ن لیگ پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت میں آزاد احتساب کمیشن کا وعدہ بھول گئیں
پی پی دورمیںبل کامسودہ70بارقائمہ کمیٹی قانون اور ذیلی کمیٹی کے پاس زیرغوررہا لیکن دونوںجماعتوںمیں اتفاق نہ ہوسکا
کرپشن کے خاتمے کیلیے ایک آزاد،غیرجانبدارقومی احتساب کمیشن کا مطالبہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ملک کی دو بڑی جماعتوںپیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت میں طے کیاگیا تھا۔
میثاق جمہوریت میںایک شق تھی کہ اگر اقتدار ملا تو ملک میںکرپشن کے خاتمے کیلیے احتساب کاایک ایسا آزاد ادارہ بنایاجائے گاجس پرکسی جماعت کو اعتراض نہ ہو۔2008 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد جب ابتدا میں مسلم لیگ ن حکومت کا حصہ تھی میثاق جمہوریت کی اس شق کا مطالبہ کسی جانب سے سامنے نہیں آیا ۔مسلم لیگ ن نے حکومت سے الگ ہونے کے بعدملک میں آزاد احتساب کمیشن کا مطالبہ کیاجس پر حکومت نے احتساب کمیشن بل کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بل کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے پاس چلا گیا اور چار سال چار ماہ تک کمیٹی کے پاس ہی رہا۔قومی اسمبلی کی سابق رکن چوہدری نسیم اخترکی سربراہی میںکمیٹی کے پاس زیر غور اس معاملے کو ذیلی کمیٹی کے سپردکیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ریکارڈکے مطابق قائمہ کمیٹی اور ذیلی کمیٹی کے اجلاسوں میںتقریباً70مرتبہ یہ معاملہ ایجنڈے پر سرفہرست رہا اور آزاد احتساب کمیشن پر قانون سازی کیلیے سو سے زائد نکات پر تفصیلی گفتگوکی گئی۔ کئی مراحل پر حکومتی اور اپوزیشن ممبران کے درمیان اختلاف سامنے آتا رہاکہ احتساب کمیشن کولوٹی گئی رقوم کی وصولی اورکارروائی کااختیارکب سے دیناچاہیے۔
پیپلز پارٹی کاموقف تھاکہ ماضی میں جانے کے بجائے1999 سے احتساب کمیشن کو اختیار دیا جائے ۔ مسلم لیگ نواز نے1985سے احتساب کمیشن کو تحقیقات کا اختیار دینے کا مطالبہ کیا ۔اس پر اتفاق رائے کے بعد دونوں جماعتیں آگے آئیں تو معاملہ چیئرمین احتساب کمیشن پررک گیا، مسلم لیگ ن کاموقف تھاکہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی حاضر سروس جج چیئرمین کا عہدہ سنبھالے جبکہ پیپلز پارٹی نے کہا کہ چیئرمین کوئی ریٹائرڈ جج یا سپریم کورٹ کاجج بننے کی اہلیت والے شخص کو بنانے کی شق شامل کی جائے۔مسلم لیگ ن نے اس پر اتفاق نہ کیا،پیپلز پارٹی اس وقت کی سپریم کورٹ کے کسی جج کو چیئرمین بنانے پر اتفاق کرکے خودکو مزیدکسی آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اپنے موقف پر ڈٹ گئی اور معاملہ ڈیڈ لاک کاشکار ہوگیا۔ ملک میں11 مئی 2013کو عام انتخابات ہوئے اور اقتدار مسلم لیگ ن کو مل گیا ،حکومت کو دس ماہ ہوگئے ہیں لیکن ملک میںآزاد احتساب کمیشن کے قیام سے متعلق کوئی قانونی سازی کرنے کی تجویزسامنے نہیں آئی، حیرت کی بات یہ کہ ملک کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی جو اپوزیشن میں ہے وہ بھی میثاق جمہوریت کے مطالبے سے دستبردار نظر آئی۔ وزیر اعظم و اپوزیشن لیڈرکے مابین نئے چیئرمین نیب پر اتفاق رائے سے لگتاہے کہ احتساب کمیشن کا معاملہ ٹھپ ہوگیا ہے اوردونوں نے فی الوقت یہ پیغام دیدیا ہے کہ موجودہ احتساب بیوروکے ذریعے ہی ملک میں ہونے کرپشن کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
میثاق جمہوریت میںایک شق تھی کہ اگر اقتدار ملا تو ملک میںکرپشن کے خاتمے کیلیے احتساب کاایک ایسا آزاد ادارہ بنایاجائے گاجس پرکسی جماعت کو اعتراض نہ ہو۔2008 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد جب ابتدا میں مسلم لیگ ن حکومت کا حصہ تھی میثاق جمہوریت کی اس شق کا مطالبہ کسی جانب سے سامنے نہیں آیا ۔مسلم لیگ ن نے حکومت سے الگ ہونے کے بعدملک میں آزاد احتساب کمیشن کا مطالبہ کیاجس پر حکومت نے احتساب کمیشن بل کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بل کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے پاس چلا گیا اور چار سال چار ماہ تک کمیٹی کے پاس ہی رہا۔قومی اسمبلی کی سابق رکن چوہدری نسیم اخترکی سربراہی میںکمیٹی کے پاس زیر غور اس معاملے کو ذیلی کمیٹی کے سپردکیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے ریکارڈکے مطابق قائمہ کمیٹی اور ذیلی کمیٹی کے اجلاسوں میںتقریباً70مرتبہ یہ معاملہ ایجنڈے پر سرفہرست رہا اور آزاد احتساب کمیشن پر قانون سازی کیلیے سو سے زائد نکات پر تفصیلی گفتگوکی گئی۔ کئی مراحل پر حکومتی اور اپوزیشن ممبران کے درمیان اختلاف سامنے آتا رہاکہ احتساب کمیشن کولوٹی گئی رقوم کی وصولی اورکارروائی کااختیارکب سے دیناچاہیے۔
پیپلز پارٹی کاموقف تھاکہ ماضی میں جانے کے بجائے1999 سے احتساب کمیشن کو اختیار دیا جائے ۔ مسلم لیگ نواز نے1985سے احتساب کمیشن کو تحقیقات کا اختیار دینے کا مطالبہ کیا ۔اس پر اتفاق رائے کے بعد دونوں جماعتیں آگے آئیں تو معاملہ چیئرمین احتساب کمیشن پررک گیا، مسلم لیگ ن کاموقف تھاکہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی حاضر سروس جج چیئرمین کا عہدہ سنبھالے جبکہ پیپلز پارٹی نے کہا کہ چیئرمین کوئی ریٹائرڈ جج یا سپریم کورٹ کاجج بننے کی اہلیت والے شخص کو بنانے کی شق شامل کی جائے۔مسلم لیگ ن نے اس پر اتفاق نہ کیا،پیپلز پارٹی اس وقت کی سپریم کورٹ کے کسی جج کو چیئرمین بنانے پر اتفاق کرکے خودکو مزیدکسی آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اپنے موقف پر ڈٹ گئی اور معاملہ ڈیڈ لاک کاشکار ہوگیا۔ ملک میں11 مئی 2013کو عام انتخابات ہوئے اور اقتدار مسلم لیگ ن کو مل گیا ،حکومت کو دس ماہ ہوگئے ہیں لیکن ملک میںآزاد احتساب کمیشن کے قیام سے متعلق کوئی قانونی سازی کرنے کی تجویزسامنے نہیں آئی، حیرت کی بات یہ کہ ملک کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی جو اپوزیشن میں ہے وہ بھی میثاق جمہوریت کے مطالبے سے دستبردار نظر آئی۔ وزیر اعظم و اپوزیشن لیڈرکے مابین نئے چیئرمین نیب پر اتفاق رائے سے لگتاہے کہ احتساب کمیشن کا معاملہ ٹھپ ہوگیا ہے اوردونوں نے فی الوقت یہ پیغام دیدیا ہے کہ موجودہ احتساب بیوروکے ذریعے ہی ملک میں ہونے کرپشن کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔