سیاسی دہشت گردی

التوا پر التوا کے بعد اب عدالتوں میں اپنے کارکن بلوا کر ان سے توڑ پھوڑ کرا کر سیاسی دہشت گردی شروع کرا دی گئی ہے

m_saeedarain@hotmail.com

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کہا ہے کہ اب تو سیاسی دہشت گردی بھی ہونا شروع ہوگئی ہے مثالیں دی جاتی ہیں مگر خود عدالت کا احترام نہیں کرتے، ایک سال کی پیشی پر آئے تھے اور اپنے ساتھ دو سال کی پیشیاں لے کر چلے گئے۔

اب ایک سال مزید مجھے سماعتوں میں مصروف رکھیں گے، اگر دہشت گردی کی دفعات کو حذف کرنے کے دلائل دیتے تو فیصلہ کرلیتے اور نہ آنے والوں سے پوچھ لیتے کہ کون سی دہشت گردی کی گئی۔

فاضل جج نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ نام انصاف ، مثالیں برطانیہ کی اور عدالت میں نعرے لگائے جاتے ہیں اور ساتھ میں غنڈے بدمعاش لاتے ہیں ، ڈھائی ہزار بندے لا کر عدالت میں لانے کی ضرورت ہی کیا تھی ایسے حالات میں عدالتی امورکیسے چل سکتے ہیں۔

ملک میں ہلاکتوں کی دہشت گردی ویسے بھی عشروں سے جاری ہے جس میں کمی و بیشی ہوتی رہی مگر سیکڑوں قربانیوں کے باوجود ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور بلوچستان اور کے پی مسلسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔

کے پی کے، کراچی کے بعد مارچ کے پہلے ہفتے میں بولان میں خودکش دھماکے میں بلوچستان کانسٹیبلری کے 9 اہلکاروں کو شہید کردیا گیا اور ہمارے سیاسی رہنماؤں نے واقعے کی مذمت کرکے اپنا فرض ادا کردیا مگر سیاسی دہشت گردی کے خالق عمران خان کو بولان میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ اب انھیں اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات اور آئے روز عدالتوں میں پیش ہونے کی فکر پڑی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے ماہرین قانون بھی اپنے 71 سالہ بزرگ چیئرمین کے لیے پریشان ہیں۔

خود کو 70 سال کی عمر میں برسر اقتدار اس رہنما کو اقتدار میں تو احساس ہی نہ تھا کہ وہ اب جوان نہیں بزرگ بن چکے ہیں انھیں اقتدار سے محرومی اور اپنے71 سال کا ہوجانے پر خیال آیا ہے کہ وہ اب جوان نہیں بلکہ بزرگ بن چکے ہیں اور اس لیے چار ماہ بعد بھی ان کی ٹانگ ٹھیک نہیں ہو رہی کیونکہ جسمانی اعضا جوانی میں جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں بڑھاپے میں وقت لگتا ہے۔


فائرنگ سے زخمی عمران خان کی متنازع ٹانگ بڑھاپے کے باوجود چار ماہ سے زائد وقت گزر جانے پر ٹھیک ہو جانا چاہیے تھی۔ وزیر داخلہ چیلنج کر چکے ہیں کہ عمران خان اپنے اسپتال کے بجائے کسی غیر متنازع اسپتال سے چیک کرالیں تو پتا چل جائے گا کہ ان کی ٹانگ پر گولیاں نہیں چھرے لگے تھے جن کے لگنے سے متاثرہ ٹانگ کی درستگی میں چار ماہ نہیں لگتے اور عمران خان نے اپنی اس ٹانگ کو عدالتوں میں پیش ہونے سے بچنے کا بہانہ بنا رکھا ہے۔

عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں اس لیے عمران خان کو حکومتی پروپیگنڈا مسترد کرنے کا بہترین موقعہ ہے کہ وہ کسی اچھے اسپتال سے معائنہ کرا کر اس کی رپورٹ عوام اور حکومت کے سامنے پیش کردیں تاکہ ان کے خلاف ٹانگ میں گولی نہ لگنے کے حقائق سامنے آسکیں۔

عمران خان اپنی ٹانگ کے مبینہ زخموں کے باعث عدالتوں سے مسلسل التوا لے رہے ہیں اور جب مجبوری میں انھیں اسلام آباد براستہ سڑک لاہور سے جا کر تین عدالتوں میں پیش ہو کر ضمانتیں حاصل کرنا پڑیں مگر وہ قریب ہی کی سیشن کورٹ میں جان بوجھ کر پیش نہیں ہوئے کیونکہ وہاں پیشی پر ان پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد ہونا تھی اور اپنے وکیلوں کے کہنے پر انھیں یہ کرنا پڑا ورنہ وہ اگر سیشن کورٹ میں پیش ہو کر فرد جرم سے انکار کرکے چلے آتے تو متعلقہ جج کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ نام انصاف کا لیتے ہیں عدالتی معاملات آگے نہیں بڑھانے دیتے۔

التوا پر التوا کے بعد اب عدالتوں میں اپنے کارکن بلوا کر ان سے توڑ پھوڑ کرا کر سیاسی دہشت گردی شروع کرا دی گئی ہے جس کے واضح ثبوت موجود ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ ن کی دوسری حکومت میں چیف جسٹس پاکستان کے احکامات پر عمل کرکے نواز شریف وزیر اعظم ہوتے ہوئے سپریم کورٹ میں پیش ہوتے تھے۔

انھوں نے تیسری بار کی اپنی وزارت عظمیٰ میں عدالتوں اور جے آئی ٹی میں پیشیاں بھگتی تھیںجب کہ اب یہ اعتراف ضرور ہو گیا کہ عدالتوں میں سیاسی دہشت گردی ہونا شروع ہوگئی ہے۔

فاضل چیف جسٹس نے واضح کردیا کہ ہمیں کوئی خوف نہیں اور نہ عدالت بے بس ہے کہ مقدمات ہی نہ سنے ہم تھریٹس کے باوجود اپنا کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی تو چاہتی ہے کہ عمران خان کو عدالتوں میں نہ آنا پڑے اس لیے زمان ٹاؤن یا بنی گالہ میں عدالتیں لگا لی جائیں۔
Load Next Story