توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کی درخواست مسترد ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

عمران خان نے ریاست ریاست کی رٹ اور تقدس کو چیلنج کیا، ایسی صورت میں انڈر ٹیکنگ پر ضمانت نہیں دی جاسکتی، تحریری فیصلہ

(فوٹو فائل)

توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ظفر اقبال نے عمران خان کے وارنٹ منسوخ کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے ہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ میں نے تفصیلی فیصلے میں سب کچھ لکھ دیا ہے کہ وارنٹ ہوتا کیا ہے اور کب جاری کیا جاتا ہے سب کچھ لکھ دیا ہے، مید ہے فیصلہ پڑھ کر آپ کو مزا آئے گا۔

توشہ خانہ فوجداری کیس کی کارروائی کا تفصیلی فیصلہ جاری

عدالت کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے، درخواست گزار نے لاہور میں امن و امان کی صورتحال پیدا کی، ایسا رویہ عدالت کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے، اس صورتحال کے بعد عمران خان کسی عمومی قانونی ریلیف کے مستحق نہیں، عمران خان کو عدالتی کارروائی کی خلاف ورزی پر ذاتی طور پر پیش ہونا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سب سے بات کرنے کیلئے تیار اور عدالت میں پیش ہوں گا، عمران خان کا اعلان

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون معاشرے کے طاقت ور اور کمزور تمام طبقوں کے لیے برابر ہے ، یہ کوئی مذاق نہیں کہ قومی خزانے کو اتنا بڑا نقصان پہنچانے کے بعد انڈرٹیکنگ دے دی جائے ، لاہور میں قومی خزانے ، املاک اور لوگوں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا، عمران خان کے اس کنڈکٹ اور عمل کے بعد محض انڈرٹیکنگ پر وارنٹ منسوخ نہیں کئے جا سکتے، عمران خان کے وکیل نے وارنٹ پر عمل درآمد پر مزاحمت کو افسوس ناک قرار دیا۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان نے ریاست ریاست کی رٹ اور تقدس کو چیلنج کیا ، پولیس کی فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے ظالمانہ طاقت کا استعمال کیا گیا، یہ تمام صورتحال پیدا کرنے کے بعد عمران خان وارنٹ گرفتاری معطلی کے حقدار نہیں ہے، عمران خان کے فالورز نے کئی پولیس اہلکاروں کو زخمی کہیں پولیس گاڑیوں کو جلایا۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں ان کے فالورز نے پولیس کے وارنٹ گرفتاری تعمیل میں رکاوٹ ڈالی، عمران خان کے کنڈکٹ اور عمل کے باعث غریب قوم کے لاکھوں روپے خرچ ہوئے، قانون کے مطابق عوام پولیس کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد میں معاونت کی پابند ہے، عدالت طلبی کے باوجود مسلسل عدم حاضری پر ملزم کے وارنٹ جاری کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ضلعی انتظامیہ کا پی ٹی آئی کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت دینے سے انکار

فیصلے میں لکھا گیا کہ عدالت ناقابل ضمانت وارنٹ میں پولیس کو ملزم کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیتی ہے، وارنٹ گرفتاری ملزم کے عدالت کے سامنے پیش ہونے پر منسوخ ہو جاتے ہیں، قابل ذکر ہے کہ پولیس نے عمران خان کو بلا تاخیر گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے، پولیس عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ پر پاکستان میں کسی بھی مقام پر عمل درآمد کرا سکتی ہے، جس پولیس افسر کو وارنٹ جاری کیا جاتا ہے وہ اس پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے، عدالتی ریکارڈ کے مطابق عمران خان اس کیس میں کبھی عدالت پیش نہیں ہوئے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت نے چار بار عمران خان کی ذاتی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی۔

پی ٹی آئی رہنما کا ردعمل

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‏عمران خان سابق وزیراعظم ہیں، انہوں نے عدالت میں 18 مارچ کو پیشی کا لکھ کر دے دیا اُس کے باوجود درخواست خارج کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اب کسی کو کوئی شک نہیں رہنا چاہئے لندن پلان میں جو گارنٹی دی گئی ہے اس پر عملدرآمد کے لئے عمران خان کو گرفتار کروانا ہے۔

سماعت کا احوال

قبل ازیں، عمران حان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اور فیصل چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو جج نے استفسار کیا کہ آپ ایک بتایئں آپ resist کیوں کر رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپ ہائیکورٹ کے آرڈر کو ''as it is'' دیکھ لیں اور اگر آپ satisfied ہیں تو انڈرٹیکنگ لے لیں عمران حان 18 مارچ کو خود پیش ہوجائیں گے۔ آپ وارنٹ کو withdraw نہ کریں معطل کر دیں تاکہ عمران خان خود عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو مینار پاکستان پر جلسے سے روک دیا

 

جج ظفر اقبال نے کہا کہ ہم تھانے کے ایس ایچ او کو نوٹس کرکے پوچھ لیتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ لاہور میں حالات خراب ہیں آپ وارنٹ کو suspend کر دیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ حالات کیوں خراب ہیں اور آپ تعاون کیوں نہیں کر رہے ہیں، اس پر اتنا نقصان ہوا اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے۔

جج نے سوال کیا کہ انڈر ٹیکنگ original کہاں ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم لے آتے ہیں، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ بس رہنے دیں میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری رکھنے ہیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں اور وہ استثنیٰ نہیں مانگ رہے بلکہ عدالت آنا چاہتے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا لیکن وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زمان پارک میں ہنگامہ آرائی، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر مقدمہ درج

وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جج نے ریمارکس دیے کہ آپ جو دلائل بتا رہے وہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے مطابق ہیں اور کیس میں شیورٹی تو آئی ہوئی ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہء کار سے سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا۔ عمران خان کیوں نہیں آ رہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنا ہے مزاحمت نہیں کرنی، عمران خان نے مزاحمت کرکے سین کو بنانا نہیں ہے۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے آرڈر کو دیکھ کر آپ کی درخواست کو دیکھتے ہیں، اینڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ کہا پر لکھا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 76 میں انڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ موجود ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 76 میں تو قابل ضمانت وارنٹ کے حوالے سے لکھا ہے ناقابل ضمانت کے حوالے سے نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

اسے بھی پڑھیں: عمران خان کی پولیس سیکیورٹی مکمل واپس لے لی گئی

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر گرفتار کرنا ہی ہے تو پھر ہم ہائیکورٹ کیوں جاتے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے میرے آرڈر کو بحال رکھا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے لکھا ہے کہ آپ انڈر ٹیکنگ دیکھ لو ان کی شیورٹی دیکھ لو اسکے بعد آرڈر کر دو اور میں سمجھتا ہوں ہائیکورٹ نے درمیانہ راستہ نکالا ہے، ہائیکورٹ نے مجھے کہا تھا کہ ہم درمیانہ راستہ نکالیں گے۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے موکل یہی کہہ دیتے کہ میں عدالت میں جا رہا ہوں تو معاملہ ختم کر دیتے، اگر عمران خان ابھی بھی سرنڈر کر دیتے ہیں تو میں ابھی آئی جی کو کہہ دیتا ہوں کہ ان کو گرفتار نا کیا جائے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ سر یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ غلط ہوا اور دونوں طرف سے غلط ہوا، پورے پنجاب سے پولیس کو بلا کر حملہ کیا گیا۔ جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ منسوخ ہوسکتے ہیں لیکن اس کی ٹھوس وجہ بتا دیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ بیان حلفی آگیا ہے اس لیے وارنٹ ختم کیے جائیں، ایک مزاحمت یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ پرامن احتجاج کر لیتے یا پلے کارڈ اٹھا لیتے۔

اسے بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا صبح دس بجے تک زمان پارک پولیس آپریشن روکنے کا حکم

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ آپ کے پاس ہم آئے ہی اس لیے ہیں۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ملزمان پیش ہو جاتے ہیں اور وارنٹ ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں پھر ہم ختم کر دیتے ہیں۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ اگر گرفتار ہو کر ہی آنا ہے تو اس ساری کوشش کی ضرورت ہی نا تھی، عمران خان عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے گرفتاری کی کیا ضرورت ہے، حکومت پر کیس کرنا چاہیے کروڑوں روپے ضائع ہوگئے۔


جج نے ریمارکس دیے کہ غریب ملک ہے کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، قانون کے مطابق وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پولیس کو نوٹس کرکے بلاتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز


ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے دوبارہ سماعت کا آغاز کیا۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آگئے۔ اسلام آباد پولیس کے لا آفیسر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ایس ایچ او جنہوں نے وارنٹ کی تعمیل کروانی تھی وہ ابھی لاہور میں ہیں اور الیکشن کمیشن کے وکیل پشاور ہائی کورٹ میں ہیں جو ڈھائی بجے تک پہنچ جائیں گے، جس پر وکیل نے ڈھائی بجے تک کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہاں پر موجود ہے اور عمران خان کی پیشی کی یقین دہانی کروا رہا ہوں جبکہ میری درخواست ہے وارنٹ گرفتاری کے حکم پر عدالت نظر ثانی کرے۔ میں عمران خان کی طرف سے انڈر ٹیکنگ دے رہا ہوں کہ 18 مارچ عمران خان پیش ہوں گے۔ اس عدالت کے پاس اختیار ہے کہ آپ آرڈر جاری کر سکتے ہیں، اگر یہ عدالت کچھ اور آرڈر پاس کرتی ہے تو ہمیں کچھ وقت چاہیے ہوگا اور یہ تمام چیزیں ایک دفعہ تو طے ہونی ہیں۔

جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ یہ بات صرف سادہ سی تھی لیکن الجھا دی گئی، قانون میں لکھا ہے انہوں نے سیدھا میرے پاس لانا تھا اور بات ختم۔ میں آپ کو بتاؤں کہ آپ کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ قانون کے مطابق حاضری ہو جائے اور جب معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ جاتا ہے تو ہمیں پھر وہ بھی دیکھنا ہوتا ہے، ایک طرف ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ہمارا حکم درست تھا اور ہائی کورٹ کا جب حکم آتا کے تو ہمارے پاس اختیارات اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے جہاں کہا سیشن کورٹ کا حکم درست ہے وہیں کہا کہ یہ حکم کے بعد کی ڈویلپمنٹ ہے، ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ہماری انڈر ٹیکنگ دیکھ لیں اور اگر یہ عدالت وارنٹ پر عمل درآمد روک دیتی ہے تو ہم 18 مارچ کو پیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ آپ انڈر ٹیکنگ کی تصدیق کریں اور شیورٹی بانڈ لے سکتے ہیں، آپ کے آرڈر کو ٹھیک کہا لیکن ہماری پٹیشن خارج نہیں کی اور اگر کچھ بھی نہیں تھا تو ہائی کورٹ ہماری پٹیشن کو خارج کر دیتی۔

خواجہ حارث نے ایک دفعہ پھر ہائیکورٹ کے آرڈر کو پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ وارنٹ کے معاملے کو ٹرائل کورٹ دیکھے، ہائیکورٹ نے کہا ملزم کی حاضری یقینی بنانے کے لیے عدالت وارنٹ جاری کرتی ہے اور ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا کہ ٹرائل کورٹ انڈر ٹیکنگ دیکھ کر فیصلہ کرے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہہماری پٹیشن ہائی کورٹ نے خارج نہیں کی بلکہ ہدایات کے ساتھ نمٹائی ہے، جب مکمل فیصلہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ کے 13 مارچ کے آرڈر کے بعد کی صورتحال ہے۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ میں آؤں گا، سر آپ کی بھی عزت ہوگی وہ عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، آپ نے وارنٹ ختم نہیں کرنے بلکہ وقتی طور پر اس کو معطل یا عمل درآمد روکنا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دو دن بعد عمران خان پیش نا ہوں اور گزشتہ رات بھی عمران خان نے دوبارہ یقین دہانی کروائی کہ وہ 18 مارچ کو پیش ہوں گے۔ پکڑ کے گرفتار کرکے پیش کرنا ضروری نہیں جب خود وہ پیش ہو رہے ہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ چلیں خواجہ صاحب دیکھتے ہیں، خواجہ صاحب یقین کریں مجھے مزاحمت بڑی عجیب لگی ہے اور اگر مزاحمت نا ہوتی تو کوئی ایشو نہیں تھا، لڑائی جھگڑا ہونا نہیں چاہیے۔ وکیل نے کہا کہ پولیس آفیسر اور جو اہلکار ہیں وہ کورٹ کے آرڈر پر عمل درآمد کروا رہے ہیں، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ آپ ان کی لیگل ٹیم ہیں ان کو بتائیں انہوں نے مزاحمت نہیں کرنی ہوتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پولیس نے اس واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور میری ریکوئسٹ ہوگی کہ یہ عدالت لاہور والے واقعے کو اس کے ساتھ ملا کرنا دیکھے۔ پرسوں کی بات ہے عمران خان پیش ہونے کے لیے تیار ہیں اور عمران خان بغیر گرفتاری پیش ہو جائیں گے تو بہتر ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہمارے دو وکیل لاہور اور پشاور میں ہیں، ڈھائی بجے تک الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن پشاور سے پہنچیں گے۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ میں کچھ فیصلہ لایا ہوں کہ غیر موجودگی میں بھی وارنٹ منسوخ ہو سکتے ہیں، ضابطہ فوجداری میں ناقابل ضمانت وارنٹ کا کوئی تصور نہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم آپ کے وارنٹ کے حکم کو چیلنج نہیں کر رہے۔

عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے نمائندے نے ڈھائی بجے تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی۔

سماعت دوبارہ شروع


الیکشن کمیشن کے وکیل اور پولیس حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ پولیس کا اس معاملے میں کچھ نہیں ہے یہ پرائیویٹ کمپلینٹ ہے۔ جج نے کہا کہ پولیس سے ہم پوچھیں گے ابھی تک کیوں وارنٹ پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ میں اس لیے آیا کیونکہ ایس ایچ او میرا لاہور میں ہے، ابھی تمام بزور بازو ملزم عمران خان سے نہیں ملنے دیا گیا اور جتنی مرتبہ بھی وارنٹ ہوتے ہیں ہم قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہیں، ہمارے ایس پی پچھلی بار گئے انہوں نے شیورٹی دی گئی تھی۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں ان 65 پولیس والوں کی طرف سے حاضر ہوا ہوں جو اس وقت اسپتالوں میں داخل ہیں، میں ان جوانوں کی ماؤں کو کیا جواب دوں! ڈی آئی جی رینک کے آفیسر اسپتالوں میں داخل ہیں۔ کسی پولیس والے کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، ڈی آئی جی آپریشن جو سب سے آگے تھے ان کی تصویر دیکھیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بھی آن ریکارڈ ہے کہ وہ کہیں اور مقدمات میں بھی مطلوب تھے، ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد کی ٹانگ پر فریکچر ہے اور کچھ اہلکاروں کے بازو بھی ٹوٹے ہیں۔ جو رعایت عدالت اس ملزم کو دینا چاہتی ہے وہ 22 کروڑ کو بھی دے اور عدالت ناقابل ضمانت وارنٹ کے قانون پر پھر نظر ثانی کر لے۔

عمران خان کے وکلا نے بولا کہ سیاسی گفتگو آئی جی نا کرے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ 65 میرے اہلکار بھی ہیرو ہیں اور میں عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کرے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ املاک کو کتنا نقصان ہوا ہے؟ آئی جی نے بتایا کہ 10 گاڑیاں جلائی گئیں ہیں اور ایک واٹر کینین جلائی گئی ہے، اس کے علاؤہ لاہور پولیس جائزہ لے رہی ہے۔

لاہور میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات سے متعلق آئی جی نے عدالت کو آگاہ کیا۔

الیکشن کمیشن کی وکیل نے کہا کہ جب سے وارنٹ جاری ہوا ہے اب تیسری دفعہ ان کی درخواست آئی ہے، اس عدالت کے آرڈر کے قانون میں کچھ غیر قانونی نہیں اور تیسری درخواست ہے جو میری غیر موجودگی میں دائر کی گئی۔ انہوں نے آج درخواست دائر کی اور چاہتے ہیں آج ہی اس پر عمل ہو، 13 مارچ کو عمران خان نے لاہور میں ریلی کی ہے اور جب تک ملزم سرنڈر نہیں کرتا عدالت اس کی درخواست کو تو دیکھ ہی نہیں سکتی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انہوں نے کہا ہم ڈیکلریشن دیتے ہیں یہ پہلے بھی ڈیکلریشن دیتے رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ڈیکلریشن پر دستخط نہیں ہوتے تھے آج دستخط ہیں۔ ایک سینیٹر نے وارنٹ آف اریسٹ پر کچھ اور کہا تھا، جس پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ میں نے کہا تھا وہ موجود نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن کی وکیل نے کہا کہ اس عدالت کے آرڈر پر عمل درآمد کروانے کے لیے ڈی آئی جی آپریشن گئے تھے اور ریاست کی رٹ پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ یہاں سب برابر ہیں کوئی بڑا چھوٹا نہیں، جس پر پی ٹی آئی وکلا نے کہا کہ آئی جی صاحب کسی کی زبان بول رہے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ اب غیر معمولی ریلیف مانگ رہے ہیں اور کہاں لکھا ہوا ہے کہ بغیر عمل درآمد وارنٹ منسوخ ہو جائیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے وارنٹ منسوخی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کر دی۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ آئی جی اور الیکشن دو ادارے ہیں جبکہ وارنٹ کے نام پر پورا پاکستان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ جج نے ریمارکس دیے کہ یہی تو جواب چاہیے کہ کیوں سر پر اٹھایا ہوا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہاں عدالتوں میں ٹاوٹ بھی بیٹھے ہوتے ہیں جو اس طرح انڈر ٹیکنگ دے دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکلا نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل پر شور شرابہ کیا۔ وکلا نے کہا کہ یہ معافی مانگے کیونکہ یہ وکلا اور خصوصاً خواجہ حارث کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ان کے کنڈکٹ کو نوٹس کرے کیونکہ ان کی بات بہت ہی شرمندگی والی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خواجہ صاحب کا احترام کرتا ہوں اور گزشتہ ہفتے پہلی ہی دفعہ ملاقات ہوئی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی وکلا کے بولنے پر ردعمل دیا کہ یہ شور مچانے رہتے ہیں ایک دفعہ بات سن لیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایسے کمنٹس پر کبھی جواب نہیں دیا کرتا، عمران خان کی جانب سے اس سے قبل کبھی بھی انڈر ٹیکنگ نہیں دی گئی پہلی دفعہ عمران خان نے انڈر ٹیکنگ دی ہے، پولیس یا ورکرز کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ان کا تدارک لاہور میں ہی ہونا ہے۔ اس معاملے کا اس درخواست اور کیس کے ساتھ ڈائریکٹ تعلق نہیں، آپ کے پاس جو معاملہ آیا ہے وہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھیجا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ پیشی ہو جائے تو روزانہ وارنٹ منسوخ ہوتے ہیں، جس پر جج نے استفسار کیا کہ جی پیشی ہو تو پھر تو روزانہ منسوخ ہوتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے یہ نہیں لکھا کہ عمران خان عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، ہائیکورٹ نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ کو ٹرائل کورٹ نے دیکھنا ہے اور اگر آج تاریخ ہوتی تو آج عمران خان یہاں موجود ہوتے۔ عمران خان 18 مارچ کو پیش ہوں گے تب تک عدالت انڈر ٹیکنگ کی بنیاد پر درخواست منظور کرے، صرف عدالت یہ حکم دے دے کہ 18 مارچ تک عمران خان کو گرفتار نا کیا جائے اور ہم نے بھی مان لیا جو ہوا وہ غلط ہوا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ جتنے تفصیل سے دلائل ہوئے اتنے ہی تفصیل سے میں نے آرڈر لکھوانا ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث وارنٹ منسوخی کی درخواست دائر نہیں ہو سکی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ میں عمران خان کے وکلاء کو درخواست دائر کرنے کا حکم دیا تھا اور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ہی بیان حلفی کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 13 مارچ کو عمران خان کی عدم پیشی پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو بحال کیا تھا جبکہ مقامی عدالت نے عمران خان کو 18 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
Load Next Story