امیدوں کا مرکز مزاحمت کا استعارہ
نواز شریف اس وقت طاقتور مقتدرہ کے نمائندہ غلام اسحاق خان کو اپنے ساتھ لے کر اقتدار سے رخصت ہوئے
پاکستان کی سیاست میں مزاحمت کو لازمی جز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب ریاست میں سیاست کو شجر ممنوعہ بنایا جائے گا تو سیاسی رہنما اس رویے کے خلاف مزاحمت تو کریں گے کیونکہ ایسے حالات میں واحد راستہ بچتا ہی مزاحمت کا ہے۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے سیاستدانوں نے ہر دور میں مزاحمت کا راستہ اختیارکیے رکھا اور اس کی بھاری سے بھاری قیمت بھی ادا کی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی۔
ملک میں کی جانے والی جمہوریت کی بحالی کی طویل و صبر آزما جدوجہد ہی کا ثمر تھا اگرچہ ملک میں چار مرتبہ آمریتیں مسلط ہوئیں لیکن پاکستان کے عوام نے ہر آمر وقت کو جمہوریت کی بحالی پر مجبورکیا۔
ہر بار آمر عالمی حمایت کے باوجود سیاسی جماعتوں کی تحریک کی وجہ سے جمہوریت بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہم ملک میں بار بار جہموریت کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کو بجا طور پر پاکستان کا سیاسی ارتقاء کہہ سکتے ہیں۔
ابتدائی تین مارشل لاؤں کے خلاف ہونے والی ملک گیر مزاحمت میں صوبہ پنجاب کا کردار بہت معمولی رہا۔ اسی وجہ سے پنجاب کو ملک کے بیشتر مسائل میں ملک کی طاقتور مقتدرہ کا حصہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن 1993 کے بعد قومی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونا شروع ہوا کہ جب صوبہ پنجاب میں پیدا ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا۔
قومی اسمبلی توڑی گئی اور حکومت کو ختم کیا گیا تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر تسلیم کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نواز شریف اس وقت طاقتور مقتدرہ کے نمایندہ غلام اسحاق خان کو اپنے ساتھ لے کر اقتدار سے رخصت ہوئے۔ پنجاب کی جانب سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کا یہ پہلا موقع تھا۔اس کے بعد سے اہل پنجاب نے پہلے میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں اور اب مریم نواز کی لیڈرشپ میں ماضی کا کفارہ ادا کردیا ہے۔
میاں نواز شریف نے 1993 میں طاقتور مقتدرہ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تو 1999 میں نتائج کی پرواہ کیے ، بغیر بے پناہ بہادری کے ساتھ اسمبلی توڑنے کے پروانے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً ہائی جیکر کی حیثیت سے عدالت کا سامنا کیا ، جس کے بعد انھیں اس ناکردہ جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جو سرزد ہی نہیں ہوا تھا۔
جلاوطنی کا عذاب جھیلا لیکن سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ 2017 میں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بعد ازاں ایک ایسے مقدمے میں اقتدار سے معزول ہوئے کہ جس کا متنازع فیصلہ عدلیہ کی توقیر میں اضافے کا کبھی باعث نہ بن سکے گا۔
2018 میں اپنی سیاسی فکر سے دستبردار ہو کر لندن میں مقیم رہنے کے بجائے اپنی وفا شعار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑا اور اپنی بہادر بیٹی مریم نواز کا ہاتھ تھام کر عہد حاضر میں بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ باپ اور بیٹی دونوں اس شان سے زنداں گئے کہ اہل پنجاب کا ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے اہل پاکستان کے سر فخر سے بلند ہوگئے۔
نواز شریف اپنے علاج معالجہ کے باعث بیرون ملک گئے تو مریم نواز نے اس خلا کو انتہائی جرآت و بہادری کے ساتھ پر کردیا۔ مریم نواز بلا کسی جرم پابند سلاسل ہوئیں۔
انھوں نے جس بہادری سے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانی پیش کی وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ بعد ازاں مریم نواز نے اپنی سیاسی فکر اور طرزِ عمل سے ثابت کیا کہ وہ اپنے والد میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں۔
مریم نواز نے بہت دلیری سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جارحانہ انداز میں جمہوریت پر شب خون مارنے کا حساب طلب کیا تو اس طرزِ عمل نے ان کو عہد حاضر کے سیاسی رہنماؤں میں ممتاز بنا دیا۔
مریم نواز نے گزشتہ چند برسوں میں جس بہادری کے ساتھ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے ضمن میں اپنی بے مثال قربانیوں سے عبارت جدوجہد کی ہے آج وہ اسی کی بدولت ملک میں سیاسی مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر عوام حبیب جالب نے مشہور زمانہ نظم لکھی کہ
جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کے پاکستان چلا
ان اشعار کے ذریعے حبیب جالب نے اہلِ پنجاب کے مصالحانہ طرزِ عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ آج اگر شاعر عوام حبیب جالب حیات ہوتے تو وہ نواز شریف کی قیادت اور مریم نواز کی لیڈر شپ میں ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے دی جانے والی پنجاب کی بیش بہا خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے اور اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ یقیناً مریم نواز کے شانہ بشانہ جمہوریت کی بحالی اور اس کے فروغ کی جدوجہد میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے اور عزم کو مزید توانائی بخشنے کے لیے نظمیں اور نغمات بھی تحریر کررہے ہوتے۔
نواز شریف اور ان کی بہادر بیٹی مریم نواز نے جمہوریت پسندوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ آج اہل پنجاب نے ان کی ولولہ انگیز قیادت میں ماضی کی مصالحت پسند پالیسی کا قرض ادا کردیا ہے۔ آج پنجاب چھوٹے صوبوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑا ہے۔
درحقیقت یہی پاکستان کا سیاسی ارتقاء ہے کہ منفی قوتوں کی تمام تر سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود سیاست دان اپنی ثابت قدمی اور مثبت کردار کی بدولت قوم میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک اور پنجاب کے جارحانہ سیاسی کردار کے لیے مریم نواز نے بیش بہا، شاندار اور تاریخی جدوجہد کی ہے۔ مریم نواز بجا طور پر مزاحمت کا استعارہ اور قوم کی امیدوں کا مرکز و محور ہیں۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے سیاستدانوں نے ہر دور میں مزاحمت کا راستہ اختیارکیے رکھا اور اس کی بھاری سے بھاری قیمت بھی ادا کی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی۔
ملک میں کی جانے والی جمہوریت کی بحالی کی طویل و صبر آزما جدوجہد ہی کا ثمر تھا اگرچہ ملک میں چار مرتبہ آمریتیں مسلط ہوئیں لیکن پاکستان کے عوام نے ہر آمر وقت کو جمہوریت کی بحالی پر مجبورکیا۔
ہر بار آمر عالمی حمایت کے باوجود سیاسی جماعتوں کی تحریک کی وجہ سے جمہوریت بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہم ملک میں بار بار جہموریت کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کو بجا طور پر پاکستان کا سیاسی ارتقاء کہہ سکتے ہیں۔
ابتدائی تین مارشل لاؤں کے خلاف ہونے والی ملک گیر مزاحمت میں صوبہ پنجاب کا کردار بہت معمولی رہا۔ اسی وجہ سے پنجاب کو ملک کے بیشتر مسائل میں ملک کی طاقتور مقتدرہ کا حصہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن 1993 کے بعد قومی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونا شروع ہوا کہ جب صوبہ پنجاب میں پیدا ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا۔
قومی اسمبلی توڑی گئی اور حکومت کو ختم کیا گیا تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر تسلیم کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نواز شریف اس وقت طاقتور مقتدرہ کے نمایندہ غلام اسحاق خان کو اپنے ساتھ لے کر اقتدار سے رخصت ہوئے۔ پنجاب کی جانب سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کا یہ پہلا موقع تھا۔اس کے بعد سے اہل پنجاب نے پہلے میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں اور اب مریم نواز کی لیڈرشپ میں ماضی کا کفارہ ادا کردیا ہے۔
میاں نواز شریف نے 1993 میں طاقتور مقتدرہ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تو 1999 میں نتائج کی پرواہ کیے ، بغیر بے پناہ بہادری کے ساتھ اسمبلی توڑنے کے پروانے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً ہائی جیکر کی حیثیت سے عدالت کا سامنا کیا ، جس کے بعد انھیں اس ناکردہ جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جو سرزد ہی نہیں ہوا تھا۔
جلاوطنی کا عذاب جھیلا لیکن سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ 2017 میں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بعد ازاں ایک ایسے مقدمے میں اقتدار سے معزول ہوئے کہ جس کا متنازع فیصلہ عدلیہ کی توقیر میں اضافے کا کبھی باعث نہ بن سکے گا۔
2018 میں اپنی سیاسی فکر سے دستبردار ہو کر لندن میں مقیم رہنے کے بجائے اپنی وفا شعار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑا اور اپنی بہادر بیٹی مریم نواز کا ہاتھ تھام کر عہد حاضر میں بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ باپ اور بیٹی دونوں اس شان سے زنداں گئے کہ اہل پنجاب کا ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے اہل پاکستان کے سر فخر سے بلند ہوگئے۔
نواز شریف اپنے علاج معالجہ کے باعث بیرون ملک گئے تو مریم نواز نے اس خلا کو انتہائی جرآت و بہادری کے ساتھ پر کردیا۔ مریم نواز بلا کسی جرم پابند سلاسل ہوئیں۔
انھوں نے جس بہادری سے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانی پیش کی وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ بعد ازاں مریم نواز نے اپنی سیاسی فکر اور طرزِ عمل سے ثابت کیا کہ وہ اپنے والد میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں۔
مریم نواز نے بہت دلیری سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جارحانہ انداز میں جمہوریت پر شب خون مارنے کا حساب طلب کیا تو اس طرزِ عمل نے ان کو عہد حاضر کے سیاسی رہنماؤں میں ممتاز بنا دیا۔
مریم نواز نے گزشتہ چند برسوں میں جس بہادری کے ساتھ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے ضمن میں اپنی بے مثال قربانیوں سے عبارت جدوجہد کی ہے آج وہ اسی کی بدولت ملک میں سیاسی مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر عوام حبیب جالب نے مشہور زمانہ نظم لکھی کہ
جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کے پاکستان چلا
ان اشعار کے ذریعے حبیب جالب نے اہلِ پنجاب کے مصالحانہ طرزِ عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ آج اگر شاعر عوام حبیب جالب حیات ہوتے تو وہ نواز شریف کی قیادت اور مریم نواز کی لیڈر شپ میں ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے دی جانے والی پنجاب کی بیش بہا خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے اور اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ یقیناً مریم نواز کے شانہ بشانہ جمہوریت کی بحالی اور اس کے فروغ کی جدوجہد میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے اور عزم کو مزید توانائی بخشنے کے لیے نظمیں اور نغمات بھی تحریر کررہے ہوتے۔
نواز شریف اور ان کی بہادر بیٹی مریم نواز نے جمہوریت پسندوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ آج اہل پنجاب نے ان کی ولولہ انگیز قیادت میں ماضی کی مصالحت پسند پالیسی کا قرض ادا کردیا ہے۔ آج پنجاب چھوٹے صوبوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑا ہے۔
درحقیقت یہی پاکستان کا سیاسی ارتقاء ہے کہ منفی قوتوں کی تمام تر سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود سیاست دان اپنی ثابت قدمی اور مثبت کردار کی بدولت قوم میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک اور پنجاب کے جارحانہ سیاسی کردار کے لیے مریم نواز نے بیش بہا، شاندار اور تاریخی جدوجہد کی ہے۔ مریم نواز بجا طور پر مزاحمت کا استعارہ اور قوم کی امیدوں کا مرکز و محور ہیں۔