افغانستان کا بحران
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ برادرنہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے
افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ دوحا میں مذاکرات کیے اور پھر معاہدہ طے پایا، جس کے تحت امریکی فوجوں کا پرامن انخلا مکمل ہوا اور طالبان کو افغانستان کا اقتدار ملا۔
دوحہ معائدے میں طالبان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے گروپوں اور افراد کے خلاف کارروائی کی جائے، افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آئی ہے۔
ایک خبر میں وائس آف امریکا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں سرگرم موجودگی تشویش کا باعث ہے، ٹی ٹی پی نے حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔
گزشتہ ہفتے روس، چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے سینئر سفارت کاروں نے افغانستان کی صورتحال پر غور کے لیے تاشقند میں ملاقات کی ہے۔ تاشقند اجلاس میں ان ممالک کے سفارتکاروں نے افغان حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مزید موثر اقدامات کریں۔
طالبان عالمی پابندیوں میں اپنے چھ ہمسایہ ملکوں کے لیے غیر محفوظ سرحدوں کے ساتھ ملک چلا رہے ہیں، ان کی کوئی منظم فوج نہیں ہے اور وہ امریکا اور علاقائی ممالک کی انسداد دہشت گردی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔
دولت اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی)' اور دیگر مسلح جنگجو گروپوں کی جانب سے جاری خطرات کو غیر معمولی قرار دینے کے باوجود طالبان افغانستان کے اندر بھی دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔
ٹی پی ٹی کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور اس کے پاکستان میں خودکش حملے سب کے سامنے ہیں، افغانستان آج بھی ان کا بیس کیمپ ہے۔
یہ مسئلہ اب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے، ان گروہوں نے افغانستان میں جو محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں،اس کے بارے میں بھی حقائق بتدریج سامنے آرہے ہیں۔
افغان طالبان ان گروپس کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اس حوالے سے کئی آراء موجود ہیں۔ ایک رائے کے مطابق افغان طالبان کے عبوری سیٹ اپ میں اس حوالے سے کوئی متفقہ سوچ نہیں ہے۔ طالبان کا تنظمی ڈھانچہ کمزور اور غیرمنظم ہے۔
عبوری سیٹ اپ میں طاقتور عہدے رکھنے والے طالبان لیڈرز اپنی اپنی سوچ و فکر اور اپنے اپنے دھڑے کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کررہے ہیں۔جس کی وجہ عبوری حکومت کی گورننس اور دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی میں یکسانیت نہیں ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ برادرنہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن افغانستان کے حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں اپنے عوام کو ہمیشہ گمراہ کیا ہے۔
افغانستان پر خواہ دائیں بازو کے ماڈریٹ حکمران کا اقتدار ہو، سوشلسٹوں کی حکومت ہو، افغان مجاہدین کا دور اقتدار ہو یا پھر طالبان کی حکومت، سب نے پاکستان میں نسلی، مذہبی، لسانی اور کلچرل تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
پاکستان کی فوج اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے حالیہ بنوں آپریشن کے بعد وزیرستان کا دورہ کیا، انھوں نے ایس ایس جی ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر واضح کیا کہ اب لڑائی کو دہشت گردوں کے گڑھ تک لے جایا جائے گا۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ قبائلی اضلاع ، سوات ، بنوں اور دوسرے علاقے دہشت گردی کی سرگرمیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں سرگرم تشدد پسند گروہوں کی سرگرمیوں سے اغماض برتا۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کی تو افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔
پاکستان کے لیے یہ آسان تھا کہ اس پیشکش سے معذرت کر کے عسکریت پسندوں کو کچل دے لیکن افغان طالبان کو خطے کی ترقی میں شامل رکھنے کی خاطر ان کی بات کا احترام کیا اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے۔
ٹی ٹی پی نے شروع میں فائر بندی معاہدے کا احترام کیا ، سابق حکومت نے کئی عسکریت پسند رہا کیے۔ لیکن اس کا نتیجہ مثبت نہیں نکلا، یہی نہیں افغانستان میں پاکستان کے سفارتی اہلکاروں پر قاتلانہ حملہ ہو۔
پاکستان میں ٹی ٹی پی نے زیادہ تر پر تشدد کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اس گروپ کے رہنما اور کمانڈر، جو افغان طالبان کی ہی ایک شاخ اور اتحادی ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ''اگر ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی ذمے داری قبول کر رہی ہے تو یہ افغان حکومت کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔''
یقیناً افغانستان کی عبوری حکومت کہیں نہ کہیں غلطیاں کر رہی ہے 'ممکن ہے کہ افغان طالبان کے اندر گروہ بندی ہو 'کچھ طاقتور طالبان لیڈر داعش اور القاعدہ کی فکر اور فلسفے سے متاثر ہو گئے ہوں اور وہ انتہا پسند اور سخت گیر پالیسیاں جاری رکھنے پر بضد ہوں'ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کے عبوری سیٹ اپ میں شامل موڈریٹ گروپ کمزور ہے 'یہ گروپ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر چلتانظر آتا ہے لیکن اس صورت حال سے افغانستان میں امن قائم ہوتا نظر نہیں آ رہا اور نہ ہی عالمی برادری کی توقعات پوری ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
افغان طالبان اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید عالمی سطح پر بھی یہ تاثر جاتا کہ افغان طالبان کا عبوری سیٹ اپ خاصا مضبوط اور فعال ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں تاحال ناکام چلے آ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان بھی ڈسٹرب ہو رہا ہے۔
امن اور خوشحالی افغانستان کا حق ہے، سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔
جب بین الاقوامی امداد بند کر دی گئی اور عالمی برادری نے افغانستان سے توجہ بھی ہٹا لی تو یہاں کی معیشت تباہ ہو گئی اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دہشت گرد تنظیمیں یہاں طاقت پکڑنے لگیں،اگر افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جاتا تو آج پورا خطہ امن سے رہ رہا ہوتا اور خوشحال ہوتا۔پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے، بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت اپنے بل بوتے پر افغانستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔طالبان جب گوریلا جنگ لڑ رہے تو معاملات کچھ اور اب وہ حکومت چلا رہے تو انھیں ایک قاعدے اور ڈسپلن میں رہنا ہے۔ملک کی معیشت کو چلانا ہے، عوام کو سہولت دینی ہے، انفراسٹرکچر تعمیر کرنا ہے اور دہشت گردوں سے لڑنا ہے، یہ سب کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے۔
تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہے اور عالمی مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو لازمی طور پر پاکستان بھی اس سے متاثر ہو گا۔ افغانستان خطے میں باہمی تعاون کی مثال بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر، امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں نہ صرف انسانی بحران کو ٹال سکتی ہیں، بلکہ افغانوں کو امن سے رہنے میں مدد دے سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
بہر حال یہ بھی آفاقی حقیقت ہے کہ اپنی حالت بدلنے کے لیے خود کوشش کرنی پڑتی ہے' ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی دوسرا ملک تو مدد کرے لیکن جو مدد لینے والا ملک ہے 'وہ پھر بھی کچھ نہ کرے تو ایسے ملک کبھی پر امن رہتے ہیں اور نہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
افغانستان کی پسماندگی اور غربت چند برسوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے پہلے بھی افغانستان دنیا میں پسماندہ ترین اور غریب ترین ملکوں کی فہرست میں شامل تھا۔ سوائے کابل شہر کے کوئی دوسرا شہر ترقی یافتہ نہیں تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
افغانستان کے حکمرانوں نے کبھی اپنے عوام کی ترقی کے لیے کام نہیں کیا ،وہ کبھی ایران کے سہارے حکومت قائم رکھتے رہے 'کبھی روس کی مدد حاصل کر کے اقتدار میں آئے 'کبھی انگریز وں سے معاملات طے کیے اورکبھی امریکا کا سہارا لیا' اس لیے افغانستان کے عبوری سیٹ اپ کو سہاروں کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔
وہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں 'افغان حکومت اپنی توجہ کا مرکز افغانستان کے عوام کو بنائے'ان کے مفادات کے لیے پالیسیاں بنائے'طالبان کی حکومت اپنے ملک کے عوام کے سامنے جواب دہ ہو تو سہارے اس کے پاس خود بخود چلے آئیں گے۔
دوحہ معائدے میں طالبان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں کسی بھی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے گروپوں اور افراد کے خلاف کارروائی کی جائے، افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استمال نہیں ہونے دی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آئی ہے۔
ایک خبر میں وائس آف امریکا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں سرگرم موجودگی تشویش کا باعث ہے، ٹی ٹی پی نے حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں کئی دہشت گرد حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔
گزشتہ ہفتے روس، چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے سینئر سفارت کاروں نے افغانستان کی صورتحال پر غور کے لیے تاشقند میں ملاقات کی ہے۔ تاشقند اجلاس میں ان ممالک کے سفارتکاروں نے افغان حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مزید موثر اقدامات کریں۔
طالبان عالمی پابندیوں میں اپنے چھ ہمسایہ ملکوں کے لیے غیر محفوظ سرحدوں کے ساتھ ملک چلا رہے ہیں، ان کی کوئی منظم فوج نہیں ہے اور وہ امریکا اور علاقائی ممالک کی انسداد دہشت گردی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔
دولت اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی)' اور دیگر مسلح جنگجو گروپوں کی جانب سے جاری خطرات کو غیر معمولی قرار دینے کے باوجود طالبان افغانستان کے اندر بھی دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔
ٹی پی ٹی کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور اس کے پاکستان میں خودکش حملے سب کے سامنے ہیں، افغانستان آج بھی ان کا بیس کیمپ ہے۔
یہ مسئلہ اب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے، ان گروہوں نے افغانستان میں جو محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں،اس کے بارے میں بھی حقائق بتدریج سامنے آرہے ہیں۔
افغان طالبان ان گروپس کے خلاف کارروائی کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اس حوالے سے کئی آراء موجود ہیں۔ ایک رائے کے مطابق افغان طالبان کے عبوری سیٹ اپ میں اس حوالے سے کوئی متفقہ سوچ نہیں ہے۔ طالبان کا تنظمی ڈھانچہ کمزور اور غیرمنظم ہے۔
عبوری سیٹ اپ میں طاقتور عہدے رکھنے والے طالبان لیڈرز اپنی اپنی سوچ و فکر اور اپنے اپنے دھڑے کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کررہے ہیں۔جس کی وجہ عبوری حکومت کی گورننس اور دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی میں یکسانیت نہیں ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ برادرنہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن افغانستان کے حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں اپنے عوام کو ہمیشہ گمراہ کیا ہے۔
افغانستان پر خواہ دائیں بازو کے ماڈریٹ حکمران کا اقتدار ہو، سوشلسٹوں کی حکومت ہو، افغان مجاہدین کا دور اقتدار ہو یا پھر طالبان کی حکومت، سب نے پاکستان میں نسلی، مذہبی، لسانی اور کلچرل تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
پاکستان کی فوج اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے حالیہ بنوں آپریشن کے بعد وزیرستان کا دورہ کیا، انھوں نے ایس ایس جی ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر واضح کیا کہ اب لڑائی کو دہشت گردوں کے گڑھ تک لے جایا جائے گا۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ قبائلی اضلاع ، سوات ، بنوں اور دوسرے علاقے دہشت گردی کی سرگرمیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں سرگرم تشدد پسند گروہوں کی سرگرمیوں سے اغماض برتا۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کی تو افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔
پاکستان کے لیے یہ آسان تھا کہ اس پیشکش سے معذرت کر کے عسکریت پسندوں کو کچل دے لیکن افغان طالبان کو خطے کی ترقی میں شامل رکھنے کی خاطر ان کی بات کا احترام کیا اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے۔
ٹی ٹی پی نے شروع میں فائر بندی معاہدے کا احترام کیا ، سابق حکومت نے کئی عسکریت پسند رہا کیے۔ لیکن اس کا نتیجہ مثبت نہیں نکلا، یہی نہیں افغانستان میں پاکستان کے سفارتی اہلکاروں پر قاتلانہ حملہ ہو۔
پاکستان میں ٹی ٹی پی نے زیادہ تر پر تشدد کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اس گروپ کے رہنما اور کمانڈر، جو افغان طالبان کی ہی ایک شاخ اور اتحادی ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ''اگر ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی ذمے داری قبول کر رہی ہے تو یہ افغان حکومت کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔''
یقیناً افغانستان کی عبوری حکومت کہیں نہ کہیں غلطیاں کر رہی ہے 'ممکن ہے کہ افغان طالبان کے اندر گروہ بندی ہو 'کچھ طاقتور طالبان لیڈر داعش اور القاعدہ کی فکر اور فلسفے سے متاثر ہو گئے ہوں اور وہ انتہا پسند اور سخت گیر پالیسیاں جاری رکھنے پر بضد ہوں'ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کے عبوری سیٹ اپ میں شامل موڈریٹ گروپ کمزور ہے 'یہ گروپ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر چلتانظر آتا ہے لیکن اس صورت حال سے افغانستان میں امن قائم ہوتا نظر نہیں آ رہا اور نہ ہی عالمی برادری کی توقعات پوری ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
افغان طالبان اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید عالمی سطح پر بھی یہ تاثر جاتا کہ افغان طالبان کا عبوری سیٹ اپ خاصا مضبوط اور فعال ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں تاحال ناکام چلے آ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان بھی ڈسٹرب ہو رہا ہے۔
امن اور خوشحالی افغانستان کا حق ہے، سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔
جب بین الاقوامی امداد بند کر دی گئی اور عالمی برادری نے افغانستان سے توجہ بھی ہٹا لی تو یہاں کی معیشت تباہ ہو گئی اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دہشت گرد تنظیمیں یہاں طاقت پکڑنے لگیں،اگر افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جاتا تو آج پورا خطہ امن سے رہ رہا ہوتا اور خوشحال ہوتا۔پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے، بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت اپنے بل بوتے پر افغانستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔طالبان جب گوریلا جنگ لڑ رہے تو معاملات کچھ اور اب وہ حکومت چلا رہے تو انھیں ایک قاعدے اور ڈسپلن میں رہنا ہے۔ملک کی معیشت کو چلانا ہے، عوام کو سہولت دینی ہے، انفراسٹرکچر تعمیر کرنا ہے اور دہشت گردوں سے لڑنا ہے، یہ سب کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے۔
تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہے اور عالمی مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو لازمی طور پر پاکستان بھی اس سے متاثر ہو گا۔ افغانستان خطے میں باہمی تعاون کی مثال بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر، امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں نہ صرف انسانی بحران کو ٹال سکتی ہیں، بلکہ افغانوں کو امن سے رہنے میں مدد دے سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
بہر حال یہ بھی آفاقی حقیقت ہے کہ اپنی حالت بدلنے کے لیے خود کوشش کرنی پڑتی ہے' ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی دوسرا ملک تو مدد کرے لیکن جو مدد لینے والا ملک ہے 'وہ پھر بھی کچھ نہ کرے تو ایسے ملک کبھی پر امن رہتے ہیں اور نہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
افغانستان کی پسماندگی اور غربت چند برسوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے پہلے بھی افغانستان دنیا میں پسماندہ ترین اور غریب ترین ملکوں کی فہرست میں شامل تھا۔ سوائے کابل شہر کے کوئی دوسرا شہر ترقی یافتہ نہیں تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
افغانستان کے حکمرانوں نے کبھی اپنے عوام کی ترقی کے لیے کام نہیں کیا ،وہ کبھی ایران کے سہارے حکومت قائم رکھتے رہے 'کبھی روس کی مدد حاصل کر کے اقتدار میں آئے 'کبھی انگریز وں سے معاملات طے کیے اورکبھی امریکا کا سہارا لیا' اس لیے افغانستان کے عبوری سیٹ اپ کو سہاروں کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔
وہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں 'افغان حکومت اپنی توجہ کا مرکز افغانستان کے عوام کو بنائے'ان کے مفادات کے لیے پالیسیاں بنائے'طالبان کی حکومت اپنے ملک کے عوام کے سامنے جواب دہ ہو تو سہارے اس کے پاس خود بخود چلے آئیں گے۔