ڈاکٹر اختر شمار کی یادیں اور تعزیتی ریفرنس
ڈاکٹر اختر شمار معاشرے کو تنقیدی آنکھ سے دیکھنے والے شاعر اور ادیب تھے
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
دنیا میں انسان کے لیے سب سے قیمتی اُس کی باتیں اور یادیں ہوتی ہیں اور یہی یادیں انسان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمر کے کسی بھی حصے میں اگر پرانی باتیں اور یادیں آئیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کل کی ہی تو باتیں ہیں۔
جوشؔ ملیح آبادی کے اس خوبصورت شعر نے ڈاکٹر اختر شمارؔ کی یادوں کے پھول تازہ کر دیے ہیں جس کی خوشبو آج بھی گلستانِ سخن میںمحسوس کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر اختر شمار ایک ہمہ جہت بلکہ ہمہ گیر شاعر اور ادبی تخلیقی شخصیت تھے جن کا ادبی ستارہ ملتان کے اُفق پر چمکا تھا۔ جہاں اُن کی پیدائش سترہ اپریل 1960 میں محمد اکبر خان کے ہاں ہوئی۔ والدین نے اُن کا نام محمد اعظم خان رکھا لیکن وہ شعرو سخن کی دنیا میں اختر شمار کے نام سے مشہور ہوئے۔
ڈاکٹر اختر شمار معاشرے کو تنقیدی آنکھ سے دیکھنے والے شاعر اور ادیب تھے، وہ مثبت نقطہ نظرکے دانشور تھے اور تعمیری تنقید پر یقین رکھتے تھے۔
انھوں نے اپنے تہذیبی اور معاشرتی تصورات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ، وہ پاکستان کے متعدد قومی اخبارات میں کالم لکھتے رہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کے بقول '' وہ ایف سی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو ہے اور ایک زبردست شاندار ادبی رسالہ بجنگ آمدکے مدیر اعلیٰ ہے۔
وہ تنگ آمد سے پہلے ہی بجنگ آمد باقاعدگی سے شائع کرتا ہے، تنگ آنے کے بعد آدمی کسی کام کے قابل نہیں رہتا اور ڈاکٹر اختر شمار بڑا قابل آدمی ہے، وہ پٹھان ہے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن بھی ہے۔ وہ بہادر اور غیور آدمی ہے۔''
ڈاکٹر اختر شمار اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے ، وہ اپنی اس ہنر مندی و سیلقے کی بناء پر مشکل ترین مضامین کو لطیف لہجے میں ڈھال کر ایسا بنا دیتے جیسے کوئی عام بات ہو اور لوگوں کی سماعتوں پر گراں نہ گزرے۔ اُن کو لفظوں کے برتنے کا سلیقہ ایک ہنر کے طور پر آتا تھا۔
اُن کا شعری وجدان روشن تھا ، وہ اپنی غزلوں میں عام فہم الفاظ استعمال کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔اُن کی مقبول غزل سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اُس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
ان کی شاعری زندگی کے حقیقی تجربے سے پیدا ہوئی اور ان کے اشعار میں ضرب المثل بننے کی صلاحیت بھی موجود تھی۔بقول ڈاکٹر بیدل حیدری مرحوم '' وہ دن زیادہ دور نہیں جب اختر کا شمار برصغیر کے بڑے شاعروں میں ہو گا۔'' ڈاکٹر اختر شمار کے لہجے میں اعتماد اُس کے معتبر شاعر ہونے کی گواہی دیتا تھا۔
اُن کے کلام میں رنگِ جدید کا بیان بھی کلاسیکیت و روایت کا حصہ تھا بلکہ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے کلام میں قدیم اور جدید رنگ ایک حسین امتزاج لیے ہوئے تھا۔ اُن کی ایک غزل کا مقطع جو میرا ہمیشہ پسندیدہ رہے گا۔
اے آسمان میں ترا اختر شمار ہوں
کچھ تو مری نظر کی صداقت شمار کر
ڈاکٹر اختر شماراپنی ذات میں ایک صاف گو ، محبت پرور اور صوفی آدمی تھے۔ ان کا شمار بیسوی صدی کے ایسے شعراء میں ہوتا تھا جن کی شخصیت اور فن میں کوئی تضاد نہیں۔ انھوں نے تعلیم و تدریس اور شعر وادب کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت ایسے چراغ روشن کیے، جن کی ضیا پاشی سے ایک زمانہ مستنیر ہُوا۔
گزشتہ دنوں ایف سی یونیورسٹی لاہور میں ڈاکٹر نورین کھوکھر کی زیر صدارت شعبہ اردو کی جانب سے ڈاکٹر اختر شمار کی یاد میں تقریب منعقد کی گئی ، جس میں ڈاکٹر اختر شمار کی اہلیہ اور بچوں نے شرکت کی۔
ان کے بیٹوں میں تیمور، وقار اور احتشام نے حاضرین سے مل کر اپنے والد کی شخصیت اور فن کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ تقریب کا آغاز صدر شعبہ اردو ڈاکٹر نورین کھوکھر کے اظہارِ خیال سے ہُوا۔ جس میں انھوں نے اپنے خوبصورت الفاظ میں ڈاکٹر اختر شمار کو خراجِ تحسین پیش کیا ان کی گفتگو نے اس پروگرام کے ماحول کو اپنے سحر میں لے لیا۔
نظامت کے فرائض ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے سرانجام دیے۔ تقریب میں ایف سی یونیورسٹی کے ڈرایکٹر جونتھن ایڈلٹن، وائس ڈرایکٹر ڈگلس ٹرمبل، ایسوسی ایڈوائس ڈائریکٹر ڈاکٹر گلوریا کالب، ڈین آف ہیومینٹیز ڈاکٹر الطاف اللہ خان کے علاوہ دیگر یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی شرکت کی، جب کہ شہر بھر سے علم و ادب کی نامور شخصیات میں ڈاکٹر خواجہ ذکریا ، ڈاکٹر فخر الحق نوری، ڈاکٹر ناصر نیئر عباس، منصور آفاق اور دیگر رفقاء نے بھرپور شرکت کی۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلی تقریب تھی جس میں ڈاکٹر اختر شمار سے عقیدت و محبت کا اظہار منفرد انداز میں کیا گیا۔ ڈاکٹر اختر شمار پر بنائی گئی ڈاکو منٹری نے ماحول کو رقت انگیز بنا دیا۔
سیاہ ڈریس کوٹ، پھولوں اور موم بتیوں سے ماحول کو خوبصورت بنایا گیا ، پروگروام کے تمام انتظامات ڈاکٹر عتیق انور اور طلباء کی ٹیم نے احسن طریقے سے سرانجام دیے ، جسے حاضرین نے خوب سراہا، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر اشفاق ورک، ڈاکٹر طاہر شہیر اور ڈاکٹر شاہد اشرف نے اپنی بھرپور معاونت کی۔
اس تقریب کے دوران ڈاکٹر طاہر شہیر اپنے اظہارِ خیال میں کہتے ہیں کہ'' ڈاکٹر اختر شمار کا ایف سی کالج سے وہ انمول رشتہ ہے جو ان کے جانے کے بعد بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتا ، حقیقت یہ ہے کہ اب تک یہ سانحہ دل قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ چند دن کے لیے چھٹی پر گئے ہیں اور ابھی کہیں سے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے آجائیں گے۔
چاہے اردو ڈیپارٹمنٹ ہو یا دیگر مینجمنٹ، سب کے ساتھ ان کا تعلق تھا ہی اتنا خوبصورت کہ پورا ادارہ آج بھی انھیں مس کرتا ہے۔
ان کے حوالے سے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد اس بات کی تائید ہے کہ وہ جانے کے بعد بھی نہیں گئے۔''اس تعزیتی ریفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر اختر شمار کی اہلیہ اور اہلِ خانہ نے شعبہ اردو کی تمام ٹیم کا شکریہ ادا کیا خاص طور پر اس تقریب کی روحِ رواں ڈاکٹر نورین کھوکھر کا جنہوں نے اس تقریب کی کاوشوں کے حوالے سے اپنی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت دیا کہ انھوں نے بیٹی ہونے کا حق ادا کیا۔
ڈاکٹر اختر شما ر آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اُن کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ آج پھر انھیں یاد کرتے ہوئے اک اور برس بیت گیا۔ احمد فراز کے اس شعر کے مصداق:
آج اک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے