پاکستان انفرااسٹرکچر پر جی ڈی پی کا صرف 21 فیصد حصہ خرچ کرتا ہے گورنر اسٹیٹ بینک

سیلاب کے تباہ کاریوں سے نکلنے کیلیے 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہے،جمیل احمد

انفرا اسٹرکچر سمٹ سے محمد اظفر احسن،ماہین رحمن اور جو موئیر کا بھی خطاب۔ فوٹو: فائل

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہاہے کہ پاکستان انفراسٹرکچر پر جی ڈی پی کا صرف 2.1فیصد حصہ خرچ کرتا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہاہے کہ گزشتہ سال تباہ کن سیلاب نے ملک کے پہلے سے خستہ حال انفراسٹرکچر کو مزید تباہ کردیا ہے، سیلاب کے تباہ کاریوں سے نکلنے کیلیے 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

نٹ شیل کے تحت انفرا اسٹرکچر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ سیلاب کے علاوہ خوراک، صحت، پینے کا صاف پانی اور زراعت کیلیے ضروریات کئی ارب ڈالر ہیں، پاکستان کی انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری دنیا میں کم ترین ہے، انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری سے ملکی معیشت میں ترقی ہوتی ہے، پاکستان انفراسٹرکچر پر جی ڈی پی کا صرف 2.1فیصد حصہ خرچ کرتا ہے، دنیا میں 2ارب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی وباکے بعد انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت بڑھ گئی ہے، دنیا بھر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے 80ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔انفراسٹرکچر کے منصوبوں کیلئے 920ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو انفراسرکچر کے منصوبوں کی کمی کا سامنا ہے، توانائی، مواصلات، ٹرانسپورٹ، پینے کا صاف پانی اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پاکستان کی سرمایہ کاری کی ضروریات ذیادہ لیکن فنڈنگ کے وسائل انتہائی محدود ہیں۔


سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر مملکت و سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین محمد اظفر احسن نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کے بغیر سرمایہ کاری کا ماحول پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر مقامی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لئے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ غیرملکی سرمایہ کاری اسی صورت میں ممکن ہوگی کہ جب مقامی سرمایہ کار مطمئن ہوگا۔

انفرا ضامن کی چیف ایگزیکٹیو ماہین رحمان نے کہا کہ پاکستان معاشی بحران کی وجہ سے دوراہے پر کھڑا ہے، پاکستان کو اپنی جی ڈی پی کا 10 فیصد انفراسٹرکچر پر خرچ کرنا ہوگا، صحت، سوشل سیکٹر اور انفراسٹرکچر سمیت ہر شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بنیادی ڈھانچے کی کریڈٹ ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے بینکوں اور کیپٹل مارکیٹ وسائل استعمال کیاجائے۔

انہوں نے کہا کہ ڈالر پر مبنی فنڈز استعمال کرنے کے بجائے قرض کے مقامی ذرائع استعمال کیاجائے، آبپاشی اور زراعت کے شعبوں میں بہتر سرمایہ کاری کرکے ماحولیاتی تباہی سے بچاسکتا ہے۔

برطانوی ہائی کمیشن اسلام آباد ڈیولپمنٹ ڈائریکٹر فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس جو موئیر نے کہا کہ پاکستان نازک وقت سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی سال بہ سال 30 فیصد تک بڑھ گئی ہے، پاکستانی روپیہ تاریخی سطح پر کمزور ہو گیا ہے، شرح سود 20 فیصد تک بڑھ گئی ہے ایشیا میں سب سے زیادہ اور بینکنگ سیکٹر کی طرف سے حکومت کو دیے جانے والے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن اور پرائیویٹ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ گروپ (PIDG) نے بین الاقوامی سپورٹ میں تین ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں "آب و ہوا کی جدت طرازی اور ابتدائی مرحلے کے خطرے والے سرمائے کو فروغ دینا، کیپٹل مارکیٹوں میں جدید مالیاتی آلات بنانے کے لیے کام کرنا اور بین الاقوامی موسمیاتی فنانس کو کھولنا شامل ہیں۔
Load Next Story