ایم کیو ایم پاکستان کی اہم کامیابی
اب شہر میں عوام کش ہڑتالیں نہیں ہوتیں ، کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی خوش ہیں
بالآخر حق ،حق داروں کو دینے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ لندن ہائی کورٹ نے کئی سال پرانے ایم کیو ایم کی جائیدادوں کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس کیس کو لڑنا اور بانی قائد کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی، مد مقابل وہ ہستی تھی جس کی دھاک صرف کراچی اور سندھ میں ہی نہیں پورے پاکستان میں بیٹھی ہوئی تھی جس کے خوف سے اچھے اچھے لرز جاتے تھے۔
سید امین الحق اور ان کے رفقا کی ہمت و جرأت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ انھوں نے یہ کیس ایم کیو ایم کے شہدا، اسیر اور لاپتا کارکنان کو ان کا حق دلانے کے لیے جیت لیا ہے۔
اکثر لوگ ایم کیو ایم پاکستان کے بعض چوٹی کے رہنماؤں کو بانی قائد کا ایجنٹ خیال کرتے تھے کہ ان کا درپردہ بانی قائد سے رابطہ ہے ، وہ اپنے اس رابطے کو چھپاتے ہیں تاکہ انھیں بانی قائد کا ساتھی نہ سمجھا جائے مگر اب ساری غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہ بانی قائد کے ساتھ اس وقت تک چلتے رہے جب تک وہ قوم و ملک کے لیے خطرہ نہیں تھے مگر جب ان کا رجحان وطن عزیز کے بجائے دشمن ملک کے مفاد کی جانب مبذول ہو گیا اور ملک کو پارٹی کے منشور کے مطابق امن کا گہوارا بنانے کے بجائے دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا دیا تو پھر پارٹی کے رہنما بھلا اس صورت حال کو کیوں کر برداشت کرسکتے تھے۔
وہ ایک عرصے سے بانی قائد کے بے تکے بیانات سے تنگ تھے پھر ہر معاملے میں '' را '' کو مدد کے لیے پکارنے کو بانی قائد کے ذہنی توازن میں خلل خیال کرنے لگے تھے ، مگر جب 21 اگست 2016 کو انھوں نے کھلم کھلا '' پاکستان مردہ باد '' کا نعرہ بلند کیا تو پھر سارے حجاب کھل گئے اور بانی قائد کی ملک دشمنی سامنے آگئی تھی۔
اسی دن اس وقت کے پارٹی سینئر کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بانی قائد سے علیحدگی اختیار کرنے کا دبنگ فیصلہ کیا اور اپنی پارٹی کو ایم کیو ایم لندن سے الگ کرکے ایم کیو ایم پاکستان کے تحت عوام کے ہر طبقے کی خدمت کرنے کا تہیہ کیا۔ اس فیصلے پر ایم کیو ایم (پاکستان) آج بھی قائم و دائم ہے۔
اب شہر میں عوام کش ہڑتالیں نہیں ہوتیں ، کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی خوش ہیں، پہلے جیسی بھتے کی پرچیاں بھی تقسیم نہیں کی جاتیں مگر ان کی تعمیل نہ کرنے والوں کا پہلے جو حشر کیا جاتا تھا اسے لوگ ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔
اب نوجوانوں میں بھی وہ پہلے جیسا تخریبی رجحان نہیں ہے ، لیکن اس میں شک نہیں کہ مہاجروں کی دو نسلوں کو تباہ کرنے کا الزام بانی قائد پر ہمیشہ ہی عائد کیا جاتا رہے گا۔ بانی قائد کے منفی رویے اور ''را '' سے تعلق کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کئی رہنما اسے چھوڑ چکے تھے ان میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی جیسے پارٹی کے فعال رہنما بھی شامل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ہی بانی قائد کی اصلیت کو بے نقاب کیا اور ان کے '' را '' سے تعلق کی پول کھولی۔ اب ایم کیو ایم کے بانی قائد سے دور اختیار کیے جانے کے بعد وہ بھی پارٹی میں واپس آگئے ہیں اس طرح اور بھی ایم کیو ایم کے روٹھے رہنما بھی پارٹی سے جڑ چکے ہیں، لگتا ہے ایم کیو ایم پاکستان اب امن و سلامتی کے ساتھ اپنے مقاصد ضرور حاصل کر لے گی۔
اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی اسے مہاجروں نے اپنی محرومیوں کے ازالے کے لیے قائم کیا تھا پھر بعد میں اسے متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے دیا گیا۔
اس لیے کہ صرف مہاجروں کے ساتھ ناانصافیاں نہیں ہو رہی تھیں تمام ہی کمیونٹیز کا یہی حال تھا کہ مسائل میں گھری ہوئی تھی جس کے حل کے لیے جد و جہد کرنا ایم کیو ایم نے شعار بنا لیا تھا مگر ہماری حکومتیں اپنی مجبوریوں کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہی تھی تاہم پرانی ایم کیو ایم کو بدقسمتی سے تمام ہی قومیتوں سے ٹکراؤ کا سامنا تھا اور یہ سراسر قیادت کی پوری قوم کو انتشار کا شکار کرنے کی چال تھی۔
اس لیے کہ اس قیادت کو دشمن کی جانب سے یہی حکم ملا تھا جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان کے اہم شہر کراچی کو قتل و غارت گری کی دلدل میں جھونک دیا گیا تھا۔ نفرت کی سیاست عروج پر تھی جب کہ کراچی میں پاکستان کی تمام ہی قومیتیں رہائش پذیر ہیں۔
21 اگست 2016 کے بعد سے جہاں ایم کیو ایم کے حالات میں سدھار آیا ہے وہاں کراچی کے حالات بھی سدھرے ہیں اب یہاں نہ دہشت گردی ہے نہ ہڑتالیں اور نہ ہی پہلے جیسی بھتے کی پرچیاں کاروباری لوگوں کو دی جا رہی ہیں۔
اس وقت خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان اپنے اہداف کے حصول کی جانب گامزن ہے۔ کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم پاکستان سے اب بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
البتہ چالیس سال قبل ایم کیو ایم سے کراچی کے عوام نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں لیکن اب نئی قیادت کی سنجیدگی سے لگتا ہے پارٹی اپنا کھویا ہوا اعتبار حاصل کر لے گی اور عوامی مسائل کو بھی حل کرکے رہے گی۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ماضی کی قیادت کی غلطیوں کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہر حکومت کا حصہ بن کر ایم کیو ایم کچھ حاصل کرنے کے بجائے بدنام ہوتی رہی ہے جس کی وجہ کراچی کی دہشت گردی تھی اس گھناؤنے کھیل میں جھونکنے کے لیے نوجوانوں کی تربیت اور اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل محاذ آرائی کے سوا کسی عوامی مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی۔
ایم کیو ایم کے قیام کے سال 1986 سے 2016 کا عرصہ اسی کشمکش میں گزر گیا اور کراچی کے مسائل اپنی جگہ برقرار رہے کیونکہ ان پر توجہ دینے کے بجائے غیر ملکی مفادات کو پورا کیا جاتا رہا۔ اب حالات بالکل بدل چکے ہیں کراچی کے عوام بھی اب مطمئن نظر آتے ہیں اس لیے کہ ابھی تک ان کے مسائل ضرور حل طلب ہیں مگر انھیں دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے نجات مل چکی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان عوامی مسائل کے حل کے لیے اس وقت سرگرداں ہے۔ کراچی کی آبادی کی صحیح گنتی اور بلدیاتی الیکشن میں اسے نظرانداز کیا جانا گمبھیر مسائل ہیں ساتھ ہی پی ڈی ایم کی جانب سے وعدہ کے مطابق اس کے مطالبات کو پورا نہ کیا جانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
اس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان 18 مارچ2023 بروز ہفتہ کراچی میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کر رہی ہے جس میں اس کے رہنما مسائل اور حکومتی سرد مہری کے بارے میں کھل کر بات کریں گے اور عوام کے سامنے اپنا آیندہ کا لائحہ عمل بھی پیش کریں گے۔
اس عوامی جلسے کو بہت اہم بتایا جا رہا ہے اس میں کراچی کے تمام طبقوں اور سیاسی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہی کراچی کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور شرکت کرنی چاہیے۔
سید امین الحق اور ان کے رفقا کی ہمت و جرأت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ انھوں نے یہ کیس ایم کیو ایم کے شہدا، اسیر اور لاپتا کارکنان کو ان کا حق دلانے کے لیے جیت لیا ہے۔
اکثر لوگ ایم کیو ایم پاکستان کے بعض چوٹی کے رہنماؤں کو بانی قائد کا ایجنٹ خیال کرتے تھے کہ ان کا درپردہ بانی قائد سے رابطہ ہے ، وہ اپنے اس رابطے کو چھپاتے ہیں تاکہ انھیں بانی قائد کا ساتھی نہ سمجھا جائے مگر اب ساری غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہ بانی قائد کے ساتھ اس وقت تک چلتے رہے جب تک وہ قوم و ملک کے لیے خطرہ نہیں تھے مگر جب ان کا رجحان وطن عزیز کے بجائے دشمن ملک کے مفاد کی جانب مبذول ہو گیا اور ملک کو پارٹی کے منشور کے مطابق امن کا گہوارا بنانے کے بجائے دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا دیا تو پھر پارٹی کے رہنما بھلا اس صورت حال کو کیوں کر برداشت کرسکتے تھے۔
وہ ایک عرصے سے بانی قائد کے بے تکے بیانات سے تنگ تھے پھر ہر معاملے میں '' را '' کو مدد کے لیے پکارنے کو بانی قائد کے ذہنی توازن میں خلل خیال کرنے لگے تھے ، مگر جب 21 اگست 2016 کو انھوں نے کھلم کھلا '' پاکستان مردہ باد '' کا نعرہ بلند کیا تو پھر سارے حجاب کھل گئے اور بانی قائد کی ملک دشمنی سامنے آگئی تھی۔
اسی دن اس وقت کے پارٹی سینئر کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بانی قائد سے علیحدگی اختیار کرنے کا دبنگ فیصلہ کیا اور اپنی پارٹی کو ایم کیو ایم لندن سے الگ کرکے ایم کیو ایم پاکستان کے تحت عوام کے ہر طبقے کی خدمت کرنے کا تہیہ کیا۔ اس فیصلے پر ایم کیو ایم (پاکستان) آج بھی قائم و دائم ہے۔
اب شہر میں عوام کش ہڑتالیں نہیں ہوتیں ، کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی خوش ہیں، پہلے جیسی بھتے کی پرچیاں بھی تقسیم نہیں کی جاتیں مگر ان کی تعمیل نہ کرنے والوں کا پہلے جو حشر کیا جاتا تھا اسے لوگ ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔
اب نوجوانوں میں بھی وہ پہلے جیسا تخریبی رجحان نہیں ہے ، لیکن اس میں شک نہیں کہ مہاجروں کی دو نسلوں کو تباہ کرنے کا الزام بانی قائد پر ہمیشہ ہی عائد کیا جاتا رہے گا۔ بانی قائد کے منفی رویے اور ''را '' سے تعلق کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کئی رہنما اسے چھوڑ چکے تھے ان میں مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی جیسے پارٹی کے فعال رہنما بھی شامل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ہی بانی قائد کی اصلیت کو بے نقاب کیا اور ان کے '' را '' سے تعلق کی پول کھولی۔ اب ایم کیو ایم کے بانی قائد سے دور اختیار کیے جانے کے بعد وہ بھی پارٹی میں واپس آگئے ہیں اس طرح اور بھی ایم کیو ایم کے روٹھے رہنما بھی پارٹی سے جڑ چکے ہیں، لگتا ہے ایم کیو ایم پاکستان اب امن و سلامتی کے ساتھ اپنے مقاصد ضرور حاصل کر لے گی۔
اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی اسے مہاجروں نے اپنی محرومیوں کے ازالے کے لیے قائم کیا تھا پھر بعد میں اسے متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے دیا گیا۔
اس لیے کہ صرف مہاجروں کے ساتھ ناانصافیاں نہیں ہو رہی تھیں تمام ہی کمیونٹیز کا یہی حال تھا کہ مسائل میں گھری ہوئی تھی جس کے حل کے لیے جد و جہد کرنا ایم کیو ایم نے شعار بنا لیا تھا مگر ہماری حکومتیں اپنی مجبوریوں کی بنا پر اس جانب توجہ نہیں دے پا رہی تھی تاہم پرانی ایم کیو ایم کو بدقسمتی سے تمام ہی قومیتوں سے ٹکراؤ کا سامنا تھا اور یہ سراسر قیادت کی پوری قوم کو انتشار کا شکار کرنے کی چال تھی۔
اس لیے کہ اس قیادت کو دشمن کی جانب سے یہی حکم ملا تھا جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان کے اہم شہر کراچی کو قتل و غارت گری کی دلدل میں جھونک دیا گیا تھا۔ نفرت کی سیاست عروج پر تھی جب کہ کراچی میں پاکستان کی تمام ہی قومیتیں رہائش پذیر ہیں۔
21 اگست 2016 کے بعد سے جہاں ایم کیو ایم کے حالات میں سدھار آیا ہے وہاں کراچی کے حالات بھی سدھرے ہیں اب یہاں نہ دہشت گردی ہے نہ ہڑتالیں اور نہ ہی پہلے جیسی بھتے کی پرچیاں کاروباری لوگوں کو دی جا رہی ہیں۔
اس وقت خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان اپنے اہداف کے حصول کی جانب گامزن ہے۔ کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم پاکستان سے اب بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
البتہ چالیس سال قبل ایم کیو ایم سے کراچی کے عوام نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں لیکن اب نئی قیادت کی سنجیدگی سے لگتا ہے پارٹی اپنا کھویا ہوا اعتبار حاصل کر لے گی اور عوامی مسائل کو بھی حل کرکے رہے گی۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ماضی کی قیادت کی غلطیوں کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہر حکومت کا حصہ بن کر ایم کیو ایم کچھ حاصل کرنے کے بجائے بدنام ہوتی رہی ہے جس کی وجہ کراچی کی دہشت گردی تھی اس گھناؤنے کھیل میں جھونکنے کے لیے نوجوانوں کی تربیت اور اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل محاذ آرائی کے سوا کسی عوامی مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی۔
ایم کیو ایم کے قیام کے سال 1986 سے 2016 کا عرصہ اسی کشمکش میں گزر گیا اور کراچی کے مسائل اپنی جگہ برقرار رہے کیونکہ ان پر توجہ دینے کے بجائے غیر ملکی مفادات کو پورا کیا جاتا رہا۔ اب حالات بالکل بدل چکے ہیں کراچی کے عوام بھی اب مطمئن نظر آتے ہیں اس لیے کہ ابھی تک ان کے مسائل ضرور حل طلب ہیں مگر انھیں دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے نجات مل چکی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان عوامی مسائل کے حل کے لیے اس وقت سرگرداں ہے۔ کراچی کی آبادی کی صحیح گنتی اور بلدیاتی الیکشن میں اسے نظرانداز کیا جانا گمبھیر مسائل ہیں ساتھ ہی پی ڈی ایم کی جانب سے وعدہ کے مطابق اس کے مطالبات کو پورا نہ کیا جانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
اس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان 18 مارچ2023 بروز ہفتہ کراچی میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کر رہی ہے جس میں اس کے رہنما مسائل اور حکومتی سرد مہری کے بارے میں کھل کر بات کریں گے اور عوام کے سامنے اپنا آیندہ کا لائحہ عمل بھی پیش کریں گے۔
اس عوامی جلسے کو بہت اہم بتایا جا رہا ہے اس میں کراچی کے تمام طبقوں اور سیاسی سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہی کراچی کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور شرکت کرنی چاہیے۔