ساحر لدھیانوی دوسرا اور آخری حصہ
سردار بیگم نے اپنے زیور بیچ کر ایک گارڈ رکھا جو ساحر کو اسکول لے جاتا اور واپس لاتا تھا
ساحر 1943 میں لدھیانہ سے لاہور شفٹ ہوگئے تھے اور وہاں کئی اردو اخبارات سے وابستہ ہوگئے تھے۔ 1949 میں جب انھوں نے سویرا اخبار میں جس کے ایڈیٹر حمید اختر تھے حکومت پاکستان کے خلاف ایک آرٹیکل لکھا جس کی پاداش میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے تھے۔ حمید اختر نے ساحر کو یہاں سے نکل جانے کا مشورہ دیا۔
ساحر دلی آگئے لیکن وہاں صرف ایک ماہ رہے اور پھر بمبئی (ممبئی) منتقل ہوگئے جہاں ان کے پڑوسی تھے گلزار، جنھوں نے ساحر کی بہت مدد کی۔
ساحر کی ذاتی زندگی کے پنوں کو اگر کھولا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں ان کی زندگی بہت مشکلات میں گزری، انھیں اپنے باپ سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ انھیں اغوا نہ کروا لیں۔
سردار بیگم نے اپنے زیور بیچ کر ایک گارڈ رکھا جو ساحر کو اسکول لے جاتا اور واپس لاتا تھا ، بمبئی آنے کے بعد ساحر کے گیت بہت تیزی سے فلموں میں گونجنے لگے ، قدرت نے ان کا ہاتھ پکڑا۔ ساحر کے لیے ان کے والد محض ایک ظالم و جابر زمیندار تھے۔
جنھوں نے سردار بیگم کو چھوڑنے کے بعد فوراً ہی دوسری شادی کر لی تھی اور ماں بیٹے کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔
ساحر کی زندگی میں کئی Complex تھے، انھیں بچپن میں چیچک نکل آئی تھی جو اپنے نشان ان کے چہرے پہ چھوڑ گئی، قد کاٹھ اچھا تھا ، کئی حسینائیں ان سے شادی کی خواہاں تھیں لیکن انھوں نے کسی سے بھی شادی نہ کی، بس کچھ وقت ساتھ رہے اور پھر راستے بدل گئے۔
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو چھوڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ساحر کی زندگی میں چار خواتین آئیں اور انھوں نے ساحر سے ٹوٹ کر محبت کی لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ساحر گھر نہ بسا سکے، جلد ہی راستے بدل جاتے تھے۔ دراصل ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچوں میں ایک نہیں بلکہ کئی Complex ہوتے ہیں۔
ساحر نے ہوش سنبھالتے ہی ماں باپ کو لڑتے دیکھا، شاید یہی وجہ تھی کہ ان کو شادی کے ادارے پر بھروسہ نہیں تھا یا پھر شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ گھر گرہستی کے چکر میں پڑ کر کہیں وہ اپنی شاعری پہ توجہ نہ دے سکیں لیکن میرا یہی خیال ہے کہ بچپن کی محرومیوں اور والدین کی لڑائیوں نے شروع ہی سے ساحر کو شادی شدہ زندگی سے متنفر کردیا تھا۔
میں ایک ایسی فیملی کو جانتی ہوں جو دو بھائی نہایت اعلیٰ پڑھے لکھے اور ایک بہن پر مشتمل ہے، تینوں نے شادی نہیں کی کہ تینوں بہن بھائی بچپن میں ماں باپ کے روز روز کے جھگڑوں سے اس درجہ بدظن ہوئے کہ باوجود اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے کے کسی نے شادی نہ کی، وہ تینوں شادی کو بربادی کہتے ہیں۔
ساحر کا سب سے پہلا طوفانی عشق پنجابی شاعرہ امرتا پریتم سے ہوا۔ امرتا پاگل پن کی حد تک ساحر کو چاہتی تھی۔ اس کی پہلی ملاقات ساحر سے لاہور کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی اور وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔ امرتا اس وقت شادی شدہ تھی، لیکن بعد میں 1944 میں امرتا نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا تھا۔
ساحر بھی امرتا کو بہت چاہتے تھے لیکن اتنی قربت کے باوجود بات شادی تک نہ پہنچی۔ پھر ایک دن امرتا نے اخبار میں خبر پڑھی کہ '' ساحر کو اس کی محبت مل گئی۔'' اور وہاں نام لکھا تھا سدھا ملہوترا کا، جو گلوکارہ اور موسیقارہ دونوں تھیں۔ فلم ''دیدی'' کا گیت جس کا حوالہ دے چکی ہوں اس کو کمپوز بھی سدھا ملہوترا نے کیا تھا اور مکیش کے ساتھ گایا بھی تھا، یہ سلسلہ بھی کچھ عرصہ بڑے زبردست طریقے سے چلا اور پھر انجام وہی ہوا یعنی راستے الگ ہوگئے۔
پھر ساحر کی منگنی ہوئی افسانہ نگار ہاجرہ مسرور سے، جس کا ذکر حمید اختر نے ایکسپریس میں اپنے کالموں میں بھی کیا تھا اور ہم جب لاہور میں ان سے ملے تو انھوں نے خود بھی بتایا، لیکن وہ منگنی بھی ٹوٹ گئی۔
حمید اختر ، ساحر کے بچپن کے دوست تھے اور ساحر سے بڑی محبت کرتے تھے، لیکن وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ منگنی کیوں ٹوٹی اور ساحر شادی کیوں نہیں کرتا۔ شاید ساحر کی شاعری میں اس کی زندگی چھپی ہے۔
جیون کے سفر میں راہی
ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں
تنہائی میں تڑپانے کو
٭٭
ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
ایک بار موسیقار خیام سے ساحر نے فلم '' پیاسا'' کے بارے میں کہا کہ ''خیام صاحب! مان لیجیے کہ '' پیاسا '' کی کہانی میری کہانی ہے۔ '' پیاسا '' گرودت نے بنائی تھی، اس کا ہیرو بھی ایک شاعر ہے۔
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا
٭٭
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم ، ہم رہے نہ ہم
پھر ساحر کی زندگی میں آئیں لتا منگیشکر۔ کافی لمبے عرصے تک ان کا پیار چلا، لتا منگیشکر شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن جو انجام پچھلی تین محبتوں کا ہوا تھا ، وہی اب بھی ہوا۔ عجیب بات ہے کہ لتا منگیشکر بڑی گائیکہ تھیں، لیکن وہ مسلمانوں سے کد رکھتی تھیں، لیکن دلیپ کمار کو راکھی باندھ کر بھائی بنایا، استاد فتح علی خاں کو دل دے بیٹھیں اور شادی تک بات پہنچ گئی، لیکن انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے استاد فتح علی خاں کو جان سے مارنے پر یہ شادی بھی نہ ہو سکی۔ لتا فلمی انڈسٹری میں ایک بے پناہ اثر ورسوخ رکھتی تھیں۔
کتنی ہی گلوکاراؤں کا مستقبل انھوں نے تاریک کیا ، سارے فلم ساز اور موسیقار لتا منگیشکر کا حکم مانتے تھے۔
لتا نے رونا لیلیٰ کو گانے نہیں دیا، انو رادھا پوڈوال کے خلاف لتا اور آشا نے کمر کس لی اور موسیقاروں سے کہہ کر ان کو نقصان پہنچایا، سمن کلیان پور جس کی آواز لتا جیسی تھی ، اسے بھی فلموں سے نکلوایا ، کوئی گلوکارہ لتا کے اور اس کی بہن آشا کے گٹھ جوڑ کے آگے ٹھہر نہ سکی تھی۔
بھارت میں کانگریس ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ سے جیتتی ہے ، الیکشن سے پہلے کانگریس نے مسلمانوں کے ووٹوں کے لیے ''جشن غالب'' منایا، ساحر کسی سے ڈرتے نہ تھے، انھیں اس منافقت پہ شدید غصہ آیا اور انھوں نے یہ نظم لکھی:
اکیس برس گزرے آزادیٔ کامل کو
تب جا کے کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا
تربت تھی کہاں اس کی مسکن تھا کہاں اس کا
اب اپنے سخن پرور ذہنوں میں خیال آیا
سو سال جو تربت چادر کو ترستی تھی
اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
ساحر کے فلمی گیتوں کے علاوہ فلم '' برسات کی رات '' کی قوالی ایک ادبی شان رکھتی ہے۔ کسی فلم میں بھی ایسی قوالی کا ثبوت نہیں ملتا جیسی ساحر نے لکھی۔ انسان کو محبت اور لافانی عشق الٰہی کا پیغام یہ قوالی سننے کی چیز ہے۔
نہ تو کاررواں کی تلاش ہے ، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے
میرے شوق خانہ خراب کو تیری رہگزر کی تلاش ہے
میرے نا مراد جنوں کا ہے علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
٭٭
اللہ اور رسولؐ کا فرمان عشق ہے
یعنی حدیث عشق ہے قرآن عشق ہے
گوتم کا اور مسیح کا ارمان عشق ہے
یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے
عشق سرمد عشق ہی منصور ہے
عشق موسیٰ' عشق کوہِ طور ہے
یہ عشق عشق ہے عشق عشق
ساحر کا کہنا ہے کہ انسان جب کسی کی موت پر روتا ہے تو وہ دراصل اپنے اکیلے رہ جانے پہ روتا ہے، ہر کوئی اپنی مصیبت پہ روتا ہے۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر ایک بات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
ملکہ نور جہاں کے مزار کو دیکھ کر ساحر کیا محسوس کرتے ہیں ذرا دیکھیے:
پہلوئے شاہ میں یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتا دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتا دیتی ہے
کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی تھیں' تزئین حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
''ظلِ سبحان'' کی اُلفت کے بھرم کی خاطر
ساحر کا شمار واقعی ایسے شعرا میں ہوتا ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام سے سخت نفرت تھی۔ ساحر کے کلام میں جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جو ملوکیت اور سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔
ساحر دلی آگئے لیکن وہاں صرف ایک ماہ رہے اور پھر بمبئی (ممبئی) منتقل ہوگئے جہاں ان کے پڑوسی تھے گلزار، جنھوں نے ساحر کی بہت مدد کی۔
ساحر کی ذاتی زندگی کے پنوں کو اگر کھولا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں ان کی زندگی بہت مشکلات میں گزری، انھیں اپنے باپ سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ انھیں اغوا نہ کروا لیں۔
سردار بیگم نے اپنے زیور بیچ کر ایک گارڈ رکھا جو ساحر کو اسکول لے جاتا اور واپس لاتا تھا ، بمبئی آنے کے بعد ساحر کے گیت بہت تیزی سے فلموں میں گونجنے لگے ، قدرت نے ان کا ہاتھ پکڑا۔ ساحر کے لیے ان کے والد محض ایک ظالم و جابر زمیندار تھے۔
جنھوں نے سردار بیگم کو چھوڑنے کے بعد فوراً ہی دوسری شادی کر لی تھی اور ماں بیٹے کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔
ساحر کی زندگی میں کئی Complex تھے، انھیں بچپن میں چیچک نکل آئی تھی جو اپنے نشان ان کے چہرے پہ چھوڑ گئی، قد کاٹھ اچھا تھا ، کئی حسینائیں ان سے شادی کی خواہاں تھیں لیکن انھوں نے کسی سے بھی شادی نہ کی، بس کچھ وقت ساتھ رہے اور پھر راستے بدل گئے۔
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو چھوڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ساحر کی زندگی میں چار خواتین آئیں اور انھوں نے ساحر سے ٹوٹ کر محبت کی لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ساحر گھر نہ بسا سکے، جلد ہی راستے بدل جاتے تھے۔ دراصل ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچوں میں ایک نہیں بلکہ کئی Complex ہوتے ہیں۔
ساحر نے ہوش سنبھالتے ہی ماں باپ کو لڑتے دیکھا، شاید یہی وجہ تھی کہ ان کو شادی کے ادارے پر بھروسہ نہیں تھا یا پھر شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ گھر گرہستی کے چکر میں پڑ کر کہیں وہ اپنی شاعری پہ توجہ نہ دے سکیں لیکن میرا یہی خیال ہے کہ بچپن کی محرومیوں اور والدین کی لڑائیوں نے شروع ہی سے ساحر کو شادی شدہ زندگی سے متنفر کردیا تھا۔
میں ایک ایسی فیملی کو جانتی ہوں جو دو بھائی نہایت اعلیٰ پڑھے لکھے اور ایک بہن پر مشتمل ہے، تینوں نے شادی نہیں کی کہ تینوں بہن بھائی بچپن میں ماں باپ کے روز روز کے جھگڑوں سے اس درجہ بدظن ہوئے کہ باوجود اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے کے کسی نے شادی نہ کی، وہ تینوں شادی کو بربادی کہتے ہیں۔
ساحر کا سب سے پہلا طوفانی عشق پنجابی شاعرہ امرتا پریتم سے ہوا۔ امرتا پاگل پن کی حد تک ساحر کو چاہتی تھی۔ اس کی پہلی ملاقات ساحر سے لاہور کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی اور وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔ امرتا اس وقت شادی شدہ تھی، لیکن بعد میں 1944 میں امرتا نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا تھا۔
ساحر بھی امرتا کو بہت چاہتے تھے لیکن اتنی قربت کے باوجود بات شادی تک نہ پہنچی۔ پھر ایک دن امرتا نے اخبار میں خبر پڑھی کہ '' ساحر کو اس کی محبت مل گئی۔'' اور وہاں نام لکھا تھا سدھا ملہوترا کا، جو گلوکارہ اور موسیقارہ دونوں تھیں۔ فلم ''دیدی'' کا گیت جس کا حوالہ دے چکی ہوں اس کو کمپوز بھی سدھا ملہوترا نے کیا تھا اور مکیش کے ساتھ گایا بھی تھا، یہ سلسلہ بھی کچھ عرصہ بڑے زبردست طریقے سے چلا اور پھر انجام وہی ہوا یعنی راستے الگ ہوگئے۔
پھر ساحر کی منگنی ہوئی افسانہ نگار ہاجرہ مسرور سے، جس کا ذکر حمید اختر نے ایکسپریس میں اپنے کالموں میں بھی کیا تھا اور ہم جب لاہور میں ان سے ملے تو انھوں نے خود بھی بتایا، لیکن وہ منگنی بھی ٹوٹ گئی۔
حمید اختر ، ساحر کے بچپن کے دوست تھے اور ساحر سے بڑی محبت کرتے تھے، لیکن وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ منگنی کیوں ٹوٹی اور ساحر شادی کیوں نہیں کرتا۔ شاید ساحر کی شاعری میں اس کی زندگی چھپی ہے۔
جیون کے سفر میں راہی
ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں
تنہائی میں تڑپانے کو
٭٭
ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
ایک بار موسیقار خیام سے ساحر نے فلم '' پیاسا'' کے بارے میں کہا کہ ''خیام صاحب! مان لیجیے کہ '' پیاسا '' کی کہانی میری کہانی ہے۔ '' پیاسا '' گرودت نے بنائی تھی، اس کا ہیرو بھی ایک شاعر ہے۔
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا
٭٭
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم ، ہم رہے نہ ہم
پھر ساحر کی زندگی میں آئیں لتا منگیشکر۔ کافی لمبے عرصے تک ان کا پیار چلا، لتا منگیشکر شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن جو انجام پچھلی تین محبتوں کا ہوا تھا ، وہی اب بھی ہوا۔ عجیب بات ہے کہ لتا منگیشکر بڑی گائیکہ تھیں، لیکن وہ مسلمانوں سے کد رکھتی تھیں، لیکن دلیپ کمار کو راکھی باندھ کر بھائی بنایا، استاد فتح علی خاں کو دل دے بیٹھیں اور شادی تک بات پہنچ گئی، لیکن انتہا پسند ہندوؤں کی طرف سے استاد فتح علی خاں کو جان سے مارنے پر یہ شادی بھی نہ ہو سکی۔ لتا فلمی انڈسٹری میں ایک بے پناہ اثر ورسوخ رکھتی تھیں۔
کتنی ہی گلوکاراؤں کا مستقبل انھوں نے تاریک کیا ، سارے فلم ساز اور موسیقار لتا منگیشکر کا حکم مانتے تھے۔
لتا نے رونا لیلیٰ کو گانے نہیں دیا، انو رادھا پوڈوال کے خلاف لتا اور آشا نے کمر کس لی اور موسیقاروں سے کہہ کر ان کو نقصان پہنچایا، سمن کلیان پور جس کی آواز لتا جیسی تھی ، اسے بھی فلموں سے نکلوایا ، کوئی گلوکارہ لتا کے اور اس کی بہن آشا کے گٹھ جوڑ کے آگے ٹھہر نہ سکی تھی۔
بھارت میں کانگریس ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ سے جیتتی ہے ، الیکشن سے پہلے کانگریس نے مسلمانوں کے ووٹوں کے لیے ''جشن غالب'' منایا، ساحر کسی سے ڈرتے نہ تھے، انھیں اس منافقت پہ شدید غصہ آیا اور انھوں نے یہ نظم لکھی:
اکیس برس گزرے آزادیٔ کامل کو
تب جا کے کہیں ہم کو غالب کا خیال آیا
تربت تھی کہاں اس کی مسکن تھا کہاں اس کا
اب اپنے سخن پرور ذہنوں میں خیال آیا
سو سال جو تربت چادر کو ترستی تھی
اب اس پہ عقیدت کے پھولوں کی نمائش ہے
اردو کے تعلق سے کچھ بھید نہیں کھلتا
یہ جشن یہ ہنگامہ خدمت ہے کہ سازش ہے
ساحر کے فلمی گیتوں کے علاوہ فلم '' برسات کی رات '' کی قوالی ایک ادبی شان رکھتی ہے۔ کسی فلم میں بھی ایسی قوالی کا ثبوت نہیں ملتا جیسی ساحر نے لکھی۔ انسان کو محبت اور لافانی عشق الٰہی کا پیغام یہ قوالی سننے کی چیز ہے۔
نہ تو کاررواں کی تلاش ہے ، نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے
میرے شوق خانہ خراب کو تیری رہگزر کی تلاش ہے
میرے نا مراد جنوں کا ہے علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
٭٭
اللہ اور رسولؐ کا فرمان عشق ہے
یعنی حدیث عشق ہے قرآن عشق ہے
گوتم کا اور مسیح کا ارمان عشق ہے
یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے
عشق سرمد عشق ہی منصور ہے
عشق موسیٰ' عشق کوہِ طور ہے
یہ عشق عشق ہے عشق عشق
ساحر کا کہنا ہے کہ انسان جب کسی کی موت پر روتا ہے تو وہ دراصل اپنے اکیلے رہ جانے پہ روتا ہے، ہر کوئی اپنی مصیبت پہ روتا ہے۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر ایک بات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
ملکہ نور جہاں کے مزار کو دیکھ کر ساحر کیا محسوس کرتے ہیں ذرا دیکھیے:
پہلوئے شاہ میں یہ دخترِ جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتا دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتا دیتی ہے
کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی تھیں' تزئین حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
''ظلِ سبحان'' کی اُلفت کے بھرم کی خاطر
ساحر کا شمار واقعی ایسے شعرا میں ہوتا ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام سے سخت نفرت تھی۔ ساحر کے کلام میں جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جو ملوکیت اور سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔