عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار انڈر ٹیکنگ ٹرائل کورٹ میں پیش کرنیکا حکم
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی طرح تمام عدالتوں کا بھی ایک وقار ہے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں کوئی سقم نہیں، تحریری فیصلہ
توشہ خانہ فوجداری کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو تحریری یقین دہانی (انڈر ٹیکنگ) ٹرائل کورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست نمٹا دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ میں عمران خان اس حوالے سے درخواست دائر کر سکتے ہیں اور عمران خان ہائی کورٹ میں دی گئی انڈر ٹیکنگ ٹرائل کورٹ میں دیں گے۔ ہائیکورٹ میں دی انڈر ٹیکنگ عمران خان ٹرائل کورٹ میں دائر درخواست کے ساتھ لگائیں گے۔
تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وارنٹ منسوخ کرنے کی درخواست نمٹانے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے ، جس پر سب کو اور پٹشنر عمران خان کو عمل کرنا چاہیے، ٹرائل کورٹ کے آرڈر میں کوئی قانونی سقم نہیں جس پر مداخلت کی جائے، لیکن کیونکہ یہ عدالتی آرڈر کی بعد کا معاملہ ہے اس لیے بہتر ہے ٹرائل کورٹ ہی اسکو دیکھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کی گئی انڈرٹیکنگ ٹرائل کورٹ میں 16 مارچ تک پیش کی جائے اور مقامی کورٹ اس درخواست کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ' عدلیہ میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی طرح ہر عدالت کا اپنا وقار ہے'۔ پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ لاہور میں پیدا ہونے والی امن و امان کی صورت نہایت افسوس ناک ہے، ریاست کو عدالتی آرڈر پر عمل درآمد کی زمہ داری کی ادائیگی سے روکا گیا، وارنٹس جب جاری ہوجائیں تو ان پر عملدرآمد یا ڈسچارج ہونے تک برقرار رہتے ہیں، لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے، رُول آف لا محض کہنے کی بات نہیں، اس کا مطلب قانون کی تابعداری ہے، قانون سے انحراف کے قدرتی طور پر نتائج ہوتے ہیں، وارنٹس سے متعلقہ عدالت اب ٹرائل کورٹ ہے، ٹرائل کورٹ وارنٹس کے بعد کی صورتحال پر عمران خان کی یقین دہانی کا جائزہ لے۔
عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست اسلام آباد کچہری میں جمع نہیں ہوسکی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکلا وارنٹ معطل کرنے کی درخواست دائر کرنے کیلیے اسلام آباد کچہری پہنچے تاہم ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت بند پڑی تھی اور عملہ بھی دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد چھٹی کر کے چلا گیا تھا۔
بعد ازاں عمران خان کے وکلا نے فیصلہ کیا کہ درخواست صبح ساڑھے آٹھ بجے سیشن کورٹ میں دائر کی جائے گی۔ وارنٹ معطل کرکے شورٹی بانڈ جمع کرانے کی درخواست عمران خان کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔ جس کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق 18 مارچ پیشی کے لیے شورٹی دینے کو تیار ہوں۔
سماعت کا احوال
آغاز میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کیلیے مقرر کی تھی جس کے بعد رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کی، چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی۔ بائیو میٹرک اور دستخط کے اعتراضات عدالت نے دور کیے جبکہ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو باقی اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔
دوران سماعت، کمرہ عدالت میں موجودگی پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جی خواجہ صاحب آپ یہاں؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کل ہم نے درخواست دی تھی، کل ریکوئسٹ کی تھی وہ ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آج آپ نے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست دی ہے، اس عدالت نے عمران خان کو پہلے بھی ریلیف دیا ہے اور اس کے باوجود یہ کچھ ہو رہا ہے تو افسوس ناک ہے۔ اس کورٹ نے پہلے ہی راستہ دیا تھا لیکن وہ رستہ آپ نے نہیں لیا تو اس کے اثرات دیکھنے ہوں گے۔ ابھی تو آپکی درخواست فکس نہیں ہوئی، فکس ہوگی تو سماعت کروں گا۔
خواجہ حارث نے آج ہی درخواست پر سماعت کرنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت نے درخواست سنی تھی اور ڈائرکشن دی تھی مگر افسوس کہ کیا ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ ہمیں سن لیں ہم قانون کے تحت عدالت کو مطمئن کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت نے پہلے ریلیف دیا تھا مگر اس عدالتی احکامات کا کیا بنا، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں دیکھیں گے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ 12 بجے سپریم کورٹ میں سماعت ہے اس سے پہلے کیس سن لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو آج سماعت کی درخواست دی ہے وہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ عدالت کے سامنے ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست پر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو ٹکٹس نہیں لگے یا باقی چھوٹے چھوٹے اعتراضات ہیں وہ دور کر لیں جبکہ بائیو میٹرک اور دستخط والے اعتراضات میں دور کر رہا ہوں۔ آدھے گھنٹے میں بھی اعتراضات دور ہو جائیں تو میں ادھر ہی ہوں، آرڈر میں تین روز میں اعتراضات دور کرنے کا لکھ رہا ہوں لیکن آپ اگر ابھی اعتراضات دور کروا لیں تو میں ادھر ہی ہوں۔
اعتراضات دور کیے جانے کے بعد سماعت
عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست پر تمام اعتراضات دور کیے گئے۔ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں صرف پانچ منٹ لوں گا، اس عدالت نے 7 مارچ کو وارنٹ معطلی کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا 7 مارچ کا آرڈر بھی پڑھا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ 13 مارچ کو پٹیشنر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ وہ اس روز کدھر تھے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ عمران خان اس روز گھر پر تھے جبکہ شام کو ریلی میں تھے اور میں نے 13 مارچ کو عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک دفعہ وارنٹ جاری ہو جائیں تو وہ فیلڈ میں ہوتے ہیں اور اس عدالت نے صرف وارنٹ معطل کیے تھے لیکن وارنٹ فیلڈ میں تھا اور ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کہا تھا میری درخواست پر فیصلہ ہونے پر وارنٹ پر عمل درآمد روک دیں، جو کمپلیننٹ الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی اس میں مجاز اتھارٹی کا لیٹر ہی نہیں تھا اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کمپلیننٹ فائل کر سکتا ہے لیکن ایسا کوئی لیٹر ریکارڈ پر نہیں تھا کہ مجاز اتھارٹی نے اجازت دی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہاکہ اگر اثاثوں کی تفصیلات غلط طریقے سے دی گئیں ہوں تو قانون کے مطابق 120 روز میں کمپلیننٹ فائل ہو سکتی ہے لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کچھ وقت دیں میں اس کا جواب دوں گا، وارنٹ جاری کرتے ہوئے جو طریقہ استعمال کیا گیا اس میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کی قابل سماعت ہونے کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا؟ وکیل نے بتایا کہ میری درخواست پر فیصلہ نہیں کیا گیا اور میری استثنیٰ کی درخواست پر اس طرح دلائل بھی نہیں دیے تھے تو اس کا فیصلہ کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حاضری کا آرڈر تھا اس لیے حاضری تو حاضری ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ کیا دوبارہ وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں، میں نے تو تاریخ نہیں مانگی وہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے مانگی تھی، ہم نے فیصلے کی کاپی لی تو اس میں دلائل کا کوئی ذکر نہیں تھا اور یہ کرمنل کیس ہے، وارنٹ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حاضری یقینی بنائی جا سکی لیکن جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے وہ بہت افسوس ناک ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں نے عمران خان سے بات کی ہے اور وہ شورٹی دے رہے ہیں کہ وہ 18 مارچ کو پیش ہوں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ آپ کو شورٹی دی ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ جی مجھے عمران خان نے شورٹی دی ہے، جس کے بعد عمران خان کی جانب سے دی گئی شورٹی کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آفس کا ایڈوکیٹ جنرل آفس سے کوئی ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ عمران خان کے شورٹی کی دستاویز کی کاپی ایڈوکیٹ جنرل کو دیکھائی گئی، جس پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ پہلی دفعہ ہوا ہے پرسنل شورٹی دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے لیے جو لاہور میں ہو رہا ہے وہ بھی ضروری ہے اور میرے لیے وقار اپنی کورٹ کا بھی عزیز ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں یہ تاثر جائے کہ ایک کے لیے اور دوسرے کے لیے اور طریقہ کار ہے۔ جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے ہم دنیا کو دیکھا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کرتے، ہم تو قبائلی علاقوں کا سنتے تھے وہاں یہ ہوتا ہے اب یہ لاہور میں دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت جو بھی ہو مجسٹریٹ کی ہو یا سپریم کورٹ کی ہو اس کی sanctity برقرار رہنی چاہیے۔ اگر کسی بھی کریمنل کیس میں سمن جاری ہو تو کیا عدالت پیش ہونا ضروری نہیں؟ مجسٹریٹ کی عدالت ہو یا سپریم کورٹ، فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے، ہمارے آرڈرز دستخط کے ساتھ جاری ہوتے ہیں اور ہمارے پاس ''مسل مین'' نہیں جو جا کر طاقت دکھائیں۔ عدالتوں کے بلانے پر کوئی نہیں آتا تو پھر قانون ہی راستہ لیتا ہے، لاہور میں جو ہو رہا اس پر افسوس مگر اپنی عدالتوں کا تقدس بھی اہم ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ عدالت گرفتار کرکے عدالت پیش کرے گی اور پھر ان کا کام ختم، 18 مارچ کو طلبی ہے تو کل چار روز پہلے گرفتاری کیوں کرنے گئے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات آپ کی ٹھیک ہے چار دن پہلے گرفتار کر بھی لیں تو کیا کریں گے؟
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے مسکراتے ہوئے دلائل دیے کہ اگر 18 مارچ کو عمران خان پیش نا ہوئے تو کیا خواجہ حارث پر فرد جرم عائد ہوگی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریلیف پٹشنر کو ملنا ہے لیکن اس کا کنڈکٹ ٹھیک نہیں اور پہلے بھی انہوں نے شورٹی دی لیکن یہ وہاں پر پیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ وہ بالکل غلط ہو رہا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ برطانیہ میں پولیس والے کی وردی میں کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے؟ ایک طرف نوجوان بچے دوسری طرف پولیس ہے یہ افسوسناک ہے۔ میں ورک ایبل اس کا سلوشن نکالوں گا کورٹ کے وقار کو بھی برقرار رکھوں گا، لاہور میں ایک طرف شہری بھی ہمارے ہیں دوسری طرف پولیس بھی ہماری ہے۔
لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے؟ خواجہ حارث نے پھر کہا کہ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن پولیس پر حملے کر رہے ہیں اور یہ ریاست پر حملہ ہے، پولیس والے وہاں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں اور حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گزشتہ انڈرٹیکنگ پر عمل ہو جاتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف جب اشتہاری ہوئے تو میں نے ان کی وکالت چھوڑ دی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز درخواست دائر کی تھی جس میں وارنٹ منسوخ کرنے کی استدعا کر رکھی تھی۔