جگاڑ اور لب جب
جگاڑ اور لب جب کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی وہ تمام حکومتیں ہیں جو پچھترسال سے لب جب اور جگاڑ میں مصروف ہیں
ایک میڈ ان انڈیا لفظ ''جگاڑ''سے ہماری شناسائی اس وقت ہوئی جب بمقام بھوپال منعقد ہونے والی صوفی کانفرنس کے دوران ایک مقامی شاعر ہمیں لاحق ہوگیا تھا ،نہ جانے اسے یہ کیسے معلوم ہوا کہ جن دو عدد کانوں کی اسے تلاش تھی وہ ہمارے سر سے چپکے ہوئے ہیں۔
وہ یہاں ہروقت ہمارے بغل میں موجود رہتا تھا اور جیسے ہی اسے موقع ملتا تو دوچار شعر ہمارے کانوں پر ٹھوک دیتا تھا ، ظاہر تو وہ یہ کرتا تھا کہ شعر اس کے اپنے ہیں لیکن ہم نے جان لیا تھا کہ وہ مال مسروقہ بڑے دھڑلے سے بیچتا تھا ،سب سے پہلا جگاڑ تو اس نے اپنے نام میں کیا ہوا تھا کہ بیک وقت وہ شہید بھی تھا، افغان بھی تھا۔
راجپوت، ٹھاکر بھی تھا اورعرب ،ایرانی بھی تھا لیکن اپنا پورا نام اس کے اپنے سوا اورکوئی بھی استعمال نہیں کرتا تھا اورایک مقامی شخص نے ہمیں بعینہ راز بتایا کہ وہ سارے بھوپال میں ''جگاڑو''کے نام سے جانا پہچانا اورمانا جاتاہے اور یہیں سے ہماری رگ تحقیق پھڑکی کہ اس لفظ جگاڑ اور جگاڑو کا ویراباؤٹ (where about) معلوم کریں کہ اس کی بنیاد مادہ معنیٰ کیا ہے اور یہ کس زبان کالفظ ہے۔
ہندی اور سنکسرت سے تو اس کا کوئی بھی تعلق نہیں بن رہاتھا کیوں کہ ہندی سنسکرت الفابیٹ میں (ڑ) کا حرف ہے ہی نہیں اوراس کی جگہ (ڈ) لکھا جاتاہے جیسے لڑائی کو لڈائی، سڑک کو سڈک ،گاڑی کو گاڈی، بوڑھے کو بڈھا اورگڑھے کو کھڈا لکھا جاتاہے۔
کسی دوسری مقامی زبان سے بھی اس کا رشتہ معلوم نہیں ہوسکا، اردو فارسی عربی وغیرہ سے تو اس کا دورکا بھی واسطہ نہیں تھا،کھوجتے کھوجتے اورکھودتے کھودتے پتہ چلاکہ پشتو میں اس کا ایک جڑواں بھائی موجود ہے ،''لب جب '' گویا معنوی رشتہ تو ملا لیکن تلفظ قطعی الگ الگ ۔
اس عرصے میں ہم نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جگاڑ اورلب جب ایسے الفاظ ہیں جن کے کوئی معنی نہیں ہیں لیکن آپ ان میں ہر ہرمعنی ڈال بھی سکتے ہیں اور ان سے نکال بھی سکتے ہیں ۔گویا اس مقام پر یہ دونوں پاکستانی دانشورہوجاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں کیوں کہ کچھ بھی نہیں جانتے بلکہ کچھ بھی نہیں جانتے اس لیے سب کچھ جانتے ہیں ۔
یہ سقراط کا فارمولہ ہے کہ جو سب کچھ جان لیتا ہے، وہ جان لیتاہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، اور وہ جو کچھ نہیں جانتا، سوری میں یہ نہیں جانتا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔اوراس پرہمیں کوئی دلیل یا حجت دینے کی ضرورت بھی نہیں کہ سارے کالم نگار، ٹی وی اینکر اورلیڈرآپ کے سامنے خود ہی اپنے اوپر گواہی دینے کے لیے ، ہاں لفظ جگاڑ جس کاجڑواں بھائی پشتو لفظ لب جب ہے یہ تو معلوم نہیں ہو پایا کہ دونوں کسی میلے میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔
شاید یہ وہی میلہ تھا جس میں عوام کی چادر چرائی گئی تھی یا عوام کی چادر چرائی گئی تھی یا عوام کی چادر چرانے کے لیے میلے کاجگاڑ یا لب جب کیاگیاتھا وہ تو بس اتفاقاً ان دونوں کی جان پہچان ان لاکٹوں کی وجہ سے ہوگئی جو دونوں کے گلے میں لٹکے ہوئے تھے اورآج جگاڑوں یا لب جب کے بجائے لیڈروں کے نام سے معروف ہیں ۔
پشتو میں ہر اس کام کو لب جب اورکرنے والے کو لب جبی کہاجاتا ہے جو صحیح ہوکر بھی غلط طریقے سے ہوتا ہے ، مثلاً آپ پڑھے لکھے بھی ہیں بلکہ میرٹ سے زیادہ میرٹ بھی رکھتے ہیں لیکن نوکری آپ کو نہیں ملتی اورکسی دوسرے نالائق نمبرون ہونے کے باوجود مل جاتی ہے۔
اسے لب جب اور نوکری دلانے کو لب جبی کہتے ہیں ۔یاآپ ٹھیکیدار ہیں کسی کام کاٹھیکہ لیتے ہیں اورشاندار طریقے سے وہ کام پورا کرتے ہیں لیکن آپ کا بل پاس نہیں ہوتا بلکہ ٹھیکہ منسوخ ہونے اور زرضمانت منسوخ ہونے یا لائسنس رد ہونے کے لالے پڑے ہوئے ہیں لیکن کوئی دوسرا ٹھیکیدار ٹھیکہ لے کر کچھ بھی نہیں کرتا وہ سڑک یا عمارت بنے بغیر کسی سیلاب یاکسی اورآفت کی ''نذر'' ہوجاتی ہے اورٹھیکیدار کو بل کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی مل جاتی ہے یہی جگاڑ یا لب جب ہے ۔
عرصہ ہوا پشاور میں ایک عمارت تعمیر ہوئی تھی جو آدھے ہی میں گرگئی اورآٹھ مزدوروں کو بھی کھاگئی، میٹریل کے نمونے لاہور بھیجے گئے کیوں کہ ون یونٹ کا زمانہ تھا کمیٹی بیٹھ گئی، تو مرنے والے مزدوروں میں جو بہت ہی غریب طبقے سے تھے وہ بعدازمرگ مجرم قراردیے گئے اور ٹھیکیدار کو شاباشی میں کچھ اضافی رقم بھی دے دی گئی ،جگاڑ زندہ باد لب جب پایندہ باد۔
لیکن جگاڑ اور لب جب کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی وہ تمام حکومتیں ہیں جو پچھترسال سے لب جب اور جگاڑ میں مصروف ہیں بلکہ اگر ہم اسے دنیا کا سب سے بڑا جگاڑ یا لب جب کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
وہ یہاں ہروقت ہمارے بغل میں موجود رہتا تھا اور جیسے ہی اسے موقع ملتا تو دوچار شعر ہمارے کانوں پر ٹھوک دیتا تھا ، ظاہر تو وہ یہ کرتا تھا کہ شعر اس کے اپنے ہیں لیکن ہم نے جان لیا تھا کہ وہ مال مسروقہ بڑے دھڑلے سے بیچتا تھا ،سب سے پہلا جگاڑ تو اس نے اپنے نام میں کیا ہوا تھا کہ بیک وقت وہ شہید بھی تھا، افغان بھی تھا۔
راجپوت، ٹھاکر بھی تھا اورعرب ،ایرانی بھی تھا لیکن اپنا پورا نام اس کے اپنے سوا اورکوئی بھی استعمال نہیں کرتا تھا اورایک مقامی شخص نے ہمیں بعینہ راز بتایا کہ وہ سارے بھوپال میں ''جگاڑو''کے نام سے جانا پہچانا اورمانا جاتاہے اور یہیں سے ہماری رگ تحقیق پھڑکی کہ اس لفظ جگاڑ اور جگاڑو کا ویراباؤٹ (where about) معلوم کریں کہ اس کی بنیاد مادہ معنیٰ کیا ہے اور یہ کس زبان کالفظ ہے۔
ہندی اور سنکسرت سے تو اس کا کوئی بھی تعلق نہیں بن رہاتھا کیوں کہ ہندی سنسکرت الفابیٹ میں (ڑ) کا حرف ہے ہی نہیں اوراس کی جگہ (ڈ) لکھا جاتاہے جیسے لڑائی کو لڈائی، سڑک کو سڈک ،گاڑی کو گاڈی، بوڑھے کو بڈھا اورگڑھے کو کھڈا لکھا جاتاہے۔
کسی دوسری مقامی زبان سے بھی اس کا رشتہ معلوم نہیں ہوسکا، اردو فارسی عربی وغیرہ سے تو اس کا دورکا بھی واسطہ نہیں تھا،کھوجتے کھوجتے اورکھودتے کھودتے پتہ چلاکہ پشتو میں اس کا ایک جڑواں بھائی موجود ہے ،''لب جب '' گویا معنوی رشتہ تو ملا لیکن تلفظ قطعی الگ الگ ۔
اس عرصے میں ہم نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جگاڑ اورلب جب ایسے الفاظ ہیں جن کے کوئی معنی نہیں ہیں لیکن آپ ان میں ہر ہرمعنی ڈال بھی سکتے ہیں اور ان سے نکال بھی سکتے ہیں ۔گویا اس مقام پر یہ دونوں پاکستانی دانشورہوجاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں کیوں کہ کچھ بھی نہیں جانتے بلکہ کچھ بھی نہیں جانتے اس لیے سب کچھ جانتے ہیں ۔
یہ سقراط کا فارمولہ ہے کہ جو سب کچھ جان لیتا ہے، وہ جان لیتاہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، اور وہ جو کچھ نہیں جانتا، سوری میں یہ نہیں جانتا کہ میں کچھ نہیں جانتا۔اوراس پرہمیں کوئی دلیل یا حجت دینے کی ضرورت بھی نہیں کہ سارے کالم نگار، ٹی وی اینکر اورلیڈرآپ کے سامنے خود ہی اپنے اوپر گواہی دینے کے لیے ، ہاں لفظ جگاڑ جس کاجڑواں بھائی پشتو لفظ لب جب ہے یہ تو معلوم نہیں ہو پایا کہ دونوں کسی میلے میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔
شاید یہ وہی میلہ تھا جس میں عوام کی چادر چرائی گئی تھی یا عوام کی چادر چرائی گئی تھی یا عوام کی چادر چرانے کے لیے میلے کاجگاڑ یا لب جب کیاگیاتھا وہ تو بس اتفاقاً ان دونوں کی جان پہچان ان لاکٹوں کی وجہ سے ہوگئی جو دونوں کے گلے میں لٹکے ہوئے تھے اورآج جگاڑوں یا لب جب کے بجائے لیڈروں کے نام سے معروف ہیں ۔
پشتو میں ہر اس کام کو لب جب اورکرنے والے کو لب جبی کہاجاتا ہے جو صحیح ہوکر بھی غلط طریقے سے ہوتا ہے ، مثلاً آپ پڑھے لکھے بھی ہیں بلکہ میرٹ سے زیادہ میرٹ بھی رکھتے ہیں لیکن نوکری آپ کو نہیں ملتی اورکسی دوسرے نالائق نمبرون ہونے کے باوجود مل جاتی ہے۔
اسے لب جب اور نوکری دلانے کو لب جبی کہتے ہیں ۔یاآپ ٹھیکیدار ہیں کسی کام کاٹھیکہ لیتے ہیں اورشاندار طریقے سے وہ کام پورا کرتے ہیں لیکن آپ کا بل پاس نہیں ہوتا بلکہ ٹھیکہ منسوخ ہونے اور زرضمانت منسوخ ہونے یا لائسنس رد ہونے کے لالے پڑے ہوئے ہیں لیکن کوئی دوسرا ٹھیکیدار ٹھیکہ لے کر کچھ بھی نہیں کرتا وہ سڑک یا عمارت بنے بغیر کسی سیلاب یاکسی اورآفت کی ''نذر'' ہوجاتی ہے اورٹھیکیدار کو بل کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی مل جاتی ہے یہی جگاڑ یا لب جب ہے ۔
عرصہ ہوا پشاور میں ایک عمارت تعمیر ہوئی تھی جو آدھے ہی میں گرگئی اورآٹھ مزدوروں کو بھی کھاگئی، میٹریل کے نمونے لاہور بھیجے گئے کیوں کہ ون یونٹ کا زمانہ تھا کمیٹی بیٹھ گئی، تو مرنے والے مزدوروں میں جو بہت ہی غریب طبقے سے تھے وہ بعدازمرگ مجرم قراردیے گئے اور ٹھیکیدار کو شاباشی میں کچھ اضافی رقم بھی دے دی گئی ،جگاڑ زندہ باد لب جب پایندہ باد۔
لیکن جگاڑ اور لب جب کی سب سے بڑی مثال پاکستان کی وہ تمام حکومتیں ہیں جو پچھترسال سے لب جب اور جگاڑ میں مصروف ہیں بلکہ اگر ہم اسے دنیا کا سب سے بڑا جگاڑ یا لب جب کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔