عدم برداشت کا رویہ
ہولی کی اس تقریب میں مسلمان طلبا و طالبات بھی شریک ہوئے
کراچی یونیورسٹی کے سندھی ڈپارٹمنٹ میں طلبا و طالبات نے اپنا تہوار ہولی منانے کا اہتمام کیا۔ ہولی کی اس تقریب میں مسلمان طلبا و طالبات بھی شریک ہوئے۔
ہولی ایک خوبصورت تہوار اس تناظر میں سمجھا جاتا ہے کہ اس میں شرکاء ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں اور موسیقی کی مدھم سروں میں خوبصورت گیت گائے جاتے ہیں۔
دائیں بازو کی ایک انتہا پسند تنظیم کے کارکنوں کا جذبہ ایمانی جوش میں آیااور انھوں نے ایک کامیاب کمانڈو کارروائی کی' نوجوانوں نے ہولی تہوار میں شریک طلباء پر تشدد کیا اور طالبات کو محض گالیوں اور دھمکیوں سے نوازا گیا ، یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ صوبائی وزیر اسماعیل راہونے اس واقعہ کا نوٹس لیا۔
کراچی یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف لاء نے جسٹس ریٹائرڈ حسن فیروز کی قیادت میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ملک کی سب سے قدیم پنجاب یونیورسٹی میں بھی ہندو طلبہ نے ہولی کا تہوار منانے کا اہتمام کیا۔ مسلمان طلبا و طالبات بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے اس تقریب میں شریک ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے جنگجو رضاکار ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔
ان جنگجو رضاکاروں نے فوری کمانڈو کارروائی کی۔ ہولی کی تقریب کو منٹوں میں تتر بتر کر دیا گیا ، اس واقعہ میں کچھ طلبہ زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں۔ پنجاب میں اس وقت ایک صحافی محسن نقوی کی قیادت میں عبوری حکومت برسر ِاقتدار ہے۔
محسن نقوی کی حکومت تحریک انصاف والوں کو کنٹرول کرنے میں مصروف ہے۔ پھر بیوروکریسی پر قدامت پرستوں کا سایا ہے یا کوئی نامعلوم وجوہات میں یہ عمومی طور پر اس طرح کے واقعات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یوں ہولی کی تقریب کو سبوتاژ کرنے کی مقدس کارروائی پر اربابِ اختیار نے توجہ نہ دی۔
ادھر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمہ تعلیم کے اربابِ اختیار کو خیال آیا کہ تعلیمی اداروں میں فحاشی بڑھ رہی ہے اور اس کا ادراک فوری طور پر ضروری ہے ، یوں طالبات اور اساتذہ پر پابندی عائد کردی گئی کہ حجاب کے بغیر کسی استانی یا طالبہ کو تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یونیورسٹی کو دیگر تعلیمی اداروں پر فوقیت اس بناء پر دی جاتی ہے کہ طلبا اور طالبات اپنی تعلیمی، تحقیقی اور ثقافتی سرگرمیاں بغیر کسی دباؤ کے منعقد کریں۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں مختلف مذاہب اور مختلف عقائد کے پیروکار تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
یہ طلبہ اپنی مذہبی اور ثقافتی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور دیگر مذاہب کے پیروکار طلبہ اور اساتذہ ان مذہبی تقریبات کا احترام کرتے ہیں، یوں دیگر مذاہب کا احترام اور برداشت کرنے کی روایت مستحکم ہوتی ہے۔
یہ روایت معاشرے کے دیگر طبقوں کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی ہے۔ یوں تکسیریت پسندی پر مبنی معاشرہ ارتقاء پذیر ہوتا ہے ، مگر جب نصاب میں انتہا پسند مواد شامل کیا جاتا ہے اور انتہاپسند اساتذہ یہ پرچار کرنے لگتے ہیں کہ صرف ان کے عقائد ہی دنیا میں سب سے افضل ہیں اور دیگر مذاہب اور عقائد قابل نفرت ہیں تو طلبہ میں انتہا پسندانہ رجحانات تقویت پاتے ہیں ۔ ماضی میں مذہبی انتہا پسندی کو ریاست نے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس پالیسی کے اثرات یونیورسٹیوں پر پڑے۔
کراچی یونیورسٹی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کی اعلیٰ ترین سطح پر سرپرستی کی گئی۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا دور اس حوالے سے ایک بدترین دور قرار دیا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں پراکٹر کا شعبہ قائم ہوا ، میجر آفتاب اس عہدہ پر تعینات ہوئے۔
انھوں نے پابندی عائد کی کہ طلبا اور طالبات میں 3 گز فاصلہ لازمی ہوگا، یوں طلبہ کا ایک گروہ تھنڈر اسکواڈ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس زمانہ میں نظریاتی بنیاد پر اساتذہ اور طلبہ کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف شاعر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اسی زمانہ میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ شعبہ سیاسیات کے طالب علم حسین نقی جو بعد میں جید صحافی بنے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں دو دفعہ طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔
انھوں نے انتظامیہ کو بلوچ طلبہ کے خلاف کارروائی سے روکا اور اس جرم کا ارتکاب کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔ یونیورسٹی کی انتہا پسندانہ پالیسی کے نتیجہ میں پروفیسر کرار حسین، پروفیسر ممتاز حسین، ڈاکٹر م ر حسان اور ڈاکٹر نیئر جیسے اپنے شعبوں کے ماہرین کو تدریس کے حق سے محروم کردیا گیا۔
اسی پالیسی کی بناء پر کراچی یونیورسٹی میں موسیقی اور فلم کا شعبہ قائم نہ ہوسکا۔ اساتذہ اور طلبہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے اساتذہ کے لیکچر سننے سے محروم رہ گئے۔
اس پالیسی کے اثرات تدریس اور تحقیق کے شعبہ پر بھی پڑے۔ اگر معاشیات، بزنس ایڈمنسٹریشن، کامرس اور شعبہ ابلاغ عامہ جیسے شعبوں میں پی ایچ ڈی کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ کئی طلبہ نے مذہبی موضوع پر مقالے لکھ کر ان شعبوں سے اعلیٰ ترین تعلیم کی سند حاصل کی ہے۔
ایک سینئر صحافی نے کراچی یونیورسٹی کے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تو دنیا تبدیل ہوگئی ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی رواداری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
جماعت اسلامی کے کراچی کے ناظم حافظ نعیم نے تو کورونا کی وباء کے دور میں مندروں اور گرجوں میں جاکر اسپرے کیا۔ تمام اقلیتوں کے غریب لوگوں میں امدادی سامان تقسیم کیا اور ان کی تنظیم کے قائم کردہ اسپتالوں میں مریضوں سے مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جاتا۔ پھر حافظ نعیم نے اپنی بلدیاتی انتخابات کی مہم میں کراچی کے تمام لوگوں کے مسائل پر آواز اٹھائی۔ شاید یہ سب کچھ ضرورت کے تحت کیا گیا یا اس پالیسی کو اپنی دیگر ذیلی تنظیموں میں نافذ کرنے کی ضرورت ابھی تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسند وزیراعظم مودی کی جماعت نے اسی طرح کی انتہا پسند پالیسی کو یونیورسٹیوں میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوتا ہے۔ اب اس طرح کے واقعات پاکستان میں بھی پیش آئیں تو پھر رائے عامہ کے لیے دونوں ممالک میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔
شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد اور اسلامی صحافت کے نقیب پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کو میاں نواز شریف کی حکومت نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وفد میں شامل کیا تھا۔ پروفیسر متین الرحمن نے راقم الحروف کو بتایا تھا کہ جب ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو پاکستانی وفد نے اس واقعہ کی مذمت پر مبنی ایک قرارداد کا مسودہ اسلامی ممالک کے وفود کو بھیجا ۔
بھارتی وفد نے تکنیکی بنیاد پر اس قرارداد کو ایک دن کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونے سے رکوا دیا۔ دوسرے دن پاکستان میں انتہا پسندوں نے ہندوؤں کے مندروں کو نذر آتش کیا۔ بھارتی وفد نے فورا تجویز پیش کی کہ قرارداد میں دونوں ممالک میں ہونے والے ان واقعات کی مذمت کی جائے۔
بقول متین صاحب پاکستانی وفد کو اپنی قرارداد واپس لینی پڑی۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواندگی کا تناسب پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ ہے مگر معیارِ تعلیم کم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کے 20 فیصد طلبا آسان اردو میں ایک پیرا گراف بھی نہیں پڑھ سکتے اور بہت سے بچے ریاضی کے بنیادی سوالات کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چہرے پر نقاب پہننا کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔
کنٹرول لائن کے دوسری طرف کی حکومت طلبہ کو نقاب نہ پہننے پر مجبورکررہی ہے اور اس طرف نقاب پہننے پر پابند کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو ذاتی معاملات پر مداخلت کے بجائے معیار تعلیم کو بلند کرنے، دیہی علاقوں میں تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔