ڈراموں کی آڑ میں اسلامی تشخص پر حملہ
اسلام ایسے تمام رحجانات کو غیرفطری سجھتا ہے اور اسے جنس کے فطری تقاضوں اور مقاصد کی خلاف ورزی گردانتا ہے
گزشتہ دنوں نظر سے ایک ڈرامے کا وڈیو کلپ گزرا جسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، حواس قابو میں نہ رہے، ڈرامے کے منظرنے دل و دماغ پر جیسے ہتھوڑے چلا دیے ہوں۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پاکستانی ڈراموں کا اسکرپٹ ایسا بھی ہو سکتا ہے اور میرے اسلامی تشخص اور مشرقی معاشرے کے تانے بانے ادھیڑنے کی اس انداز میں کوشش کی جائے گی۔ ایک سین میں باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ساحل سمندر پر بیٹھا ہے اور بیٹے سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ بیٹا آج میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔
بیٹا کہتا ہے، جی بابا۔ باپ کہتا ہے کہ بیٹا میں آپ کو ہمیشہ کہتا ہوں نا کہ آپ بہت اسپیشل ہو۔ بچہ پھر کہتا ہے، جی بابا۔ باپ کہتا ہے کہ آپ کو پتا ہے میں آپ کو یہ بات کیوں کہتا ہوں ؟ بیٹا پوچھتا ہے، کیوں کہتے ہیں بابا ؟ اس لیے بیٹا کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوں گے آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
کبھی تو آپ کا دل چاہے گا کہ آپ بابا کی طرح کپڑے پہنو، باتیں کرو، مرد بن کے رہو اور بابا کی طرح آفس جاؤ، بہت سارے پیسے کماؤ اور شاید کبھی کبھی ایسا لگے کہ آپ امی کی طرح کلر فل کپڑے پہنو، بہت سارا میک اپ کرو، یہ دونوں باتیں بالکل بھی بری نہیں ہیں بیٹا، آپ جیسے بھی رہنا چاہو، میرے بیٹے رہو گے۔ اور بابا آپ سے ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے بیٹا۔ یہ فیصلہ آپ نے بڑے ہونے کے بعد کرنا ہے کہ آپ نے کیسے رہنا ہے۔ ابھی تو آپ نے پڑھنا ہے اور بہت ساری ایجوکیشن حاصل کرنی ہے۔
ڈرامے کا سین دیکھ کر یقیناً آپ کی کیفیت بھی میرے جیسی ہوگئی ہوگی۔ چار سال قبل ٹرانسجینڈر ایکٹ منظور ہوا مذہبی جماعتوں نے اس پر شدید تنقید کی اور اس قانون کو ختم کرانے کے لیے جماعت اسلامی، جے یو آئی نے وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کررکھا ہے۔
مملکت خداداد پاکستان روئے زمین پر واحد ملک ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اسے حاصل کرتے وقت ہم نے اللہ رب العزت سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس خطہ زمین میں جسے تیرے نام پر حاصل کیا ہے اس میں تیرا ہی نظام رائج کریں گے۔
یہ ہماری بدقسمتی اور کوتاہی ہے کہ ہم نے آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں، باقی آدھا بھی بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ہ
میں اپنی کوتاہی اور وعدہ خلافی پر اللہ سے معافی مانگنا چاہیے لیکن ہم ایسے کام کررہے ہیں جس سے اللہ ہم سے اور ناراض ہو۔ ہمارے اعمال اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔
مسلمان ہونے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر سے ہی سوچ بچار کریں، اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور اپنے پورے نظام زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دہائیوں سے اس ملک میں اسفل سالفین کا ایک مٹھی بھر گروہ ہمیں مذہبی تعلیمات و اقدار سے دور کرنے کی روش پر چل رہا ہے۔
جس کی وجہ سے ہماری اقدار، ہماری روایات، ہمارا طرز زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ اللہ نے ہمیشہ اچھائی پھیلانے کے لیے احسن تقویم کے سند یافتہ لوگوں کو کھڑا کیا، جو خرافات کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور ان کو خاک میں ملا دیا۔
ایسا لگتا ہے جیسے ایک منظم انداز میں پاکستان کی معاشرتی اقدار پر حملہ کیا جارہا ہے۔ معاشرے کے مختلف کردار کرائے کے ٹٹو بن کر اس سازش کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے امتحانی پرچے میں غیر اخلاقی سوال رکھا تھا۔ واقعہ کی مکمل تفصیل آپ کے ساتھ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں شیئر کرچکا ہوں۔
اس سے پہلے ہم جنس پرستی پر مبنی ایک فلم کی نمائش کا معاملہ آیا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں یوزرز نے اس کی نمائش روکنے کے لیے آواز اٹھائی لیکن سینسر بورڈ نے متنازع فلم کی نمائش کی اجازت دے کر جہاں پاکستان کی معاشرتی روایات کو مجروح کیا وہاں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔
جے یو آئی کے شدید احتجاج پر حکومت نے اجازت دینے کے باوجود اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی لیکن سینسر بورڈنے چند سین ختم کرکے اس فلم کی نمائش کی دوبارہ اجازت دے دی تھی تاہم اس وقت کی پنجاب حکومت نے دینی و ملی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ بھر میں اس فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی فلم کی نمائش کی اجازت دینا انتہائی افسوسناک اقدام ہے البتہ اسفل سافلین کا گروہ ان کے آقا پاکستان میں اس فلم کی نمائش پر خوش ہوئے۔اگر اس فلم کی نمائش کی اجازت نہ دی جاتی تو شاید آج ٹرانسجینڈر، صنفی امتیاز جیسے موضوعات پر مبنی ڈرامے نہ بنائے جاتے۔
اللہ نے مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے، تیسری کوئی جنس نہیں۔ اگر کوئی تیسری جنس ہوتی تو اللہ اپنی آخری کتاب میں ضرور بیان فرماتے۔ تمام اسلامی فقہوں کے مطابق ہم جنس پرستی ممنوع ہے۔ اسلام ایسے تمام رحجانات کو غیرفطری سجھتا ہے اور اسے جنس کے فطری تقاضوں اور مقاصد کی خلاف ورزی گردانتا ہے۔
قطع نظر مذہب و ملت کے، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالیٰ و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔
عفت و حیاء کو جزوایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں۔
ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنس پرستی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔ اسلامی معاشرے کو ایسی گندی عادات سے بچانے کے لیے اس جرم کے مرتکب کے لیے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔
اللہ کے قائم کردہ ضابطے اور حدود و قیود ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اس وقت ٹرانسجینڈر کے نام پر ہم جنس پرستی کا جو دروازہ کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے، پوری قوم کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان کرداروں کو بے نقاب کرنا ہے جو اس سازش کا حصہ ہیں۔ یاد رکھیں اگر ہم نے آج اس بے حیائی کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا تو کل ہمارے دروازوں پر یہ بے حیائی دستک دے گی۔ اسے بروقت روکنا ہم سب پر فرض ہے۔
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پاکستانی ڈراموں کا اسکرپٹ ایسا بھی ہو سکتا ہے اور میرے اسلامی تشخص اور مشرقی معاشرے کے تانے بانے ادھیڑنے کی اس انداز میں کوشش کی جائے گی۔ ایک سین میں باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ساحل سمندر پر بیٹھا ہے اور بیٹے سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ بیٹا آج میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔
بیٹا کہتا ہے، جی بابا۔ باپ کہتا ہے کہ بیٹا میں آپ کو ہمیشہ کہتا ہوں نا کہ آپ بہت اسپیشل ہو۔ بچہ پھر کہتا ہے، جی بابا۔ باپ کہتا ہے کہ آپ کو پتا ہے میں آپ کو یہ بات کیوں کہتا ہوں ؟ بیٹا پوچھتا ہے، کیوں کہتے ہیں بابا ؟ اس لیے بیٹا کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوں گے آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
کبھی تو آپ کا دل چاہے گا کہ آپ بابا کی طرح کپڑے پہنو، باتیں کرو، مرد بن کے رہو اور بابا کی طرح آفس جاؤ، بہت سارے پیسے کماؤ اور شاید کبھی کبھی ایسا لگے کہ آپ امی کی طرح کلر فل کپڑے پہنو، بہت سارا میک اپ کرو، یہ دونوں باتیں بالکل بھی بری نہیں ہیں بیٹا، آپ جیسے بھی رہنا چاہو، میرے بیٹے رہو گے۔ اور بابا آپ سے ہمیشہ پیار کرتے رہیں گے بیٹا۔ یہ فیصلہ آپ نے بڑے ہونے کے بعد کرنا ہے کہ آپ نے کیسے رہنا ہے۔ ابھی تو آپ نے پڑھنا ہے اور بہت ساری ایجوکیشن حاصل کرنی ہے۔
ڈرامے کا سین دیکھ کر یقیناً آپ کی کیفیت بھی میرے جیسی ہوگئی ہوگی۔ چار سال قبل ٹرانسجینڈر ایکٹ منظور ہوا مذہبی جماعتوں نے اس پر شدید تنقید کی اور اس قانون کو ختم کرانے کے لیے جماعت اسلامی، جے یو آئی نے وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کررکھا ہے۔
مملکت خداداد پاکستان روئے زمین پر واحد ملک ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اسے حاصل کرتے وقت ہم نے اللہ رب العزت سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس خطہ زمین میں جسے تیرے نام پر حاصل کیا ہے اس میں تیرا ہی نظام رائج کریں گے۔
یہ ہماری بدقسمتی اور کوتاہی ہے کہ ہم نے آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ہم آدھا ملک گنوا چکے ہیں، باقی آدھا بھی بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ہ
میں اپنی کوتاہی اور وعدہ خلافی پر اللہ سے معافی مانگنا چاہیے لیکن ہم ایسے کام کررہے ہیں جس سے اللہ ہم سے اور ناراض ہو۔ ہمارے اعمال اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔
مسلمان ہونے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر سے ہی سوچ بچار کریں، اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور اپنے پورے نظام زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دہائیوں سے اس ملک میں اسفل سالفین کا ایک مٹھی بھر گروہ ہمیں مذہبی تعلیمات و اقدار سے دور کرنے کی روش پر چل رہا ہے۔
جس کی وجہ سے ہماری اقدار، ہماری روایات، ہمارا طرز زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ اللہ نے ہمیشہ اچھائی پھیلانے کے لیے احسن تقویم کے سند یافتہ لوگوں کو کھڑا کیا، جو خرافات کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور ان کو خاک میں ملا دیا۔
ایسا لگتا ہے جیسے ایک منظم انداز میں پاکستان کی معاشرتی اقدار پر حملہ کیا جارہا ہے۔ معاشرے کے مختلف کردار کرائے کے ٹٹو بن کر اس سازش کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے امتحانی پرچے میں غیر اخلاقی سوال رکھا تھا۔ واقعہ کی مکمل تفصیل آپ کے ساتھ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں شیئر کرچکا ہوں۔
اس سے پہلے ہم جنس پرستی پر مبنی ایک فلم کی نمائش کا معاملہ آیا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں یوزرز نے اس کی نمائش روکنے کے لیے آواز اٹھائی لیکن سینسر بورڈ نے متنازع فلم کی نمائش کی اجازت دے کر جہاں پاکستان کی معاشرتی روایات کو مجروح کیا وہاں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔
جے یو آئی کے شدید احتجاج پر حکومت نے اجازت دینے کے باوجود اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی لیکن سینسر بورڈنے چند سین ختم کرکے اس فلم کی نمائش کی دوبارہ اجازت دے دی تھی تاہم اس وقت کی پنجاب حکومت نے دینی و ملی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ بھر میں اس فلم کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی فلم کی نمائش کی اجازت دینا انتہائی افسوسناک اقدام ہے البتہ اسفل سافلین کا گروہ ان کے آقا پاکستان میں اس فلم کی نمائش پر خوش ہوئے۔اگر اس فلم کی نمائش کی اجازت نہ دی جاتی تو شاید آج ٹرانسجینڈر، صنفی امتیاز جیسے موضوعات پر مبنی ڈرامے نہ بنائے جاتے۔
اللہ نے مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے، تیسری کوئی جنس نہیں۔ اگر کوئی تیسری جنس ہوتی تو اللہ اپنی آخری کتاب میں ضرور بیان فرماتے۔ تمام اسلامی فقہوں کے مطابق ہم جنس پرستی ممنوع ہے۔ اسلام ایسے تمام رحجانات کو غیرفطری سجھتا ہے اور اسے جنس کے فطری تقاضوں اور مقاصد کی خلاف ورزی گردانتا ہے۔
قطع نظر مذہب و ملت کے، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت عالیٰ و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔
عفت و حیاء کو جزوایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں۔
ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنس پرستی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔ اسلامی معاشرے کو ایسی گندی عادات سے بچانے کے لیے اس جرم کے مرتکب کے لیے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔
اللہ کے قائم کردہ ضابطے اور حدود و قیود ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اس وقت ٹرانسجینڈر کے نام پر ہم جنس پرستی کا جو دروازہ کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے، پوری قوم کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان کرداروں کو بے نقاب کرنا ہے جو اس سازش کا حصہ ہیں۔ یاد رکھیں اگر ہم نے آج اس بے حیائی کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا تو کل ہمارے دروازوں پر یہ بے حیائی دستک دے گی۔ اسے بروقت روکنا ہم سب پر فرض ہے۔