عمران خان کی ممکنہ گرفتاری
ادھر عمران خان کی گرفتاری کے لیے جو پولیس کارروائی کی جا رہی ہے
قومی سیاست کو دیکھیں تو میڈیا میں اس وقت قومی مسئلہ عمران خان کی گرفتاری بنا ہوا ہے۔ ٹی وی اسکرینز پر زمان پارک میں پولیس اور پی ٹی آئی ورکرز کے درمیان محاذ آرائی کے مناظر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
حکومت عمران خان کو گرفتار کرکے سیاسی محاذ پر سرخرو ہونا چاہتی ہے جب کہ عمران خان چاہے کچھ بھی ہوجائے ، گرفتاری دینے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے دو صوبوں پنجاب اورخیبرپختونخوا میں انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا ہے اورانتخابی مہم بھی شروع ہوچکی ہے، عمران خان کی گرفتاری پوری انتخابی مہم کو متاثر کرسکتی ہے ۔
اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول عمران خان کے وارنٹ گرفتاری انھوں نے نہیں بلکہ عدالت نے جاری کیے ہیں او ران کی گرفتاری سے ان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، لیکن وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور مریم نواز عمران خان کی گرفتاری کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں۔
اسی طرح عمران خان اور ان کے ساتھی مریم نواز اور رانا ثناء اللہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں، آصف زرداری بھی ان کے نشانے پر ہوتے ہیں ۔ ادھر عمران خان کی گرفتاری کے لیے جو پولیس کارروائی کی جا رہی ہے ، اس کی ذمے داری نہ تو وفاقی حکومت او رنہ ہی پنجاب کی نگران حکومت لینے کے تیار ہے ۔
اس لیے یہ کارروائی پوری قوت سے ہی ہورہی ہے ، پی ٹی آئی والے یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ یہ کارروائی کس کے حکم پر ہورہی ہے او رکون اس کی قیادت کررہا ہے، یہ بھی معمہ بنا ہوا ہے ۔عمران خان پر اس وقت درجنوں مقدمات بن چکے ہیں جن میں قتل, دہشت گردی , توہین عدالت, ریاستی امور میں مداخلت, وغیرہ شامل ہیں ۔
توشہ خانہ او رممنوعہ فنڈنگ کے مقدمات بھی ہیں ۔ عمران خان اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ عمران کو سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا سامنا ہے۔ہماری سیاسی تاریخ بھی ایسی ہی ہے ، کوئی پارٹی جب اقتدار میں آجاتی ہے تو سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے '' قانون کو بطور ہتھیار '' استعمال کرکے مخالفین پر مقدمات درج کراتی ہے۔
پیپلزپارٹی , مسلم لیگ ن ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف یہی کچھ کرتی رہی ہیں، جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو عمران خان بھی روز اپنے سیاسی مخالفین کو گرفتار کرنے ، جیل بھیجنے اور انھیں عبرت کی مثال بنانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
پی ٹی آئی کے وزرا پہلے ہی بتادیتے تھے کہ فلان کل گرفتار ہوجائے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا، نیب آئے روز سیاسی گرفتاریاں کرتی تھی ۔ اب عمران خان اسی روایت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ان کی جماعت کے کئی رہنما بھی اسی کھیل کا شکار ہوچکے ہیں ۔
عمران خان نے 18مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ پولیس ان کو اس ڈیٹ سے پہلے گرفتار کرنا چاہتی ہے ۔
عمران خان نے اپنے وکلا کی مدد سے Criminal Code Procedure Section 76 کے تحت Undertakingبھی فراہم کردی ہے کہ وہ ہر صورت مقررہ تاریخ کو عدالت میں پیش ہوںگے ،مگر پولیس اس سے انکاری بھی ہے اور اس کو وصول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔
عدالتیں بھی عمران خان کو کافی ریلیف دیتی رہی ہیں کہ وہ عدالتوں کے سامنے پیش ہوں مگر پی ٹی آئی اور خود عمران خان کی حکمت عملی پر بھی تنقید ہونی چاہیے کہ وہ عدالتی ریلیف سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عدالتوں میں پیشی سے گریز کرتی رہی ہیں ۔
عمران خان اپنی سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر عدالتوں میں براہ راست پیشی سے گریزاں ہیں اور وہ ریلیف چاہتے ہیں کہ ان کو پیشی سے استثنا حاصل ہو،لیکن اگر عدالتیں ان کو یہ ریلیف نہیں دے رہیں تو ان کو ہر صورت میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے ۔
لیکن مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے ۔ حکمران جماعتیں عمران خان کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے اردگرد مکمل طور پر گھیرا تنگ کیاجارہا ہے ۔
اس کے لیے حکومت کا بڑا ہتھیار '' انتظامی اور قانونی '' طاقت ہے۔ ایک طرف لاہور میں دفعہ144 نافذ کر کے کہ عمران خان کوریلی کی اجازت نہیں دی جاتی مگر دوسری طرف اسی دن پی ایس ایل, عورت مارچ او رمسلم لیگ ن کا پارٹی کنونشن ہوتا ہے ، حکومت کی پہلی کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ممکن نہ بنایا جاسکے ۔
الیکشن کے انعقاد اور فول پروف سیکیورٹی کے حوالے سے وفاقی حکومت ، صوبائی نگران حکومتیں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر ، مالی بحران اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو وسائل ، سرکاری عملہ اور سیکیورٹی فراہم کرنے سے انکاری ہیں ۔
ادھر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے ،اگر انتخابات نہیں ہوتے یا الیکشن کمیشن کو وسائل اور سیکیورٹی فراہم نہیں کی جاتی تو توہین عدالت ہوگی ۔انتخابی مہم کے دوران اور پولنگ کے دوران دہشت گردی کی واردات کے خطرات کو بھی یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، الیکشن پر اربوں روپے کے اخراجات بھی ہونے ہیں، ملک کا مالی بحران بھی سب کے سامنے ہے ۔
یوں انتہائی پیچیدہ صورتحال بن چکی ہے ۔ بہرحال اگر انتخابات کی کڑوی گولی کھانی ہے تو پھر حکومتی حکمت عملی یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے عمران خان کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی جائے ۔
ان کو گرفتار کرنا , مختلف مقدمات میں پھنسانا یا تفتیش کے نام پر پریشان کرنا ,دور دراز جیل میں رکھنا او رپارٹی کے دیگر لوگوں سے ان کے رابطوں کو ختم کرنا حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔مریم نواز کھل کر جس لیول پلینگ فیلڈ کی بات کررہی ہیں، اس سے ان کی مراد عمران خان کوانتخابی عمل سے دور رکھنا ہے ۔
عمران خان سیاسی بیانیہ بنانے کا فن رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا اورپھر عالمی میڈیا پر عمران خان کے سیاسی انٹرویوز نے ان کی گرفتاری کو ایک بڑی عالمی خبر اور حکومتی انتقامی کارروائی سے جوڑ دیا ہے ۔
عمران خان کی گرفتاری , نااہلی یا ان کو سیاسی عمل سے بے دخل کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گی۔اسی طرح انتخابات سے گریز یا اس سے فرار کا راستہ بھی حکومت کو کچھ نہیں دے گا ۔
عمران خان کی گرفتاری سے کوئی مفاہمتی سیاست تو پیدا نہیں ہوگی بلکہ ہم ایک اور بڑے ٹکراؤ یا محاذ آرائی کا شکار ہوںگے۔پاکستان کے حالات جس تیزی سے بگاڑ کا شکار ہیں، اس میں اس طرح کی گرفتاریاں اور سیاسی جکڑ بندیاں مزید انتشار کو جنم دینے کا سبب بنے گی۔