سیلابوں سے ہم نے کوئی سبق سیکھا

گرمی کے موسم میں گلیشیئرز پگھلنے سے دوبارہ سیلابی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے


سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچنے کےلیے آج تک مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ملک میں پچھلے سال سیلاب کی صورت ایک ہولناک آفت آئی تھی۔ کم و بیش پورا ملک متاثر ہوا۔ قومی معیشت اور دیگر نقصانات کا مجموعی تخمینہ تقریباً 28 بلین ڈالرسے زائد لگایا گیا ہے۔ تقریباً 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور ان میں سے اکثریت گھر و املاک تباہ ہونے پر بے گھر ہوِئے۔ یونیسف کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں بچے مختلف بیماریوں اور وبائی امراض کا شکار ہوئے۔

سیلاب کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بہت گہرے پڑے۔ چونکہ زراعت کے شعبے سے لے کر سیاحت اور حتیٰ کہ مواصلات کا نظام تک بھی درہم برہم ہوا۔ سیلاب کی وجہ سے جس غذائی بحران کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا اس کا اثر پچھلے سال بھی دیکھنے کو ملا اور کم کاشت رقبہ کی وجہ سے شاید امسال بھی پا کستان کو غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑے۔ غرضیکہ زندگی کا ہر شعبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرور متاثر ہوا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ ڈوبتی معیشت کی کچھ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ سیلاب بھی ہے۔ لیکن انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی تک ہم نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اس صورتحال سے بچنے کےلیے ابھی تک کوئی ٹھوس کوششیں کی گئیں۔

سیلاب کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں اور سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی براہ راست اثرانداز ہورہی ہے اور مختلف موسموں کے دورانیے کا غیر معمولی طور پر بڑھ جانا اور گھٹ جانا اس امر کی تصدیق کےلیے کافی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ حکومتی غفلت و لاپرواہی، انتظامی ڈھانچے میں خرابی، قومی یکجہتی اور قومی ذمے داری کا فقدان بھی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیلاب سے پہاڑی علاقوں کا جو علاقہ زیادہ متاثر ہوا، وہاں مقامی لوگوں نے دریا کی گزر گاہوں پر ہی گھر اور کاروباری عمارتیں بنا رکھی تھیں، جس کی وجہ سے مالی نقصان بہت زیادہ ہوا اور لوگوں کو وہاں سے نقل مکانی بھی کرنا پڑی۔

پاکستان میں سیلاب جیسی بلا سے بچنے کےلیے آج تک کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ویسے تو کئی ادارے ایسے ہیں جو کہ کسی آفت یا مصیبت سے بچاؤ کی غرض سے معرض وجود میں آئے، ان میں ''نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی'' اور اس کے صوبوں کی سطح پر ذیلی ادارے شامل ہیں۔ اس ادارے کی بنیاد اس بنا پر رکھی گئی تھی کہ ملک کو قدرتی آفات کی صورت میں ناقابل تلافی نقصانات سے بچایا جاسکے۔ لہٰذا اس کے بنیادی منشور میں ممکنہ خطرات سے بچنے کےلیے پہلے سے تیاری اور بروقت اقدامات کرنا شامل ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے ادارے بھی کام کررہے ہیں جن کا مقصد فلڈ کی روک تھام کےلیے موثر پالیسی بنانے میں معاونت کرنا ہے، جیسا کہ ''فیڈرل فلڈ کمیشن اسلام آباد'' اور ''فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن لاہور'' جو کہ ''پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ'' کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی ادارہ آج تک مکمل طور پر سودمند ثابت نہ ہوسکا۔ اور اس کی بڑی وجہ ان کا مکمل طور پر فعال نہ ہونا ہے۔

سیلاب اور قدرتی آفات سے بچنے کےلیے ان اداروں کو فعال کرنے کے ساتھ جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز ہنگامی اور مستقل بنیادوں پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جو اقدمات ہنگامی بنیادوں پر کیے جانے چاہئیں ان میں وارننگ سسٹم کو فعال بنانا، لوگوں کو آگاہی دینا، کسی بھی قسم کی تعمیرات کےلیے متعلقہ محکمہ جات کی اجازت لینا، ماحو لیات پر توجہ اور خصوصاً جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو روکنا، اس کے علاوہ بین الاقوامی فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، جبکہ مستقل اقدامات میں سب سے اہم پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز کا بنانا ہے کیونکہ پاکستان میں اگر مستقل بنیادوں پر ڈیم بنادیے جائیں تو اس کے اچھے اثرات حاصل ہوسکتے ہیں اور اس سے نہ صرف ہم قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کو روک سکتے ہیں بلکہ ذخیرہ کردہ پانی سے اپنی گھریلو اور زرعی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔ مزید برآں مستقل حل میں دریاؤں کے کنارے مضبوط بند یا حفاظتی دیواروں کا بنانا اور پانی کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے اندرونی ٹنل بنانے کی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شامل ہے۔

کچھ امور میں ہمیں دوسرے ممالک کی بھی تقلید کرنی ہوگی تاکہ ہم اس عفریت کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکیں۔ جاپان، انڈونیشیا، جرمنی اور کئی دوسرے ممالک جعرافیائی لحاظ سے ایسی جگہوں پر واقع ہیں جہاں ہمیشہ سیلاب کے خطرات رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک نے اپنے آپ کو ان کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ ان کی بہتر حکمت عملی اور فرض شناسی ہے۔ بنگلہ دیش بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں پر سیلاب بکثرت آتے رہتے ہیں لیکن وہاں پر بہت سے ادارے مل کر بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب کے اثرات ان کی معیشت پر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ''لوکل یونین ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیونٹی'' بنائی گئی ہے جو کہ نچلی سطح پر کام کرتی ہے اور اس کمیونٹی کا مقصد بروقت اقدامات کرکے مختلف قدرتی آفات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور کسی آفت یا سیلاب کی صورت میں، جلد از جلد بحالی کی کوششیں کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس نوعیت کی مقامی سطح پر کمیٹی بناکر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک عزیز میں ان ممالک کے مروجہ ماڈلز کا بغور مطالعہ کیا جائے اور ان ماڈلز کو اپنایا جائے جن کا اطلاق ملک میں کیا جاسکتا ہے۔ نیک نیتی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کےلیے کوشش کی جائے کیونکہ یہ پاکستان کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں قدرتی آفات سے نمٹنے کےلیے سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اگر موجودہ سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسائل کی اتنی وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود بھی کوئی سیاسی پارٹی اس وقت یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ موجودہ موسم کی صورتحال بھی نوشتہ دیوارکی طرح معلوم ہورہی ہے۔ گرمی کی شدت فروری کے ماہ سے ہی شروع ہوجانا نیک شگون نہیں ہے۔ اس سال بھی ہمیں موسم گرما میں اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو ہم نے پچھلے سال کی تھی۔ گرمی کی شدت اگر اسی طرح برقرار رہی تو گلیشیئرز زیادہ پگھلنے کے خدشات ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیلابوں کا خطرہ دوبارہ پیدا ہو۔ لہٰذا ہمیں پیشگی ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور سیلاب آنے کی صورت میں کم سے کم نقصان کا اندیشہ ہو۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کےلیے اس طرح کی قدرتی آفات بہت مہلک ثابت ہوتی ہیں اور معیشت کو بہت حد تک متاثر کرتی ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سیلاب سے مکمل بچاؤ انسانی بس میں نہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی سے اس عفریت کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

آخر میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمیں اپنی سوچ اور رویوں کو بھی بدلنا ہوگا اور بجائے اس کے ہم قدرتی آفات کو مقدر کا لکھا سمجھ کر اور اس پر رو دھو کر بیٹھ جائیں اور دنیا سے امداد کے طلبگار ہوں، بلکہ ہم اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل سلیم کو استعمال کرتے ہوئے کچھ ایسے عملی اقدامات اپنائیں جن سے ہم اس مصیبت سے کم سے کم متاثر ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں