ہر طرف وحشت ناک خاموشی طاری ہے

اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں خوشحال اور زندگی سے بھرپور شہرکھنڈرات میں بدل گئے


Aftab Ahmed Khanzada March 17, 2023
[email protected]

عظیم موسیقار Leo Spellman نے کہا تھا '' میری پیدائش کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا میں میرے ساز کی آوازیں گونجیں۔'' انسانی تاریخ قتل و غارت سے بھری پڑی ہے اگر کہا جائے کہ اقوام عالم کی تاریخ قتل کی تاریخ ہے غلط نہیں۔ جنگ عظیم دوم شاید تاریخ انسانی کی سب سے خوفناک ، تباہ کن اور خونریز جنگ تھی۔

یہ جنگ انسانی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کی ہر سطر ایک درد ناک اور ناقابل یقین انسانی المیے کے طول و عرض کو بیان کرتی ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں خوشحال اور زندگی سے بھرپور شہرکھنڈرات میں بدل گئے ، بے شمار خاندان جلا وطن ہوئے اور لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سینما کی تاریخ میں نازیوں کے جرائم اور جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں پر بننے والی فلموں کی تعداد کم نہیں لیکن پولینڈ کے موسیقار Leo Spellman کی سوانح حیات پر مبنی المناک داستان کو The Pianist (2002) میں جس دیوانگی کے ساتھ Roman Polanski نے پردہ اسکرین پر پیش کیا کوئی اور ہدایت کار نہیں کر سکتا تھا ، کیونکہ Leo Spellman کی طرح Polanskiان چند یہودیوں میں سے ہے جس نے اس جنگ کی ہولناکیوں کو دیکھا اور سہا ۔ Polanski پو لش فرانسیسی یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔

اس کا بچپن وارسا میں جنگ عظیم دوم کے دوران گذرا۔ زندگی کے ابتدائی دور ہی میں وہ وحشت ، بربریت ، خوف اور درد سے آشنا ہوگیا تھا وہ محض آٹھ برس کا تھا جب ستمبرکی ایک نیم تاریک شب اس پرکہر بن کر ٹوٹی۔ جرمن فوج پولینڈ کے دفاع کو عبور کرتے ہوئے اس کے شہر میں داخل ہوچکی تھی ہر طرف موت کا رقص جاری تھا۔

دوسرے بے شمار افراد کی طرح اس کے والدین کو بھی قیدی بنالیا گیا، اس کا والد کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس کی ماں کو چیمبر میں قید کے دوران ہی قتل کر دیا گیا۔

Polanski کہتا ہے کہ ''میری ماں کی جدائی کا غم اس قدرگہرا ہے کہ اسے میری موت ہی ختم کر سکتی ہے'' اس کے شعور کے نہاں خانوں میں اس کا المناک ماضی زندہ رہا ، سالوں تک وہ اس درد کو بیان کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس کو سکون نہ مل سکا بقول اس کے '' میں ہمیشہ جانتا تھا کہ ایک دن میں اس تکلیف دہ دور اور پولینڈ کی تاریخ کے بارے میں ایک فلم بناؤں گا۔''

دوسری طرف جب پکاسو نے اپنے گاؤں گو رنیکا پر جرمن فضائی حملے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو کینوس پر احتجا ج کرتے ہوئے پینٹنگ بنائی تو جرمن فرانس میں اس کے اسٹوڈیو پر رات کی تاریکی میں حملہ آور ہوئے اور جب وہ اس پینٹنگ کو جس کا نام '' گور نیکا '' رکھا گیا تھا دیکھی تو انھیں کچھ خاص سمجھ میں نہ آئی کہ اس کینوس پر آسمان کی طرف چیختے ہوئے ایک بیل تھا، ایک گھوڑا ! ایک عورت اور شاید ایک بچہ تھا ان سب کی چیخیں کینوس سے باہر آرہی تھیں شاید نازی جرمنی کے فوجیوں نے بھی سن لی ہوں گی۔

اس لیے انھوں نے پوچھا '' پکاسو یہ تصویر تم نے بنائی ہے ؟ پکاسو نے جواب دیا '' نہیں یہ تصویر تم نے بنائی ہے۔'' طاقت کے نشے میں سرشار بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا ، تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے نیم مردہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔

کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترا اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا یہ میں نے کیا کر دیا؟ اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں ! یہ فتح ہے یا شکست ؟ یہ انصاف ہے یا نا انصافی ؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی ؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے ؟ کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند بننے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے ؟ کسی نے اپنا شوہر کھو دیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔

لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں ؟ یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے ؟ برتھا فان سٹنر نے 1905 میں نوبیل امن انعام لیتے ہوئے اپنے خطبے میں کہا تھا '' تمام ابدی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ خوش حالی حالت امن ہی میں پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے اور تمام ابدی انسانی حقوق میں سے ایک حق فرد کے زندہ رہنے کا حق ہے '' جب ہم تمدن کی بات کرتے ہیں تو قدیم انسان کو اس لیے غیر ترقی یافتہ کہتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔

ظالم تھا اور خود غرض تھا تو کیا آج کا انسان کم وحشی ہے ، کم ظالم ہے اور کم خود غر ض ہے ؟ انسانی تاریخ میں المیوں ، وحشتوں اور بربادیوں کے ذمے داروں کا تعین با آسانی کیا جاسکتا ہے ، لیکن اسی انسانی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک ہے۔

جہاں جس طرح انسان لٹے اور برباد ہوئے ہیں، اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے لیکن اس سے بھی و حشت ناک بات یہ ہے کہ 75سالوں میں انسانی المیوں ، وحشتوں اور بربادیوں کی ذمے داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ ذمے دار ایک دوسرے پر ذمے داری ڈالنے کا ہولناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت نوحہ اورگریہ کرنے کا دل چاہتا ہے۔

جب ذمے دار بربادوں کو دیکھنے تک کے لیے تیار نہیں نظر آتے ہیں۔ ملک میں انسان مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت ، افلاس اور بھوک کے ہاتھوں مسلسل مر رہے ہیں۔ ملک کے تقریباً گھرگھر میں شام غریباں برپا ہے ، لیکن مجال ہے کہ ذمے داروں کو اپنی عیاشیوں اور عیش و عشرت سے ذرا بھی فرصت ہو کہ وہ ان انسانوں کے حالات زندگی کی طرف نظر بھی ڈال سکیں۔ اس وقت ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے جب وہ ٹی وی پر بیٹھ کر عجیب و غریب اور بیہودہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔

اس بات کا بھی جواب کوئی دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ 75سالوں میں جو ان گنت انسان بھوک ، مہنگائی ، غربت، بدامنی ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ان کے ذمے داروں کو سزا کب ملے گی۔

ان کے قتل کی F.I.R کن ناموں سے کٹے گی۔ کیا وہ سب انسان نہیں تھے کیا انھیں زندہ رہنے ، خوش رہنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ یا ان سب کی قربانیاں رائیگاں چلی گئی ہیں۔ کوئی انسان ان بے گناہوں ، معصوم لوگوں کی زندگیوں ، قربانیوں اور موت پر فلم کیوں نہیں بناتا ہے۔

ان پرکوئی ناول یا افسانہ کیوں نہیں لکھتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر ان پر بات کیوں نہیں ہوتی ہے ۔ ان باتوں کا بھی کوئی جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر طرف ایک وحشتناک خاموشی طاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں