فائر بریگیڈ کی غیر معمولی تاخیر سے آگ پھیلی بینک اکائونٹس منجمد کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کو خط
انسانی جانوں کے علاوہ 50 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا، عبدالعزیز، ارشداورشاہد بھائیلا کا پولیس کو بیان
KARACHI:
آتشزدگی کا شکار ہونے والی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے مالکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ فیکٹری میں کیمیکل کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔
جس وقت آگ لگی کے ای ایس سی کی جانب سے بجلی کی فراہمی جاری تھی، فیکٹری کے بوائلر اور جنریٹر مکمل طور پر محفوظ ہیں،فیکٹری کے تین داخلی اور خارجی راستے ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں دیگر راستوں تک رہنمائی کے لیے سرخ ہدایات آویزاں ہیں، آگ بجھانے کے آلات ہر منزل پر بین الاقوامی معیار کے مطابق موجود تھے۔ہفتے کو علی انٹرپرائزز کے مالکان عبدالعزیز بھائیلا اور ان کے دو بیٹے شاہد اور ارشد بھائیلا نے پولیس کے تفتیشی افسران کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرادیا، اس موقع پر ان کے وکلا بھی پولیس کے ہمراہ موجود تھے۔
ابتداء میں پولیس افسران فیکٹری مالکان کو سائٹ بی تھانے لائے بعدازاں حفاظتی نقطہ نظر کے باعث انھیں بیان کے لیے صدر میں قائم اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ لایا گیا جہاں وہ 8 گھنٹے سے زائد پولیس افسران کے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تینوں ملزمان سے علیحدہ علیحدہ بیان لیا گیا، فیکٹری مالکان نے اپنے بیان میں بتایا کہ جب آگ پھیلنے لگی تو انھوں نے خود مین سوئچ کی مدد سے بجلی کی فراہمی بند کرائی ، فیکٹری میں کسی قسم کے کیمیکل استعمال ہی نہیں کیے جاتے تھے جس کے سبب کیمیکل کی وجہ سے آگ پھیلنے کا مفروضہ کسی طور بھی درست نہیں،فیکٹری کا جنریٹر اور بوائلر درست حالت میں ہیں،جنریٹر میں کسی قسم کا کوئی دھماکا نہیں ہوا۔
فائر بریگیڈ سے رابطہ کرنے کے باوجود آگ بجھانے کا کام غیر معمولی تاخیر سے شروع کیا گیا جس کی وجہ سے آگ بہت زیادہ پھیل گئی، مالکان نے پولیس افسران کے طلب کرنے پر فیکٹری کی فٹنس کے 3 مختلف سرٹیفکیٹس پیش کیے جو ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے تھے، انھوں نے بتایا کہ فیکٹری مکمل طور پر انشورڈ نہیں تھی بلکہ فیکٹری کا کچھ سامان جزوی طور پر انشورڈ تھا، مالکان کے مطابق فیکٹری جلنے کی وجہ سے انسانی جانوں کے علاوہ 50 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
قبل ازیں فیکٹری مالکان سائٹ بی سیکشن تھانے اپنا بیان قلمبند کرانے کے لیے پہنچے جہاں انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاں بحق ہونے والے ورکروں کے اہلخانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور ہمیں اپنے ساتھ بھی انصاف کی امید ہے،ہم ہر قسم کی تحقیقات ، ادارے اور کمیشن کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ صحافیوں سے بات چیت کے دوران پولیس نے انھیں بتایا کہ یہاں پر کوئی بھی تفتیشی افسر موجود نہیں ہے جبکہ ان کی موجودگی کے باعث نقص امن کا اندیشہ بھی ہے جسکے بعد پولیس نے فیکٹری مالکان کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا اور بعدازاں انھیں بیان قلمبند کرانے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ صدر لے گئی۔
جبکہ تفتیشی ٹیم کے رکن ایس پی ثاقب سلطان نے سائٹ اے سیکشن تھانے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے کوئی بھی شخص پولیس کے پاس آکر اپنا بیان قلمبند کرا سکتا ہے جبکہ انھوں نے عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ کسی بھی شخص کے پاس کوئی اہم معلومات موجود ہوں تو براہ راست ان سے رابطہ کر سکتا ہیجس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، انھوں نے کہا کہ فیکٹری میں موجود ایک ملازم جو جھلس کر زخمی ہوا تھا اس وقت ایک نجی اسپتال میں زیر علاج ہے لیکن پولیس کو وہاں تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے جس کے بارے میں اعلیٰ حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
گارمنٹس فیکٹری کے مالکان کے وکیل عامر منسوب قریشی نے بتایا کہ ان کے موکل نے پولیس کو تمام سوالوں کے تشفی بخش جواب دیے اور جب بھی پولیس انھیں دوبارہ طلب کرے گی وہ تفتیشی افسران کے سامنے پیش ہوں گے۔انھوں نے بتایا کہ مالکان رات 12 بجے فیکٹری کے باہر موجود تھے اور انھوں نے محنت کشوں کو نکالنے میں ہر ممکن مدد کی، انھوں نے کہا کہ وہ جلد میڈیا کے ذریعے اس شخص کا نام اور عہدہ منظر عام پر لائیں گے جس نے مالکان کو رات 12 بجے فیکٹری کے باہر سے چلے جانے کا مشورہ دیا، عامر منسوب کے مطابق تینوں مالکان عبدالعزیز بھائیلا، ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا پولیس کے مشورے اورحفاظتی نقطہ نظر سے اپنے گھر کے بجائے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے ہیں تاہم وہ تفتیشی عمل میں مدد کے لیے ہمہ وقت موجود رہیں گے۔
علاوہ ازیں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 258 افراد کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی پولیس کی تفتیشی ٹیم نے علی انٹرپرائزز اور اس کے تینوں مالکان کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کیلیے اسٹیٹ بینک کو خط ارسال کردیا ہے جبکہ تفتیش کے دوسرے مرحلے میں ملزمان اور زخمیوں کے بیانات ریکارڈ کرنا شروع کردیے ہیں، تفتیشی افسران کے مطابق تفتیش چار مرحلوں میں مکمل کی جائے گی، پہلے مرحلے کے تحت فیکٹری سے شواہد جمع کرنے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے، دوسرے مرحلے میں ملزمان، زخمیوں اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات قلمبند کیے جارہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ تیسرے مرحلے میں فارنسک ماہرین اور فائربریگیڈ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹس کی روشنی میں تفتیشی عمل کاجائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد ہی تفتیشی ٹیم اپنی حتمی رپورٹ تیارکرے گی۔
آتشزدگی کا شکار ہونے والی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے مالکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ فیکٹری میں کیمیکل کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔
جس وقت آگ لگی کے ای ایس سی کی جانب سے بجلی کی فراہمی جاری تھی، فیکٹری کے بوائلر اور جنریٹر مکمل طور پر محفوظ ہیں،فیکٹری کے تین داخلی اور خارجی راستے ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں دیگر راستوں تک رہنمائی کے لیے سرخ ہدایات آویزاں ہیں، آگ بجھانے کے آلات ہر منزل پر بین الاقوامی معیار کے مطابق موجود تھے۔ہفتے کو علی انٹرپرائزز کے مالکان عبدالعزیز بھائیلا اور ان کے دو بیٹے شاہد اور ارشد بھائیلا نے پولیس کے تفتیشی افسران کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرادیا، اس موقع پر ان کے وکلا بھی پولیس کے ہمراہ موجود تھے۔
ابتداء میں پولیس افسران فیکٹری مالکان کو سائٹ بی تھانے لائے بعدازاں حفاظتی نقطہ نظر کے باعث انھیں بیان کے لیے صدر میں قائم اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ لایا گیا جہاں وہ 8 گھنٹے سے زائد پولیس افسران کے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تینوں ملزمان سے علیحدہ علیحدہ بیان لیا گیا، فیکٹری مالکان نے اپنے بیان میں بتایا کہ جب آگ پھیلنے لگی تو انھوں نے خود مین سوئچ کی مدد سے بجلی کی فراہمی بند کرائی ، فیکٹری میں کسی قسم کے کیمیکل استعمال ہی نہیں کیے جاتے تھے جس کے سبب کیمیکل کی وجہ سے آگ پھیلنے کا مفروضہ کسی طور بھی درست نہیں،فیکٹری کا جنریٹر اور بوائلر درست حالت میں ہیں،جنریٹر میں کسی قسم کا کوئی دھماکا نہیں ہوا۔
فائر بریگیڈ سے رابطہ کرنے کے باوجود آگ بجھانے کا کام غیر معمولی تاخیر سے شروع کیا گیا جس کی وجہ سے آگ بہت زیادہ پھیل گئی، مالکان نے پولیس افسران کے طلب کرنے پر فیکٹری کی فٹنس کے 3 مختلف سرٹیفکیٹس پیش کیے جو ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے تھے، انھوں نے بتایا کہ فیکٹری مکمل طور پر انشورڈ نہیں تھی بلکہ فیکٹری کا کچھ سامان جزوی طور پر انشورڈ تھا، مالکان کے مطابق فیکٹری جلنے کی وجہ سے انسانی جانوں کے علاوہ 50 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
قبل ازیں فیکٹری مالکان سائٹ بی سیکشن تھانے اپنا بیان قلمبند کرانے کے لیے پہنچے جہاں انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاں بحق ہونے والے ورکروں کے اہلخانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور ہمیں اپنے ساتھ بھی انصاف کی امید ہے،ہم ہر قسم کی تحقیقات ، ادارے اور کمیشن کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ صحافیوں سے بات چیت کے دوران پولیس نے انھیں بتایا کہ یہاں پر کوئی بھی تفتیشی افسر موجود نہیں ہے جبکہ ان کی موجودگی کے باعث نقص امن کا اندیشہ بھی ہے جسکے بعد پولیس نے فیکٹری مالکان کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا اور بعدازاں انھیں بیان قلمبند کرانے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ صدر لے گئی۔
جبکہ تفتیشی ٹیم کے رکن ایس پی ثاقب سلطان نے سائٹ اے سیکشن تھانے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے حوالے سے کوئی بھی شخص پولیس کے پاس آکر اپنا بیان قلمبند کرا سکتا ہے جبکہ انھوں نے عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ کسی بھی شخص کے پاس کوئی اہم معلومات موجود ہوں تو براہ راست ان سے رابطہ کر سکتا ہیجس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، انھوں نے کہا کہ فیکٹری میں موجود ایک ملازم جو جھلس کر زخمی ہوا تھا اس وقت ایک نجی اسپتال میں زیر علاج ہے لیکن پولیس کو وہاں تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے جس کے بارے میں اعلیٰ حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
گارمنٹس فیکٹری کے مالکان کے وکیل عامر منسوب قریشی نے بتایا کہ ان کے موکل نے پولیس کو تمام سوالوں کے تشفی بخش جواب دیے اور جب بھی پولیس انھیں دوبارہ طلب کرے گی وہ تفتیشی افسران کے سامنے پیش ہوں گے۔انھوں نے بتایا کہ مالکان رات 12 بجے فیکٹری کے باہر موجود تھے اور انھوں نے محنت کشوں کو نکالنے میں ہر ممکن مدد کی، انھوں نے کہا کہ وہ جلد میڈیا کے ذریعے اس شخص کا نام اور عہدہ منظر عام پر لائیں گے جس نے مالکان کو رات 12 بجے فیکٹری کے باہر سے چلے جانے کا مشورہ دیا، عامر منسوب کے مطابق تینوں مالکان عبدالعزیز بھائیلا، ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا پولیس کے مشورے اورحفاظتی نقطہ نظر سے اپنے گھر کے بجائے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے ہیں تاہم وہ تفتیشی عمل میں مدد کے لیے ہمہ وقت موجود رہیں گے۔
علاوہ ازیں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 258 افراد کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی پولیس کی تفتیشی ٹیم نے علی انٹرپرائزز اور اس کے تینوں مالکان کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کیلیے اسٹیٹ بینک کو خط ارسال کردیا ہے جبکہ تفتیش کے دوسرے مرحلے میں ملزمان اور زخمیوں کے بیانات ریکارڈ کرنا شروع کردیے ہیں، تفتیشی افسران کے مطابق تفتیش چار مرحلوں میں مکمل کی جائے گی، پہلے مرحلے کے تحت فیکٹری سے شواہد جمع کرنے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے، دوسرے مرحلے میں ملزمان، زخمیوں اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات قلمبند کیے جارہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ تیسرے مرحلے میں فارنسک ماہرین اور فائربریگیڈ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹس کی روشنی میں تفتیشی عمل کاجائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد ہی تفتیشی ٹیم اپنی حتمی رپورٹ تیارکرے گی۔