بلوچ قوم کا تاریخی پس منظر آخری حصہ

قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے

shabbirarman@yahoo.com

میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت ، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔

سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر '' بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں'' میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔

قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران ان کا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی۔

میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ بقول میر چاکر '' مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے '' اور میر چاکر اپنے قول کا دھنی تھا۔

اپنے قول کیمطابق ایک مالدار عورت '' گوھر '' کو امان دی اور اس کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سال کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان ، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر، جیند ، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سیکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے۔

بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے ، خاص کر اگر وہ رند بلوچ ہو بقول چاکر خان رند کے '' سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے'' بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ'' مرے ہوئے رند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے'' بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کی نعمت سمجھتے ہیں۔

سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کی مختلف روایات ہیں ، ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486اور قلات کو 1486 فتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488 میں سبی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489میں شروع ہوا جو 1519ء میں اختتام پذیر ہوا۔

1520 میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523 میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555 میں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565 میں یہ عظیم قائد اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ اوکاڑہ میں دفن ہوئے۔

بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔

جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے ، پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں ( پاڑوں ) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔


اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انھیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انھیں آسانی سے میسر آگئیں ، کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔

یہ مسلمہ امر ہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے ، جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے انھیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں بلوچوں کے دو قبیلوں رند و لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کر دیے گئے یا انھوں نے اطاعت قبول کر لی۔

آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھے انھوں نے خضدار فتح کیا در مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ در بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبی کو فتح کیا۔

اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیا ہے) اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندھ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور بلوچ منتشر ہوگئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا۔بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔

شہنشاہ بابر نے لکھا ہے '' میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا۔ بھیرہ اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے اور اطاعت کا وعدہ کیا '' 1539 کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے تونسہ کے مقام پر شکست کھائی اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑہ کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔

گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کر آیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔

جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لیے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔بلوچ قوم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر قوم مانی جاتی ہے اور بہادر قوم کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ان کے پاس رقبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

بلوچستان کا رقبہ اور آبادی دونوں بلوچ قوم کی بہادری کا واضح ثبوت ہے۔چاہے ایران کا بلوچستان ہو یا پاکستان کا یا افغانستان کا بلوچستان۔ بلوچ قوم اس خطے میں سب سے زیادہ رقبے اور سمندر کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ مسقط ، عمان ، بحرین، شام ، عراق ، کردستان اور سعودی عرب میں بلوچ ہزاروں سالوں سے آباد ہیں اور بلوچ قوم نے اپنی زمین کی طرف کسی بھی قوت کو آگے نہیں بڑھنے دیا ، ہر قوت کو شکست دے کر بلوچ زمین کا دفاع کیا جو بے پناہ دولت سے مالا مال ہے جس پر پوری دنیا کی نظریں تھی۔

آج سے نہیں صدیوں سے کبھی پرتگالیوں نے بلوچ بحیرہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کیے اور شکست سے دوچار ہوئے تو کبھی برطانیہ نے بلوچ دولت کو پانے کے لیے بلوچستان پر اپنا قبضہ جما کر دولت کو برطانیہ شفٹ کرنے کا سوچا لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔

بلوچ اپنی سلطنت جو کہ ایران افغانستان تک پھیلی ہوئی ہے کو نہیں محفوظ رکھتے تو بلوچ بحیرہ پر پرتگالی قابض ہوتے اور بلوچستان کی بہت زیادہ دولت ہندوستان کے کوہ نور ہیرے کی طرح برطانیہ کی ملکیت ہوتی۔

انگریزوں نے بھی بلوچ قوم کے بارے میں کہا تھا کہ '' بلوچ قوم صرف عزت کی بھوکی ہے عزت دو گے تو یہ تمہیں بدلے میں امن اور چین کی نیند دیں گے'' آج بلوچ قوم کو جنگ کی نہیں قلم کی ضرورت ہے بلوچ قوم پاکستان کی شان ہے ، پاکستان کی معیشت کا دارومدار بلوچستان پر ہے۔
Load Next Story