کریں تو کیا کریں
ریڈیو پاکستان کے صوت القرآن چینل، قرآنِ مجید کی تلاوت اور ترجمہ کے لیے مخصوص ہے
یوں تو ہر ادارہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن ریڈیو پاکستان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس کا کسی سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔
یہ وہ تاریخ ساز ادارہ ہے جس نے ہمارے پیارے وطن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا مبارک اور تاریخ ساز اعلان کیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ تعلیم ہو، صحت ہو، زراعت ہو، کھیل ہو، تفریح طبع ہو، معلومات ہو یا دیگر کوئی اور شعبہ ہو اِس کی خدمات کا اعتراف کیے بغیر گزارا نہیں۔
ریڈیو پاکستان کے صوت القرآن چینل، قرآنِ مجید کی تلاوت اور ترجمہ کے لیے مخصوص ہے۔ اِس حقیقت سے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا واقف ہے کہ زمانہ جنگ میں ریڈیو پاکستان نے ہماری مسلح افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔
1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران اِس ادارے نے افواجِ پاکستان اور وطنِ عزیز کے باسیوں کا جو حوصلہ بڑھایا ہے وہ اپنی جگہ ایک تاریخ ہے۔ اِس کے وطن پرستی کے نغمات آج بھی حب الوطنی اور قوم کے مورال کو بلند کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔
یہ نغمات سدا بہار ہیں۔ 1965 کی جنگ کے موقع پر اُس وقت کے صدر جنرل محمد ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے جو خطاب کیا تھا اور اُس نے جو جذبہ اور جو حوصلہ دیا تھا اُس کا ملک کی تاریخ میں کوئی جواب نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اِس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں بلکہ اِس ادارے سے وابستہ تمام کارکنان کا سر فخر سے بلند ہے اور آج بھی وہ اِس کے لیے ماضی کی طرح ہرگھڑی اور ہر آن تیار ہیں۔
وطنِ عزیز کی سرحدوں پر روز و شب افواجِ پاکستان کے سرفروشوں سے رابطہ کا موثر ذریعہ بھی ریڈیو پاکستان ہے۔ریڈیو پاکستان پاکستان کا ترجمان اور اِس کی شان ہے۔ریڈیو پاکستان آج جن حالات کو پہنچ گیا ہے اُس کاکبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ادارے کی مالی حالت خاصی خراب ہے۔
مسلسل اور کمر توڑ مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور محدود آمدنی والے طبقے کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ خصوصاً ان سرکاری ملازمین کی جن کے ادارے مالی مسائل سے دوچار ہیں، ریٹائرڈ ملازمین تو زیادہ دکھی اور پریشان رہتے ہیں۔
چادر روز بروز سُکڑتی جارہی ہے ، اگر سر ڈھانپتے ہیں تو پیر کھلے رہ جاتے ہیں اور اگر پیروں کو ڈھانپا جاتا ہے تو سر کھلا رہ جاتا ہے۔ کریں تو کیا کریں؟ مہنگائی کا سیلاب ہے کہ رُکنے کے بجائے منہ زور دھارے کی طرح دن بہ دن تیزی سے آگے کی جانب بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
ملکی اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح 40 فیصد یا اِس سے بھی زیادہ کی حد کو عبور کر چکی ہے۔ہو یہ رہا ہے کہ تنخواہ دار ملازمین کی آمدنی 40 فیصد سے بھی زیادہ بڑھنے کے بجائے 40 فیصد سے بھی کم ہوچکی ہے۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟