کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

یہ کہہ کر چائے والا یہ جا وہ جا اور پھر تمام حاضرین کے چہرے دیکھنے جیسے تھے


ندیم صدیقی March 17, 2023

اخبار کے دفتر میں چائے والا آیا اور وہ سامنے ہی کھڑا ہوگیا ، صاحب نے اسے ڈانٹا کہ '' کیا بالکل سامنے آکر کھڑے ہوگئے ، بد تمیز ، چلو ادھر جاؤ۔''

بے چارہ کنارے ہو گیا۔ دراصل کوئی بحث چل رہی تھی کہ اسی اثنا میں چائے والا آگیا اور بحث میں مخل ہوگیا جو 'صاحب' کو ناگوار گزرا۔ چائے والے کی کیا اوقات... وہ بے چارہ اپنا سا منہ لیے دور کھڑا رہا ، بحث چلتی رہی اور لوگوں کے حلق سے نیچے چائے بھی اترتی رہی۔ اچانک اسی بحث میں ایک مقام ایسا آیا کہ اس میں شاعری بھی در آئی۔

ایک نے کہا کہ ہر آدمی ایک کتاب ہے اور ہر دوسری کتاب سے مختلف شکل و صورت ہی کا نہیں بلکہ اپنے عمل و کردار میں بھی جدا ہوتا ہے۔ اسی دوران ایک نے کہا بھئی سنو ! قیصر الجعفری کیا اچھا شعر کہہ گئے ہیں۔

ہم اپنی زندگی کو کہاں تک سنبھالتے

اس قیمتی کتاب کا کاغذ خراب تھا

شعر پر سب نے واہ کا آوازہ بلند کیا ، مگر اس چائے والے کے چہرے پر ایک تیکھی سی مسکراہٹ ابھری اور اس نے کیبن کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا مگر دروازے پر کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف گھور کر دیکھا اور زور دار آواز میں کہا ''بہت پڑھے لکھے ہو اور کتاب کی بات کرتے ہو، تو سنو ''

دیکھ لگ جائے تکبر کی نہ دیمک تجھ کو

یہ وہ کیڑا ہے جو کردارکوکھا جاتا ہے

دیکھو ، دیکھو ذرا اپنے باطن کی طرف دیکھو کہیں کیڑے نے کھایا تو نہیں ... ! ''

یہ کہہ کر چائے والا یہ جا وہ جا اور پھر تمام حاضرین کے چہرے دیکھنے جیسے تھے۔ ہم پتہ نہیں کیوں بھول جاتے ہیں کہ نفس ہر وقت اپنا جال ہم پر ڈالنے کو تیار رہتا ہے۔

دنیا دار شخص اگر ایسا کرے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا تو مطلوب ہی دنیا ہے مگر وہ لوگ جو اپنی حرکات و سکنات ( باڈی لینگویج ) سے دیں داری کے مدعی ہوتے ہیں ، ان کے ہاں جب اپنے ہی جیسے آدمی کے لیے حقارت کا تصور ہی نہیں عمل بھی ہو تو کیا وہ غرور اور تکبر کی نشانی نہیں ہے۔

ہم نسیان کے مارے لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کس وقت ہماری میموری (یاد داشت) سے کون سی چیز اچانک Delete ہو سکتی ہے اور وہ کوئی اور نہیں ہم خود اس عمل کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

ہم سمجھے بیٹھے رہتے ہیں کہ زندگی کا سب کچھ ہمارے اختیار میں ہے، اور قدرت نے بھی ڈھیل دے رکھی ہے کہ میاں ! جاؤ سمجھتے رہو کہ یہ سب تمہارے اختیار میں ہے ، مگر کتنی دیر کا ہے یہ اختیار ؟ یہ نہیں پتہ ہوتا ... اور جب اس اختیار کی حد تمام ہوتی ہے تو ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

کوئی تین دہے ادھر کی بات ہے ، مالیگاؤں ( انڈیا ) میں مشاعرہ تھا (مرحوم) انجم رومانی کے ساتھ ہم ہی نہیں ، اس دور کے ممتاز ترقی پسند شاعر مظفر شاہجہانپوری بھی تھے اس وقت ہم ہوا کے گھوڑے پر سوار اور مظفر صاحب عصائے پیری لیے ہوئے تھے۔ مالی گاؤں میں مشاعرہ جب عروج کو پہنچا تو انجم رومانی نے مظفر شاہجہا نپوری کو خاصے احترام ، القاب و آداب کے ساتھ ہی نہیں بلکہ انھوں نے مشہور مطلع کو

قبل آغاز ہی انجام کا ڈر ہوتا ہے

دور اندیش بڑا تنگ نظر ہوتا ہے

پڑھتے ہوئے پکارا کہ '' مظفر صاحب ! آئیے ، مالیگاؤں میں ظفر مندی آپ کی منتظر ہے۔''

مظفر صاحب اپنی جگہ سے اٹھے ، مائیک کے سامنے کھڑے ہوئے ، ایک ساعت ، دو ساعت یعنی کئی ساعتیں گزر گئیں مگر وہ شخص جو بڑے بڑے مشاعرے میں اچھے اچھے شعراء کے بعد بھی اپنے کلام و انداز پیشکش سے جھنڈے گاڑ دیتا تھا ا س کے لب سے ایک شعر کیا ایک مصرع بھی نہیں پھوٹا۔ پتہ چلا کہ ہر شخص کی یاد داشت کی حد ( MemoryCapacity ) ہوتی ہے اس حد سے ہم بے خبر ہوا میں اڑتے رہتے ہیں جب یہ میموری اپنی حد کو پہنچتی ہے تو اپنی بے اختیاری کا احساس جاگتا ہے مگر وہ وقت تو... وقت تمام ... ہوتا ہے ، مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ میں رہتے ہیں اور حقیقی ظفر مندی ان کے قدموں تلے ہوتی ہے ورنہ تو ظفر مندی کے سراب میں تو ہم سب اور تا دیر گم رہتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ہمارے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں پھوٹتا ، منہ میں زبان بھی ہوتی ہے ، دھڑ پر سر بھی ہوتا ہے مگر سر میں ...!

جس اخبار میں یہ کالم چھپ رہا ہے ، اس کے ایڈیٹر طاہر نجمی گزشتہ جمعہ10 مارچ کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بیشک ہم سب جائیں گے مگر بعض جانے والے اپنے فکر و عمل سے ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ تا دیر باقی رہ جاتے ہیں۔ طاہر مرحوم سے ہماری شناسائی دیرینہ تو نہیں تھی مگر ان کے مطہر کردار کی جو روداد اخبار کے جونیئر رفقا اور شکیل فاروقی سے سنی وہ ایسی نہیں کہ بھول جائیں ، یہ یادیں ہی ہیں جو ہم میں سے بہت سوں کو مطلوب ہوتی ہیں کہ کل ہمیں اچھے لفظوں سے لوگ یاد کریں۔

کردار کا یہ وصف بڑا ورثہ ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنے عمل سے اس وراثت کو آگے بڑھا سکیں۔ اس وقت طاہر نجمی جیسے ہم سے سرگوشی کر رہے ہیں، آپ بھی سنیے:

''ہمارے معاشرے میں اکثر 'بڑے' اپنے چھوٹوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ، مگر قدرت ہمیں کل ' بڑا ' بنا دے تو ہمیں اپنے چھوٹوں کے ساتھ ہر گز وہ سلوک نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے' بڑوں' نے ہمارے ساتھ کیا ، یعنی اپنے بڑوں کے منفی عمل کو ہمیں ' مثبت عمل ' میں بدل دینا چاہیے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں