طاہر نجمی اور ان کی یادیں
اے کے شاد مرحوم میگزین ہیڈ تھے مگر ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی
پیار، محبت، خلوص کا درس دینے والے صحافت کے ایوانوں کے شہزادے طاہر نجمی اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ ایک ایک لفظ دل پر غم کا بوجھ لیے لکھ رہا ہوں ،انھوں نے ہمیشہ ادب سے وابستہ لوگوں کی عزت اور مرتبہ کا خیال رکھا۔ صحافت کی دنیا میں جو انھیں پذیرائی ملی وہ اس کے لیے قابل احترام تھے۔
ان کا طرز بیان اپنی مثال آپ تھا وہ ادبی حلقوں کی جان تھے خوش گفتاری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ شرافت کا یہ عالم تھا کہ منفی پروپیگنڈے کو ہمیشہ جوتی کی نوک پر رکھا اور ہمیشہ صراط مستقیم کا راستہ اختیار کیا۔
بے یار و مددگاروں کی ہمیشہ مدد کرتے تھے راقم پر بھی ان کے بہت احسانات تھے مانا کہ میں ان کے سامنے طفل مکتب ہوں ، انھوں نے مجھے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت سے نوازا۔ میری پہلی ملاقات ان سے کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی اسد جعفری مرحوم شوبز کے بڑے صحافی تھے اور راقم ان کا استادوں کی طرح احترام کرتا تھا انھوں نے میرا تعارف طاہر بھائی سے کروایا۔
1993 کی بات ہے راقم اس زمانے میں کراچی کے ایک بڑے اخبار سے وابستہ تھا اور شوبزنس کرتا تھا ان سے پھر ایک ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے روزنامہ ''امن'' میں آنے کی دعوت دی ان کے دھیمے لہجے کی اور مسکراہٹ بھری گفتگو مجھے آج بھی یاد ہے اور میں انکار نہ کرسکا۔ طاہر بھائی روزنامہ ''امن'' میں نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے پہلے تو مجھے شوبزنس کے لیے منتخب کیا اور اس کے بعد میگزین دے دیا گیا۔
اے کے شاد مرحوم میگزین ہیڈ تھے مگر ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ پہلی مرتبہ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری منتخب ہوئے جب کہ راقم اس زمانے میں پریس کلب کا ممبر نہیں تھا مگر طاہر بھائی کے پاس پریس کلب جاتا تھا ، وہ پریس کلب کے ممبران کے مسائل اتنی خاموشی اور فکرمندی سے سنتے کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے۔
دوبارہ الیکشن ہوا اور پھر وہ دوسری مرتبہ بھی پریس کلب کے سیکریٹری بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے، وہ علمی و صحافتی حلقے کی جان تھے اور پھر راقم کو بھی پریس کلب کی ممبرشپ مل گئی اور روزنامہ ''امن'' میں شوبزنس کرتا رہا اس زمانے میں غالباً 1994 کی بات ہے روزنامہ ''امن'' کراچی سے نکلنے والے ہر اخبار سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار تھا، اجمل دہلوی ، ایم کیو ایم سے سینیٹر بن گئے، طاہر بھائی اور میں ''امن'' سے کافی عرصہ وابستہ رہے۔
1998 میں روزنامہ ایکسپریس منظر عام پر آنے والا تھا بے شمار درخواستیں ملازمت کے حوالے سے آ رہی تھیں نجمی بھائی نے مجھے دعوت دی کہ تم شوبزنس کے لیے درخواست دے دو، مگر ہمارے ایک ساتھی جو بے روزگار تھے۔
انھوں نے بھی درخواست دے رکھی تھی، طاہر بھائی نے کہا کہ ایک درخواست شوبزنس کے حوالے سے آئی ہے میں نے کہا آپ انھیں یہ جاب دے دیں وہ ضرورت مند ہیں اور یوں طاہر بھائی نے انھیں منتخب کرلیا مگر طاہر بھائی نے غالباً 2004 میں مجھے ایکسپریس بلوالیا اور شوبزنس پر انٹرویو کا شعبہ دیا اور غالباً 2009 سے میں نے سیاسی کالم لکھنا شروع کیا اور ان کی زیر نگرانی یہ سلسلہ قائم رہا۔ محمد بخش ، کراچی کا ایڈیٹوریل پیج دیکھتے ہیں اور وہ بھی طاہر بھائی سے بہت محبت کرتے اوران کا بھی کالم نگاروں سے بہت محبت و تکریم کا رشتہ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ طاہر نجمی بہت سنجیدہ طبیعت کے انسان ہیں، مگر راقم سے ان کا تعلق 1994 سے تھا، وہ مزاح کو بھی بہت پسند کرتے تھے، اداکار لہری بہت بیمار تھے گلشن اقبال میں رہتے تھے، طاہر نجمی نے کہا م۔ش۔خ ! لہری بھائی سے ملنا ہے۔ میں نے ملاقات کا وقت لیا اور طاہر نجمی کے ساتھ لہری کے پاس گئے۔
میں نے طاہر بھائی کا تعارف کرایا، لہری بہت محبت سے ملے تو نجمی بھائی نے باتوں باتوں میں بتایا کہ آپ کی فلم '' نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' کے علاوہ بے شمار فلمیں دیکھیں میں آپ کو بحیثیت اداکار کے بہت پسند کرتا تھا۔ نجمی بھائی اداکار محمد علی مرحوم کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
محمد علی ہلال احمر کی تقریب میں کراچی آئے اور ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں مقیم تھے، طاہر بھائی نے ملنے کی خواہش کی، میں نے علی بھائی سے وقت لیا اور ان سے ملنے چلے گئے۔ اداکار محمد علی ، طاہر نجمی سے مل کر بہت خوش ہوئے اور کہا آپ جیسے جوانوں کی ضرورت ہے، ایک اچھی صحافت کے لیے ۔ طاہر نجمی کو لوگ سنجیدہ سمجھتے تھے وہ واقعی سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے مگر محفل میں ماحول کے مطابق گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
ان کی شخصیت اتنی محبت بھری تھی کہ کسی کام کو انکار نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک کی مدد کیا کرتے تھے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی تو کوئی ان سے سیکھتا۔ بظاہر سنجیدہ نظر آتے تھے مگر ایسا نہیں تھا وہ لوگوں سے بہت ہنستے بولتے تھے اور ان میں گھل مل جایا کرتے تھے۔ کراچی پریس کلب میں ایک فنکشن منعقد ہوا، انھوں نے کہا کہ م۔ش۔خ! میں چاہتا ہوں کہ تاریخی موسیقی کا پروگرام ہو، اور یوں رب نے ہماری مدد کی۔
کراچی کے بڑے فنکاروں نے بلامعاوضہ اس شو میں شرکت کرکے اس موسیقی کے پروگرام کو چار چاند لگا دیے۔ طاہر نجمی دوسری مرتبہ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری منتخب ہوئے تھے بہت اصول پسند اور ایمان دار انسان تھے۔
پریس کلب میں ممبر شپ کا آغاز ہوا، میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے آپ پریس کلب کا ممبر بنوا دیں مگر شرافت ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔ راقم اس زمانے میں ایک اچھی جاب کرتا تھا پرائیویٹ ادارے میں، انھوں نے اتنے تعلقات ہونے کے باوجود برجستہ کہا کہ ممبر شپ صرف اخبارات سے وابستہ صحافیوں کو دی جاتی ہے آپ پرائیویٹ جاب کرتے ہیں، اخبارات سے فری لانس وابستہ ہیں یہ صحافیوں کی حق تلفی ہوگی۔
لہٰذا پریس کلب کی ممبرشپ آپ کو نہیں دی جاسکتی، آپ ایسوسی ایٹ ممبر کے لیے اپلائی کریں، آپ کو یہ ممبرشپ دلا سکتا ہوں اور یوں مجھے انھوں نے ایسوسی ایٹ ممبر شپ دلوائی۔ تعلقات کو انھوں نے اہمیت نہیں دی۔ یہ غالباً 1994 کی بات ہے جب کہ میں اس زمانے میں روزنامہ ''امن'' سے وابستہ تھا اور وہ بھی ''امن'' میں تھے بلکہ روزنامہ ''امن'' میں شوبزنس کا ہیڈ تھا۔
حرمت قلم کا طاہر بھائی بہت احترام کرتے تھے چاہنے والوں کے لیے بھی وہ قواعد و ضوابط پر عمل کرتے تھے ایکسپریس میں کافی عرصہ شوبزنس سے وابستہ رہا۔ اپنے مزاج کی سنجیدگی کی وجہ سے میں سیاسی آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا میں نے طاہر بھائی کو بتایا اور ایکسپریس میں شام کے اوقات میں ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔
مصروفیات کی وجہ سے کہا کہ گھر آجائیں اس زمانے میں وہ کراچی یونیورسٹی میں رہا کرتے تھے میں ان کے گھر گیا۔اپنا مدعا بیان کیا کہنے لگے کہ ضرورت کے تحت شوبزنس پر بھی آرٹیکل لکھ کر دینا تو ایڈیٹوریل پر پہلا آرٹیکل غالباً گلوکار مہدی حسن کے حوالے سے لکھا انھوں نے حوصلہ افزائی کی وہ آرٹیکل ایکسپریس میں بہت خوبصورتی سے پرنٹ ہوا۔
وہ اپنی مثال آپ تھے، حوصلہ افزائی اور محبت تو ان کے دامن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی حالیہ بات کر رہا ہوں جب بھی پریس کلب میں ملتے بہت ہی محبت سے ملتے۔ تعمیری اور مثبت باتیں کرتے، کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے، دلی قربت کا ہمیشہ ثبوت دیتے۔ میں نے آہوں کراہوں میں ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کو دیکھا اس میں راقم بھی اس قطار میں شامل تھا۔ رب طاہر نجمی کی مغفرت کرے ۔(آمین)
ان کا طرز بیان اپنی مثال آپ تھا وہ ادبی حلقوں کی جان تھے خوش گفتاری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ شرافت کا یہ عالم تھا کہ منفی پروپیگنڈے کو ہمیشہ جوتی کی نوک پر رکھا اور ہمیشہ صراط مستقیم کا راستہ اختیار کیا۔
بے یار و مددگاروں کی ہمیشہ مدد کرتے تھے راقم پر بھی ان کے بہت احسانات تھے مانا کہ میں ان کے سامنے طفل مکتب ہوں ، انھوں نے مجھے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت سے نوازا۔ میری پہلی ملاقات ان سے کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی اسد جعفری مرحوم شوبز کے بڑے صحافی تھے اور راقم ان کا استادوں کی طرح احترام کرتا تھا انھوں نے میرا تعارف طاہر بھائی سے کروایا۔
1993 کی بات ہے راقم اس زمانے میں کراچی کے ایک بڑے اخبار سے وابستہ تھا اور شوبزنس کرتا تھا ان سے پھر ایک ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے روزنامہ ''امن'' میں آنے کی دعوت دی ان کے دھیمے لہجے کی اور مسکراہٹ بھری گفتگو مجھے آج بھی یاد ہے اور میں انکار نہ کرسکا۔ طاہر بھائی روزنامہ ''امن'' میں نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے پہلے تو مجھے شوبزنس کے لیے منتخب کیا اور اس کے بعد میگزین دے دیا گیا۔
اے کے شاد مرحوم میگزین ہیڈ تھے مگر ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ پہلی مرتبہ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری منتخب ہوئے جب کہ راقم اس زمانے میں پریس کلب کا ممبر نہیں تھا مگر طاہر بھائی کے پاس پریس کلب جاتا تھا ، وہ پریس کلب کے ممبران کے مسائل اتنی خاموشی اور فکرمندی سے سنتے کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے۔
دوبارہ الیکشن ہوا اور پھر وہ دوسری مرتبہ بھی پریس کلب کے سیکریٹری بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے، وہ علمی و صحافتی حلقے کی جان تھے اور پھر راقم کو بھی پریس کلب کی ممبرشپ مل گئی اور روزنامہ ''امن'' میں شوبزنس کرتا رہا اس زمانے میں غالباً 1994 کی بات ہے روزنامہ ''امن'' کراچی سے نکلنے والے ہر اخبار سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار تھا، اجمل دہلوی ، ایم کیو ایم سے سینیٹر بن گئے، طاہر بھائی اور میں ''امن'' سے کافی عرصہ وابستہ رہے۔
1998 میں روزنامہ ایکسپریس منظر عام پر آنے والا تھا بے شمار درخواستیں ملازمت کے حوالے سے آ رہی تھیں نجمی بھائی نے مجھے دعوت دی کہ تم شوبزنس کے لیے درخواست دے دو، مگر ہمارے ایک ساتھی جو بے روزگار تھے۔
انھوں نے بھی درخواست دے رکھی تھی، طاہر بھائی نے کہا کہ ایک درخواست شوبزنس کے حوالے سے آئی ہے میں نے کہا آپ انھیں یہ جاب دے دیں وہ ضرورت مند ہیں اور یوں طاہر بھائی نے انھیں منتخب کرلیا مگر طاہر بھائی نے غالباً 2004 میں مجھے ایکسپریس بلوالیا اور شوبزنس پر انٹرویو کا شعبہ دیا اور غالباً 2009 سے میں نے سیاسی کالم لکھنا شروع کیا اور ان کی زیر نگرانی یہ سلسلہ قائم رہا۔ محمد بخش ، کراچی کا ایڈیٹوریل پیج دیکھتے ہیں اور وہ بھی طاہر بھائی سے بہت محبت کرتے اوران کا بھی کالم نگاروں سے بہت محبت و تکریم کا رشتہ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ طاہر نجمی بہت سنجیدہ طبیعت کے انسان ہیں، مگر راقم سے ان کا تعلق 1994 سے تھا، وہ مزاح کو بھی بہت پسند کرتے تھے، اداکار لہری بہت بیمار تھے گلشن اقبال میں رہتے تھے، طاہر نجمی نے کہا م۔ش۔خ ! لہری بھائی سے ملنا ہے۔ میں نے ملاقات کا وقت لیا اور طاہر نجمی کے ساتھ لہری کے پاس گئے۔
میں نے طاہر بھائی کا تعارف کرایا، لہری بہت محبت سے ملے تو نجمی بھائی نے باتوں باتوں میں بتایا کہ آپ کی فلم '' نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' کے علاوہ بے شمار فلمیں دیکھیں میں آپ کو بحیثیت اداکار کے بہت پسند کرتا تھا۔ نجمی بھائی اداکار محمد علی مرحوم کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
محمد علی ہلال احمر کی تقریب میں کراچی آئے اور ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں مقیم تھے، طاہر بھائی نے ملنے کی خواہش کی، میں نے علی بھائی سے وقت لیا اور ان سے ملنے چلے گئے۔ اداکار محمد علی ، طاہر نجمی سے مل کر بہت خوش ہوئے اور کہا آپ جیسے جوانوں کی ضرورت ہے، ایک اچھی صحافت کے لیے ۔ طاہر نجمی کو لوگ سنجیدہ سمجھتے تھے وہ واقعی سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے مگر محفل میں ماحول کے مطابق گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔
ان کی شخصیت اتنی محبت بھری تھی کہ کسی کام کو انکار نہیں کرتے تھے۔ ہر ایک کی مدد کیا کرتے تھے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی تو کوئی ان سے سیکھتا۔ بظاہر سنجیدہ نظر آتے تھے مگر ایسا نہیں تھا وہ لوگوں سے بہت ہنستے بولتے تھے اور ان میں گھل مل جایا کرتے تھے۔ کراچی پریس کلب میں ایک فنکشن منعقد ہوا، انھوں نے کہا کہ م۔ش۔خ! میں چاہتا ہوں کہ تاریخی موسیقی کا پروگرام ہو، اور یوں رب نے ہماری مدد کی۔
کراچی کے بڑے فنکاروں نے بلامعاوضہ اس شو میں شرکت کرکے اس موسیقی کے پروگرام کو چار چاند لگا دیے۔ طاہر نجمی دوسری مرتبہ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری منتخب ہوئے تھے بہت اصول پسند اور ایمان دار انسان تھے۔
پریس کلب میں ممبر شپ کا آغاز ہوا، میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے آپ پریس کلب کا ممبر بنوا دیں مگر شرافت ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔ راقم اس زمانے میں ایک اچھی جاب کرتا تھا پرائیویٹ ادارے میں، انھوں نے اتنے تعلقات ہونے کے باوجود برجستہ کہا کہ ممبر شپ صرف اخبارات سے وابستہ صحافیوں کو دی جاتی ہے آپ پرائیویٹ جاب کرتے ہیں، اخبارات سے فری لانس وابستہ ہیں یہ صحافیوں کی حق تلفی ہوگی۔
لہٰذا پریس کلب کی ممبرشپ آپ کو نہیں دی جاسکتی، آپ ایسوسی ایٹ ممبر کے لیے اپلائی کریں، آپ کو یہ ممبرشپ دلا سکتا ہوں اور یوں مجھے انھوں نے ایسوسی ایٹ ممبر شپ دلوائی۔ تعلقات کو انھوں نے اہمیت نہیں دی۔ یہ غالباً 1994 کی بات ہے جب کہ میں اس زمانے میں روزنامہ ''امن'' سے وابستہ تھا اور وہ بھی ''امن'' میں تھے بلکہ روزنامہ ''امن'' میں شوبزنس کا ہیڈ تھا۔
حرمت قلم کا طاہر بھائی بہت احترام کرتے تھے چاہنے والوں کے لیے بھی وہ قواعد و ضوابط پر عمل کرتے تھے ایکسپریس میں کافی عرصہ شوبزنس سے وابستہ رہا۔ اپنے مزاج کی سنجیدگی کی وجہ سے میں سیاسی آرٹیکل لکھنا چاہتا تھا میں نے طاہر بھائی کو بتایا اور ایکسپریس میں شام کے اوقات میں ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔
مصروفیات کی وجہ سے کہا کہ گھر آجائیں اس زمانے میں وہ کراچی یونیورسٹی میں رہا کرتے تھے میں ان کے گھر گیا۔اپنا مدعا بیان کیا کہنے لگے کہ ضرورت کے تحت شوبزنس پر بھی آرٹیکل لکھ کر دینا تو ایڈیٹوریل پر پہلا آرٹیکل غالباً گلوکار مہدی حسن کے حوالے سے لکھا انھوں نے حوصلہ افزائی کی وہ آرٹیکل ایکسپریس میں بہت خوبصورتی سے پرنٹ ہوا۔
وہ اپنی مثال آپ تھے، حوصلہ افزائی اور محبت تو ان کے دامن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی حالیہ بات کر رہا ہوں جب بھی پریس کلب میں ملتے بہت ہی محبت سے ملتے۔ تعمیری اور مثبت باتیں کرتے، کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے، دلی قربت کا ہمیشہ ثبوت دیتے۔ میں نے آہوں کراہوں میں ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کو دیکھا اس میں راقم بھی اس قطار میں شامل تھا۔ رب طاہر نجمی کی مغفرت کرے ۔(آمین)