رمضان المبارک اور قرآن کریم
(یہ) وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس (کے کلام اﷲ ہونے) میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ مُتّقین کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ)
رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کو ہدایت دینے والا اور روشن دلیلیں ہدایت دینے والی اور حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا۔'' (البقرہ)
ماہِ رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے انسان کی زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ''اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔''
قرآن کا مقصد ہدایت اور تقویٰ عطا کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم: ''(یہ) وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس (کے کلام اﷲ ہونے) میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ مُتّقین کے لیے ہدایت ہے۔'' (البقرہ)
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام اور انوار و تجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع و سرچشمہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادّی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے۔
اَروَاحِ بشریہ میں اُن انوار و تجلّیات ِ الٰہیہ کے ظہور سے رحجاباتِ بشریہ مانع ہوتے ہیں۔ ان رحجابات کے زوال اور کشف کا اعلیٰ ترین ذریعہ روزہ ہے۔ یہی بندے کے لیے قرآن اور رمضان کے عملی رشتے کو مضبوط تر بناتا ہے۔
قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو قوموں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔
ہماری سوچ کیوں کر محدود ہوگئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ ، بیمار پر اِس سے ہوا کردی، بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لیے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھا لیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی واسطہ ہے۔۔۔۔ ؟ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن قرآن حکیم کا اصل مقصد تو غور و فکر کرنا ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے۔
اسلام کا یہ نظریہ ہرگز نہیں کہ جسے ہمارے معاشرے میں اپنا لیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم : ''توکیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔'' پھر ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ جیسی سخت جان شے ہمارے خوف سے ریزہ ریزہ ہوتی دکھائی دیتی ، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''اگرہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو (اے مخاطب!) ضرور تُو اُسے جھکتا ہوا۔
اﷲ کے خوف سے پھٹا ہوا دیکھتا۔'' (الحشر) انسان کے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا، مفہوم:'' بے شک! ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔
بے شک! وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا۔'' (احزاب) تشریح : ظلم کی تعریف: وضع الشیٔ الی غیر محلہ (کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے) اس آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوتِ برداشت ہے یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔ جہل کے معنی بے خبر اور غافل ہونے کے ہیں یعنی کسی اور نے یہ بوجھ کیوں نہ اٹھایا، اس سے غافل ہوکر انسان نے اِس بوجھ کو اٹھا لیا۔
رسول اﷲ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں، حضرت عبداﷲ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' (روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے۔
روزے عرض کریں گے: اے رب العزت! میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما اور قرآن یہ عرض کرے گا: مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔'' (بیہقی)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: نماز میں قرآن کی تلاوت کرنا، غیر نماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کی تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے اور صدقہ کرنا روزے سے افضل ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اﷲ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو صبح و شا م زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ (صحیح بخاری)
اُسوۂ رسول ﷺ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں، غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمربستہ نہیں ہوسکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔
رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے، لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کی نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔
اِن سارے حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر ظاہر ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔
شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں، فحاشی کا ایک سیلاب اُمڈ آتا ہے، جب کہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے عیدالفظر اور عید الاضحی کی دونوں راتوں میں اﷲتعالیٰ کی ذات سے اجر کی امید پر نفلی عبادت کے لیے قیام کیا تو جس دن بدعملوں کے دلوں کی موت واقع ہوگی، اس کا دل نہیں مرے گا۔'' (ابن ماجہ) یعنی اس کا دل ایمان اور اﷲ تعالیٰ کے عرفان اور اس کے نبی ﷺ کی محبت سے منور رہے گا۔
کاش! ہم ویسے ہوجائیں جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خود فریبی جیسی صفاتِ رذیلہ دور ہوجائیں۔
نیکی کا جذبہ سارے جذبات پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن و محبت ہمارا شِعار بن جائے، تعمیر و ترقی ہماری سوچ بن جائے۔ پھر ہم بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ سکتے ہیں۔
ماہِ رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے انسان کی زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ''اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔''
قرآن کا مقصد ہدایت اور تقویٰ عطا کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم: ''(یہ) وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس (کے کلام اﷲ ہونے) میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، یہ مُتّقین کے لیے ہدایت ہے۔'' (البقرہ)
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام اور انوار و تجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع و سرچشمہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادّی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے۔
اَروَاحِ بشریہ میں اُن انوار و تجلّیات ِ الٰہیہ کے ظہور سے رحجاباتِ بشریہ مانع ہوتے ہیں۔ ان رحجابات کے زوال اور کشف کا اعلیٰ ترین ذریعہ روزہ ہے۔ یہی بندے کے لیے قرآن اور رمضان کے عملی رشتے کو مضبوط تر بناتا ہے۔
قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو قوموں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔
ہماری سوچ کیوں کر محدود ہوگئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ ، بیمار پر اِس سے ہوا کردی، بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لیے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھا لیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی واسطہ ہے۔۔۔۔ ؟ یہ بھی اچھی بات ہے لیکن قرآن حکیم کا اصل مقصد تو غور و فکر کرنا ہے اسی لیے اﷲ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے۔
اسلام کا یہ نظریہ ہرگز نہیں کہ جسے ہمارے معاشرے میں اپنا لیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم : ''توکیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔'' پھر ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ جیسی سخت جان شے ہمارے خوف سے ریزہ ریزہ ہوتی دکھائی دیتی ، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''اگرہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو (اے مخاطب!) ضرور تُو اُسے جھکتا ہوا۔
اﷲ کے خوف سے پھٹا ہوا دیکھتا۔'' (الحشر) انسان کے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا، مفہوم:'' بے شک! ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔
بے شک! وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا۔'' (احزاب) تشریح : ظلم کی تعریف: وضع الشیٔ الی غیر محلہ (کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے) اس آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوتِ برداشت ہے یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔ جہل کے معنی بے خبر اور غافل ہونے کے ہیں یعنی کسی اور نے یہ بوجھ کیوں نہ اٹھایا، اس سے غافل ہوکر انسان نے اِس بوجھ کو اٹھا لیا۔
رسول اﷲ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں، حضرت عبداﷲ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' (روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے۔
روزے عرض کریں گے: اے رب العزت! میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما اور قرآن یہ عرض کرے گا: مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔'' (بیہقی)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: نماز میں قرآن کی تلاوت کرنا، غیر نماز میں تلاوت کرنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کی تلاوت کرنا تسبیح و تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے اور صدقہ کرنا روزے سے افضل ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اﷲ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو صبح و شا م زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ (صحیح بخاری)
اُسوۂ رسول ﷺ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں، غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمربستہ نہیں ہوسکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔
رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے، لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کی نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔
اِن سارے حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر ظاہر ہوں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔
شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں، فحاشی کا ایک سیلاب اُمڈ آتا ہے، جب کہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس نے عیدالفظر اور عید الاضحی کی دونوں راتوں میں اﷲتعالیٰ کی ذات سے اجر کی امید پر نفلی عبادت کے لیے قیام کیا تو جس دن بدعملوں کے دلوں کی موت واقع ہوگی، اس کا دل نہیں مرے گا۔'' (ابن ماجہ) یعنی اس کا دل ایمان اور اﷲ تعالیٰ کے عرفان اور اس کے نبی ﷺ کی محبت سے منور رہے گا۔
کاش! ہم ویسے ہوجائیں جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خود فریبی جیسی صفاتِ رذیلہ دور ہوجائیں۔
نیکی کا جذبہ سارے جذبات پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن و محبت ہمارا شِعار بن جائے، تعمیر و ترقی ہماری سوچ بن جائے۔ پھر ہم بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ سکتے ہیں۔