے رہے ہیں

atharqhasan@gmail.com

آج کل ہر طرف توشہ خانہ کا شور ہے ۔ ایک عام پاکستانی شاید توشہ خانہ کے متعلق کچھ جانتا بھی نہ ہو لیکن ہمارے حکمرانوں اور ہماری اشرافیہ نے ہم سب کو توشہ خانہ ازبر کرادیا ہے۔

توشہ خانے سے سرکار کا مال ''مال مفت دل بے رحم '' کے مصداق وصول کرنے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں توشہ خانہ کے حمام میں سب ننگے دکھائی دے رہے ہیں۔

توشہ خانہ در اصل کیا ہے عوام کی آسانی کے لیے یہ ایک اردو اصطلاح ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ وہ جگہ ہوتی تھی جہاں قیمتی اشیائ، جیسے سونا، چاندی، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کا ذخیرہ محفوظ ر رکھا جاتا تھا۔

اسلام کے ابتدائی ایام میں جب اسلامی ریاست تیزی سے پھیل رہی تھی، مسلمانوں نے مال غنیمت اور مفتوحہ زرخیز زمینوں سے خراج کے طور پر بے پناہ دولت اور خزانے حاصل کیے تو اس وقت ان قیمتی اشیاء کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک مرکزی ذخیرہ خانہ قائم کیا گیا جسے توشہ خانہ کہا جاتا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں توشہ خانہ کا انتظام خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا اور اس امر کا بہت خیال رکھا کہ امت مسلمہ کے مال کی تقسیم منصفانہ ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد توشہ خانہ کا انتظام خلفائے راشدین اور ان کے مقرر کردہ دیگر عہدیداروں نے کیا۔

توشہ خانہ اسلامی دنیا کی پوری تاریخ میں اسلامی طرز حکمرانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔مسلمانوں کی دولت کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ توشہ خانہ کو خیراتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

توشہ خانہ میں سے ذخیرہ شدہ فنڈز اور وسائل غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد، عوامی کاموں اور بنیادی ڈھانچے کی مالی اعانت اور مختلف مذہبی اور تعلیمی اداروں کی مدد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ۔توشہ خانہ کو فوجی مہمات میں جنگی ساز وسامان کی تیاری کے ساتھ ساتھ فوجیوں اور اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

مجموعی طور پر توشہ خانہ اسلامی تاریخ اور حکمرانی کے ایک اہم پہلو کی نمایندگی کرتا ہے اور وسائل کے ذمے دارانہ انتظام کی اہمیت اور مجموعی طور پر معاشرے کی بہتری کے لیے دولت اور وسائل کے استعمال کی ضرورت کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔


ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارا واسطہ توشہ خانے کے ان محافظوں سے پڑا ہے جو اس پر حق ملکیت جتا کر اس کی حفاظت کے بجائے اس کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔

توشہ خانے کی جو تفصیلات عدالتی حکم پر حکومت نے عوام کے سامنے رکھی ہیں، اس کے مطابق عوام کے مال پر بے رحم اشرافیہ نے توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور اشرافی طبقے میں پاک دامنی کا دعویدار کوئی بھی شخص ریاست کو موصول شدہ تحائف کے حصول سے اپنا دامن نہیں بچا سکا کجا کہ یہ ریاستی تحائف جو مختلف ممالک کی جانب سے ریاست پاکستان کے عہدیداروں کو غیرممالک کے دوروں کے موقعے پربطور تحفہ دیے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض کا شمار تو نوادرات کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔

ان تاریخی تحائف کو ان کی اصل قیمت سے کہیں کم لاگت کا حساب کتاب لگا کر اونے پونے داموں بغل میں چھپا لیا جاتا ہے اور اس معمولی قیمت کی ادائیگی کر کے اپنے دل کو تسلی دے دی جاتی ہے کہ فرض ادا ہو گیا۔

حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ریاستی تحائف اصل لاگت سے بھی زیادہ قیمت میں بولی لگا کر فروخت کرنے چاہئیں اور ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کو قومی خزانے میں جمع کر کے اسلامی طرز معاشرت کی پیروی کرتے ہوئے اس کے وسائل کوغریبوں اور ضرورت مندوں کی مدداورمالی اعانت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

بصد احترام عرض ہے کہ اشرافی طبقے کے جن سیکڑوں امراء کے نام توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف کی قطار میں نظر آرہے ہیں ،کیا وہ اس کے مستحق تھے کہ ایک غریب ریاست کو حاصل شدہ تحائف کو اونے پونے داموں وصول کر کے اپنے استعمال میں لے آئیں۔

بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں اور وہ اس طرح کے کئی تحائف کسی بھاؤ تاؤ کے بغیر خریداری کی سکت رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے اس لالچ اور حرص کا جس نے مملکت خداداد کے وسائل کو اس طبقے پر حلال قرار دے رکھا ہے اور ان کے اپنے ہی بنائے ہر قانون اور ضابطے کے تحت وہ ان تحائف کی اونے پونے داموں خریداری کے حقدار بھی بن جاتے ہیں۔

عوام تو ان تحائف کی تصویریں دیکھ کر ہی آہیں بھرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کو مزید تحائف ملتے رہیں تا کہ ہمارایہ بے رحم اشرافی طبقہ ان تحائف کو وصول کر کے اپنی من کی مراد پوری اور اپنے لالچ اور حرص کی پیاس بجھاتا رہے ۔

توشہ خانے کا یہ قصہ جو اسلامی معاشرے میں غریبوں کی مالی اعانت سے شروع ہوا تھا وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک اسلامی ملک میں اشرافی طبقے کی مالی اعانت میں تبدیل ہو کر ان کے لیے اعلیٰ نسل کی گھڑیوں اور مشہور زمانہ مرسیڈیز گاڑیوں کے حصول کے بعد تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے بلکہ یہ کہاجائے تو بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ توشہ خانے میں موجود چھوٹی چھوٹی اشیاء جن کی قیمت کا تعین نہیں ہو سکا، ان کو بھی بلا قیمت اپنے دامن میں سمیٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، آج کا کڑوا سچ یہی ہے۔
Load Next Story