دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کو شکست دی جائے
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے
'' شہدائے پاکستان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور انشاء اﷲ پاکستان میں مکمل امن واپس آئے گا '' ان خیالات کا اظہار پاکستانی فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے جنوبی وزیرستان میں پاک افغان سرحد پر فرنٹ چوکیوں پر تعینات فوجیوں سے بات چیت میں کیا۔
انھوں نے مختلف ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی اہمیت اور خاص طور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فارمیشن ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا۔
درحقیقت سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
دنیا کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان تنہا ان دہشت گرد گروپوں کا قلع قمع کردے گا ، آج دنیا پاکستان آرمڈ فورسز کی صلاحیتوں پر دنگ ہے۔ عزم ، حوصلہ اور قربانی کا جذبہ ہو تو مشکل سے مشکل اور ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان نے ایک طرف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی تو دوسری طرف زہریلے اور نفرت انگیز پروپیگنڈا وار کا بھی سامنا کیا۔ پاکستان ففتھ جنریشن وار فئیر کا مقابلہ بھی کر رہا ہے ، کیونکہ دہشت گرد گروہ اپنے سہولت کاروں اور فنانسرز کے ذریعے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ریاست اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا وار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری آیندہ نسلوں کی بقاء کی جنگ ہے ، جسے ہر قیمت پر جیتنا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
دہشت گردی کا عفریت ایک گزری رت کی طرح واپس لوٹا آیا ہے۔ اسے واپس کون لایا، اب یہ راز بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔
خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو گروپ دوبارہ متحرک ہوئے ہیں، ان کا صفایا کیا جاسکے لیکن اس وقت پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے فنانسر، ہنڈلرز اور کیرئرز کا قلع قمع سب سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔چہروں پر تہذیب اور تعلیم یافتہ ہونے کا ماسک چڑھائے ہوئے یہ لوگ پاکستان کے لیے زہر قاتل بن چکے ہیں۔
پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے اور ان کے حامیوں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اور ڈالرز ضایع کیے پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد خرچ کر کے دہشت گردی پر قابو پایا۔
خارجہ پالیسی کا بنیادی تعلق افغانستان کے بارے میں ہمارے خیالات و تصورات سے جنم لیتا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ کو ہم نے اجتماعی کاوشوں سے تشکیل دیا ہے اور اسے پیغام پاکستان کا نام دیا گیا۔
مسلح اقدام ان معنوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کہ ہم نے ملک کو دہشت گردوں کے قبضے سے نکال لیا۔ قبائلی علاقوں کو صوبے کے نظم میں شامل کر کے اور مسلح گروہوں کے لیے موجود پناہ گاہوں کو نیست و نابود کر دیا گیا اور اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ سب اسلحہ بردار ختم کر دیے گئے ہیں اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا ، البتہ ان دہشت گردوں میں سے ایک موثر و فعال طبقہ افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
یہ وہ اہم مقام ہے جہاں پر خارجہ پالیسی کے عمل دخل کا آغاز ہوتا ہے اور وہ دہشت گردی کے مسئلے سے براہ راست منسلک ہو جاتی ہے۔ دنیا میں کوئی گوریلا جنگ سرحد پار کی مدد کے بغیر نہ لڑی جا سکتی اور نہ ہی اس کو مسلسل جاری رکھا جا سکتا ہے۔
گوریلا جنگ میں '' حملہ کرو اور بھاگ جاؤ '' کے فلسفے کو اپنایا جاتا ہے۔ گوریلے جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپنے کے لیے سہارا لیتے ہیں۔ ریاستی افواج کی مہارت براہ راست کھلی جنگ میں ہوتی ہے، ہماری شمال مغربی سرحد گوریلا جنگ کے لیے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دہشت گرد پاکستان میں اپنے سہولت کاروں کی مخبری اورسہولت کاری کا فائدہ خودکش حملے،بم دھماکے وغیرہ کرکے افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان ماضی میں سابق صدر اشرف غنی سے شکایت کرتا رہا کہ پاکستان کے دہشت گردوں کو آپ لوگوں نے نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں دے رکھی ہیں بلکہ انھی انٹیلی جنس کی بھی مدد حاصل ہے۔ ماضی میں افغان حکومت کا جواب ہوتا تھا کہ ہم نے چار ہزار لوگوںکو قید کر رکھا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں ایک دوست اور ہمدرد حکومت کا قیام ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہم نے یہ نادر خیال 1980 سے گود میں لے رکھا ہے۔
1989 میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد ہماری کوشش تھی کہ افغانستان میں افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے لیکن افغان مجاہدین گروپ اقتدار کی ہوس کا شکار تھے ، سب اقتدار چاہتے تھے لہٰذا افغانستان فساد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ، لیکن پاکستان میں اقتدار پر قابض مخصوص مائنڈ سیٹ نے افغانستان میں ایک مخصوص گروپ کو اپنا دوست سمجھا اور اسے حکومت دلانے کے خیال کو حرز جان بنائے رکھا۔
اس سے افغانستان میں تاجک، منگول ہزارہ، ازبک اور دیگر نسلی گروپوں میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان افغانستان کو ایک ماتحت ریاست بنانا چاہتا ہے۔ دوست حکومت کے خیال نے طالبان کو جنم دیا اور دو مرتبہ انھیں اقتدار تک رسائی دلوائی گئی لیکن افغانستان میں ایک دوست حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہی ہو سکا ہے۔
آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہی ہے کہ ہماری شمال مغربی سرحد آج سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ہے۔
افغانستان میں افغان طالبان نے امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے اقتدار حاصل کیا، پاکستان کو امید تھی کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کو مطلوب دہشت گرد گروپوں کو ختم کریں گے۔ طالبان رہنماؤں نے دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔
افغانستان میں داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں آزادی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ افغانستان آج بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے ، جن نابغہ روزگار لوگوں نے یہ خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے ان کے لیے مقام عبرت ہے کہ افغانستان میں ایک دوست حکومت کا تصور کتنا بے معنی اور لا یعنی تھا۔
ریاست کا دہشت گردی کے خلاف قدم اور خارجہ پالیسی سے زیادہ اہم پیغام پاکستان ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رائے موجود ہے۔ یہ سب سے اہم پہلو ہے جس نے سوچوں اور نظریات کے دھارے کو بدلنا ہے۔ محض تربیتی ورکشاپوں سے قوم کے خیالات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں ، مدارس کے نصاب اور ماحول میں اس پیغام پاکستان کی روشنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں غالب انتہاپسند فکر اور مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی کی شہادت نہیں مل سکی ہے جو پیغام پاکستان کا نتیجہ ہو ، ان بنیادی پہلوؤں کی نسبت سے ریاست کی سطح پر کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔
یہ بھی کسی پاکستان کے شہری کو معلوم نہیں ہے کہ اس پالیسی کا مرکز کہاں ہے؟ نیکٹا اپنا وجود رکھتا ہے لیکن اس کی کارکردگی اور کاموں کے بارے میں لوگ لا علم ہیں۔ نئی نسل بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح تاریک راہوں میں چل رہی ہے، یہ نسل انتہا پسندی کا شکار ہے۔ریاست ، ادارے، سیاسی و مذہبی قیادت ،اصلاحی اور خیراتی تنظمیں چلانے والے گروہ انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کو قومی سلامتی کے خلاف کوئی خطرہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اس انتہا پسندی سے لا تعلق نظر آرہی ہیں،جیسے یہ ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ کاروباری طبقات بھی غیرسنجیدہ ہے، ملک تعلیم یافتہ سمجھے جانے والے طبقے بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں۔
اس پس منظر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی لہر کیوں اٹھی؟ ہمارے ملک کے بارے میں عالمی مالیاتی قوتوں کا رد عمل کیا ہو گا، اس کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ملکی سیاست، معیشت اور دہشت گردی نے ہماری بقا کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہمیں نئے سرے سے انتہا پسندی اوردہشت گردی کے حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کو ہلکا لینے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں ۔ موجودہ حالات میں امن پسند قوتیں ، بد امنی پھیلانے والی تمام قوتوں کے خلاف متحد ہو کر ان کا محاسبہ کریں ، دہشت گردی مائنڈ سیٹ کی جنگ ہے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینا ہوگی۔
انھوں نے مختلف ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی اہمیت اور خاص طور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فارمیشن ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا۔
درحقیقت سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
دنیا کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان تنہا ان دہشت گرد گروپوں کا قلع قمع کردے گا ، آج دنیا پاکستان آرمڈ فورسز کی صلاحیتوں پر دنگ ہے۔ عزم ، حوصلہ اور قربانی کا جذبہ ہو تو مشکل سے مشکل اور ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان نے ایک طرف دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی تو دوسری طرف زہریلے اور نفرت انگیز پروپیگنڈا وار کا بھی سامنا کیا۔ پاکستان ففتھ جنریشن وار فئیر کا مقابلہ بھی کر رہا ہے ، کیونکہ دہشت گرد گروہ اپنے سہولت کاروں اور فنانسرز کے ذریعے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ریاست اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا وار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری آیندہ نسلوں کی بقاء کی جنگ ہے ، جسے ہر قیمت پر جیتنا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
دہشت گردی کا عفریت ایک گزری رت کی طرح واپس لوٹا آیا ہے۔ اسے واپس کون لایا، اب یہ راز بھی کھل کر سامنے آچکا ہے۔
خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو گروپ دوبارہ متحرک ہوئے ہیں، ان کا صفایا کیا جاسکے لیکن اس وقت پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے فنانسر، ہنڈلرز اور کیرئرز کا قلع قمع سب سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔چہروں پر تہذیب اور تعلیم یافتہ ہونے کا ماسک چڑھائے ہوئے یہ لوگ پاکستان کے لیے زہر قاتل بن چکے ہیں۔
پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے اور ان کے حامیوں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے ، یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جتنے وسائل اور ڈالرز ضایع کیے پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد خرچ کر کے دہشت گردی پر قابو پایا۔
خارجہ پالیسی کا بنیادی تعلق افغانستان کے بارے میں ہمارے خیالات و تصورات سے جنم لیتا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ کو ہم نے اجتماعی کاوشوں سے تشکیل دیا ہے اور اسے پیغام پاکستان کا نام دیا گیا۔
مسلح اقدام ان معنوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کہ ہم نے ملک کو دہشت گردوں کے قبضے سے نکال لیا۔ قبائلی علاقوں کو صوبے کے نظم میں شامل کر کے اور مسلح گروہوں کے لیے موجود پناہ گاہوں کو نیست و نابود کر دیا گیا اور اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ سب اسلحہ بردار ختم کر دیے گئے ہیں اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا ، البتہ ان دہشت گردوں میں سے ایک موثر و فعال طبقہ افغانستان فرار ہوگیا تھا۔
یہ وہ اہم مقام ہے جہاں پر خارجہ پالیسی کے عمل دخل کا آغاز ہوتا ہے اور وہ دہشت گردی کے مسئلے سے براہ راست منسلک ہو جاتی ہے۔ دنیا میں کوئی گوریلا جنگ سرحد پار کی مدد کے بغیر نہ لڑی جا سکتی اور نہ ہی اس کو مسلسل جاری رکھا جا سکتا ہے۔
گوریلا جنگ میں '' حملہ کرو اور بھاگ جاؤ '' کے فلسفے کو اپنایا جاتا ہے۔ گوریلے جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپنے کے لیے سہارا لیتے ہیں۔ ریاستی افواج کی مہارت براہ راست کھلی جنگ میں ہوتی ہے، ہماری شمال مغربی سرحد گوریلا جنگ کے لیے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دہشت گرد پاکستان میں اپنے سہولت کاروں کی مخبری اورسہولت کاری کا فائدہ خودکش حملے،بم دھماکے وغیرہ کرکے افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان ماضی میں سابق صدر اشرف غنی سے شکایت کرتا رہا کہ پاکستان کے دہشت گردوں کو آپ لوگوں نے نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں دے رکھی ہیں بلکہ انھی انٹیلی جنس کی بھی مدد حاصل ہے۔ ماضی میں افغان حکومت کا جواب ہوتا تھا کہ ہم نے چار ہزار لوگوںکو قید کر رکھا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ افغانستان میں ایک دوست اور ہمدرد حکومت کا قیام ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہم نے یہ نادر خیال 1980 سے گود میں لے رکھا ہے۔
1989 میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد ہماری کوشش تھی کہ افغانستان میں افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہو جائے لیکن افغان مجاہدین گروپ اقتدار کی ہوس کا شکار تھے ، سب اقتدار چاہتے تھے لہٰذا افغانستان فساد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ، لیکن پاکستان میں اقتدار پر قابض مخصوص مائنڈ سیٹ نے افغانستان میں ایک مخصوص گروپ کو اپنا دوست سمجھا اور اسے حکومت دلانے کے خیال کو حرز جان بنائے رکھا۔
اس سے افغانستان میں تاجک، منگول ہزارہ، ازبک اور دیگر نسلی گروپوں میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان افغانستان کو ایک ماتحت ریاست بنانا چاہتا ہے۔ دوست حکومت کے خیال نے طالبان کو جنم دیا اور دو مرتبہ انھیں اقتدار تک رسائی دلوائی گئی لیکن افغانستان میں ایک دوست حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہی ہو سکا ہے۔
آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہی ہے کہ ہماری شمال مغربی سرحد آج سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ ہے۔
افغانستان میں افغان طالبان نے امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے اقتدار حاصل کیا، پاکستان کو امید تھی کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کو مطلوب دہشت گرد گروپوں کو ختم کریں گے۔ طالبان رہنماؤں نے دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔
افغانستان میں داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں آزادی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ افغانستان آج بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے ، جن نابغہ روزگار لوگوں نے یہ خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے ان کے لیے مقام عبرت ہے کہ افغانستان میں ایک دوست حکومت کا تصور کتنا بے معنی اور لا یعنی تھا۔
ریاست کا دہشت گردی کے خلاف قدم اور خارجہ پالیسی سے زیادہ اہم پیغام پاکستان ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق رائے موجود ہے۔ یہ سب سے اہم پہلو ہے جس نے سوچوں اور نظریات کے دھارے کو بدلنا ہے۔ محض تربیتی ورکشاپوں سے قوم کے خیالات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں ، مدارس کے نصاب اور ماحول میں اس پیغام پاکستان کی روشنی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں غالب انتہاپسند فکر اور مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی کی شہادت نہیں مل سکی ہے جو پیغام پاکستان کا نتیجہ ہو ، ان بنیادی پہلوؤں کی نسبت سے ریاست کی سطح پر کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔
یہ بھی کسی پاکستان کے شہری کو معلوم نہیں ہے کہ اس پالیسی کا مرکز کہاں ہے؟ نیکٹا اپنا وجود رکھتا ہے لیکن اس کی کارکردگی اور کاموں کے بارے میں لوگ لا علم ہیں۔ نئی نسل بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح تاریک راہوں میں چل رہی ہے، یہ نسل انتہا پسندی کا شکار ہے۔ریاست ، ادارے، سیاسی و مذہبی قیادت ،اصلاحی اور خیراتی تنظمیں چلانے والے گروہ انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کو قومی سلامتی کے خلاف کوئی خطرہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اس انتہا پسندی سے لا تعلق نظر آرہی ہیں،جیسے یہ ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ کاروباری طبقات بھی غیرسنجیدہ ہے، ملک تعلیم یافتہ سمجھے جانے والے طبقے بھی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں۔
اس پس منظر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں کہ دہشت گردی کی لہر کیوں اٹھی؟ ہمارے ملک کے بارے میں عالمی مالیاتی قوتوں کا رد عمل کیا ہو گا، اس کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ملکی سیاست، معیشت اور دہشت گردی نے ہماری بقا کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہمیں نئے سرے سے انتہا پسندی اوردہشت گردی کے حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کو ہلکا لینے سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہوچکی ہیں ۔ موجودہ حالات میں امن پسند قوتیں ، بد امنی پھیلانے والی تمام قوتوں کے خلاف متحد ہو کر ان کا محاسبہ کریں ، دہشت گردی مائنڈ سیٹ کی جنگ ہے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینا ہوگی۔