چلا آتا ہے رمضان الکریم۔۔۔
خواتین اس بابرکت مہینے میں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اعمال صالح سے مستفید ہوں
ماہِ صیام بس آیا ہی چاہتا ہے جس میں اﷲ کی رحمتوں کی گھٹا چھاتی ہے تو موسلا دھار برسات ہی کی طرح برستی ہے۔
چوں کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس کے تمام احکامات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں تو یہ ماہِ مبارک ہمیں نیکیاں عام کرنے اور برائیوں کے تدارک کا درس دیتا ہے۔ اسلام دین اعتدال ہے اور ہمیں میانہ روی کا بھی حکم دیتا ہے۔
اس کے ہر رُکن عبادت میں یہی درس دیا گیا ہے، نیز اﷲ کے آخری رسول ﷺ کا اسوۂ حسنہ بھی ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین درس دیتا ہے۔
آپ ﷺ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہم زندگی، معتدل مزاج کے ساتھ بسر کریں۔ یہ امت رسول ﷺ تو امت وسط کہلاتی ہے، اس لیے اس امت کا ہر عمل، اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کثرت خواہ کسی بھی چیز کی ہو، قابلِ گرفت ہوتی ہے، تو انسانی صحت کے لیے کثرت طعام، کثرت کلام اور کثرت منام تینوں ہی انتہائی نقصان دہ ہیں۔
جسمانی ضرورت سے زیادہ کھانے سے جسم بے شمار بیماریوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ کثرت کلام بعض اوقات انسانی رشتوں میں قطع تعلق تک کی بنیاد بن جاتا ہے اور کثرت منام یعنی زیادہ سونا سستی اور کاہلی کا سبب بنتا ہے۔
رمضان المبارک نیکیوں کو موسم بہار ہے، جس میں انوارِ رحمت کی برکھا سے فائدہ اٹھائے ہوئے تمام کثرتوں کو قلت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس موسم کا صحیح لطف وہی اٹھاتے ہیں، جو تزکیۂ نفس کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ خواتین جو خوش خوراک ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہیں، ان کے لیے روزہ انتہائی مفید ہے۔
اس لیے کہ وہ کسی کلینک میں جائے بغیر، گھر بیٹھے اپنا وزن کنٹرول کرسکتی ہیں۔ ماہِ رمضان کے روزے، اُن کی ہر وقت کی کھانے پینے کی عادت پر کافی حد تک قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ، موقع بے موقع، ہر وقت اور ہر جگہ بولنے والی خواتین کی زبان بندی کے لیے بھی یہ انتہائی محرّب نسخہ ہے۔
انسانی اعضائے جسم میں زبان ہی وہ عضو ہے، جو برائیوں کا سبب ہے۔ اگر یہ قابو میں رہے تو تمام اعضاء عافیت میں رہتے ہیں اور اگر اسی پر قابو نہ رہے تو انسان کے دیگر تمام اعضاء بھی گناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
گوشت کا یہ چھوٹا سا لوتھڑا دوسروں کی دل آزاری، تضحیک، طعن و تشنیع، بدخوئی، غیبت اور گالم گلوچ میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر محض اس کی رفتار پر قابو پالیا جائے تو معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زبان پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ یہ ایسا خود احتسابی اور ضبط نفس کا مہینہ ہے جس میں ہم اپنی کم زوریوں پر قابو پاسکتے ہیں اور اس کا حکم دیا گیا ہے، جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولا اور غیبت کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو ایسے بندے کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اگر کوئی برائی پر اکسائے ، جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ ''میں روزہ سے ہوں'' یعنی اب مجھ سے کسی برائی کی توقع نہ رکھی جائے۔
یہ ماہ ِ مبارک خواتین کے لیے باعثِ رحمت ہے اگر وہ قلیل طعام ، مختصر گفت گُو اور عبادت و قیام اللّیل سے ذہنی اور جسمانی آسودگی حاصل کریں۔
وہ خواتین جو بہت زیادہ غیبت یا بدگمانی کرنے کی عادی ہیں، ان کے لیے زبان کو ایک ماہ تک روک کر رکھنا بڑا مشکل ہوجائے گا، مگر اس پر ایک ماہ تک سختی سے قابو پالیا تو اﷲ تعالیٰ سے امید رکھیں کہ وہ آئندہ بھی اس برائی سے نجات دے گا۔
غیبت وہ برائی ہے جسے عموماً خواتین برائی نہیں سمجھتیں اور یہ کہہ کر ''میں تو کرتی ہوں کھری بات، چاہے کسی کے لگے آگ '' دوسرے کی عزت سرِعام نیلام کردیتی ہیں اور اس کے عوض مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتیں۔
خواتین کے لیے نیکی کے کاموں میں مسابقت کا یہ سنہری موقع ہے کہ صبح سے شام تک سحر و افطار کی تیاری کے ساتھ قرآن مجید ترجمے سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات دیں۔ نوافل ادا کریں، روزے دار کا روزہ کھلوائیں، خوش نصیب ہیں وہ خواتین جو ان لمحات سے فائدہ اٹھا کر اﷲ کی قربت کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں اور عبادتوں، ریاضتوں کے ذریعے پاکیزگی نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
عام طور پر خواتین کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ دن بھر کھانا پکانے اور افطار کے لیے مختلف پکوان تیار کرنے ہی میں سارا دن گزار دیتی ہیں اور روزے کے بعد عید کی تیاری اور اس کی خریداری میں بقیہ وقت صَرف کرتی ہیں۔ نتیجتاً بالیدگی روح اور اﷲ کی نعمتوں کی قدر و قیمت نہ جانتے ہوئے، اَن جانے میں عطائے الٰہی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
آپ اس عادت کو سختی سے مسترد کردیں اور اپنی دنیاوی مصروفیات کم کرکے قربت الی اﷲ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے خلوص اور تقویٰ اور خشیت الٰہی کے ساتھ سحر و افطار کا اہتمام کریں۔ کیوں کہ اپنے ہر فرض کی مکمل ایمان داری سے ادائی بھی عبادت ہے۔ دن کا بیشتر حصہ قرآن کی تلاوت میں صَرف کریں۔
زیادہ سے زیادہ غریبوں کی مدد کریں۔ تہجد، تراویح اور قیام اللّیل کی پابندی کریں اور اس حدیث قدسی کو ذہن میں رکھیں کہ رمضان کے دنوں میں نفلی اعمال و عبادت سے قربت الٰہی کا وہ درجہ ملتا ہے، جو عام دنوں میں کسی فرض کی ادائی سے ملتا ہے اور جو شخص رمضان میں ایک فرض ادا کرتا ہے، اسے ستّر فرائض کے برابر اجر و ثواب دیا جاتا ہے۔
اس ماہ میں صدقہ و خیرات کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ آپ ﷺ اس ماہ مبارک میں دیگر مہینوں سے زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ مستحقین کی امداد دل کھول کر کیجیے۔
اپنے اور اپنے بچوں کے عید کے چار جوڑوں کے بہ جائے صرف دو جوڑے بنائیں اور دو جوڑے اُن یتیم اور بے گھر اور بے در بچوں کو بھجوادیں، جن کے سرپرست مجبور و بے کس ہیں۔ آپ کی خلوص نیت اور خوش دلی سے کی جانے والی یہ تھوڑی سی امداد بہت سے بچوں کی آنکھوں میں عید کی خوشیوں کی چمک پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
رمضان کے روزوں میں سحری کے لیے اٹھنا، افطار کی تیاری کرنا، تہجد، تراویح کا اہتمام کرنا بھی خواتین کے لیے روحانی مدارج میں اضافے کا سبب ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا، روح اور جسم دونوں کے لیے قربتِ الٰہی کی ایک عملی مشق ہے، جو ہمیں اﷲ کی کامل اطاعت اور تعلیمات شریعت کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خواتین اس بابرکت مہینے میں پورے اطمینان و قلب کے ساتھ اعمال صالح سے مستفید ہوں۔ نیکیوں کی برکھا کا پورا فائدہ اٹھائیں اور اجر و ثواب میں پورا پورا معاوضہ اپنے رب سے وصول کریں۔
آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ''شب قدر'' بھی ہے جس میں ایک رات کی عبادت کا ثواب، ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس لیے اس عشرے میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے باورچی خانے میں افطار اور سحر کا اہتمام کرتے ہوئے مسنون دعاؤں کا ورد اپنی زبان پر جاری رکھیں۔ شبِ قدر میں نوافل، صلوٰۃ التسبیح، تہجد، تلاوت کلام پاک کو اپنا معمول بنائیں۔
یاد رکھیں! یہ ایک ایسا مقدس مہینہ ہے ، جس میں روزے کے ذریعے ہمارے اندر مخلصانہ بندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جواہر اخلاق نکھر جاتے ہیں۔
مسلسل مشق سے ضمیر میں پاکیزگی، ضبط نفس اور صبر و استقامت پیدا ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور نیکیوں کے اس موسم بہار کے ہر ایک لمحے سے مستفید ہونے کی توفیق عطا کرے اور اس کے جھونکے ہمارے جسم و جاں کو معطّر کرتے رہیں۔
چوں کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس کے تمام احکامات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں تو یہ ماہِ مبارک ہمیں نیکیاں عام کرنے اور برائیوں کے تدارک کا درس دیتا ہے۔ اسلام دین اعتدال ہے اور ہمیں میانہ روی کا بھی حکم دیتا ہے۔
اس کے ہر رُکن عبادت میں یہی درس دیا گیا ہے، نیز اﷲ کے آخری رسول ﷺ کا اسوۂ حسنہ بھی ہمیں زندگی گزارنے کا بہترین درس دیتا ہے۔
آپ ﷺ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہم زندگی، معتدل مزاج کے ساتھ بسر کریں۔ یہ امت رسول ﷺ تو امت وسط کہلاتی ہے، اس لیے اس امت کا ہر عمل، اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کثرت خواہ کسی بھی چیز کی ہو، قابلِ گرفت ہوتی ہے، تو انسانی صحت کے لیے کثرت طعام، کثرت کلام اور کثرت منام تینوں ہی انتہائی نقصان دہ ہیں۔
جسمانی ضرورت سے زیادہ کھانے سے جسم بے شمار بیماریوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ کثرت کلام بعض اوقات انسانی رشتوں میں قطع تعلق تک کی بنیاد بن جاتا ہے اور کثرت منام یعنی زیادہ سونا سستی اور کاہلی کا سبب بنتا ہے۔
رمضان المبارک نیکیوں کو موسم بہار ہے، جس میں انوارِ رحمت کی برکھا سے فائدہ اٹھائے ہوئے تمام کثرتوں کو قلت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس موسم کا صحیح لطف وہی اٹھاتے ہیں، جو تزکیۂ نفس کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ خواتین جو خوش خوراک ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی ہیں، ان کے لیے روزہ انتہائی مفید ہے۔
اس لیے کہ وہ کسی کلینک میں جائے بغیر، گھر بیٹھے اپنا وزن کنٹرول کرسکتی ہیں۔ ماہِ رمضان کے روزے، اُن کی ہر وقت کی کھانے پینے کی عادت پر کافی حد تک قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ، موقع بے موقع، ہر وقت اور ہر جگہ بولنے والی خواتین کی زبان بندی کے لیے بھی یہ انتہائی محرّب نسخہ ہے۔
انسانی اعضائے جسم میں زبان ہی وہ عضو ہے، جو برائیوں کا سبب ہے۔ اگر یہ قابو میں رہے تو تمام اعضاء عافیت میں رہتے ہیں اور اگر اسی پر قابو نہ رہے تو انسان کے دیگر تمام اعضاء بھی گناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
گوشت کا یہ چھوٹا سا لوتھڑا دوسروں کی دل آزاری، تضحیک، طعن و تشنیع، بدخوئی، غیبت اور گالم گلوچ میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر محض اس کی رفتار پر قابو پالیا جائے تو معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زبان پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ یہ ایسا خود احتسابی اور ضبط نفس کا مہینہ ہے جس میں ہم اپنی کم زوریوں پر قابو پاسکتے ہیں اور اس کا حکم دیا گیا ہے، جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولا اور غیبت کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو ایسے بندے کا کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اگر کوئی برائی پر اکسائے ، جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ ''میں روزہ سے ہوں'' یعنی اب مجھ سے کسی برائی کی توقع نہ رکھی جائے۔
یہ ماہ ِ مبارک خواتین کے لیے باعثِ رحمت ہے اگر وہ قلیل طعام ، مختصر گفت گُو اور عبادت و قیام اللّیل سے ذہنی اور جسمانی آسودگی حاصل کریں۔
وہ خواتین جو بہت زیادہ غیبت یا بدگمانی کرنے کی عادی ہیں، ان کے لیے زبان کو ایک ماہ تک روک کر رکھنا بڑا مشکل ہوجائے گا، مگر اس پر ایک ماہ تک سختی سے قابو پالیا تو اﷲ تعالیٰ سے امید رکھیں کہ وہ آئندہ بھی اس برائی سے نجات دے گا۔
غیبت وہ برائی ہے جسے عموماً خواتین برائی نہیں سمجھتیں اور یہ کہہ کر ''میں تو کرتی ہوں کھری بات، چاہے کسی کے لگے آگ '' دوسرے کی عزت سرِعام نیلام کردیتی ہیں اور اس کے عوض مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتیں۔
خواتین کے لیے نیکی کے کاموں میں مسابقت کا یہ سنہری موقع ہے کہ صبح سے شام تک سحر و افطار کی تیاری کے ساتھ قرآن مجید ترجمے سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات دیں۔ نوافل ادا کریں، روزے دار کا روزہ کھلوائیں، خوش نصیب ہیں وہ خواتین جو ان لمحات سے فائدہ اٹھا کر اﷲ کی قربت کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں اور عبادتوں، ریاضتوں کے ذریعے پاکیزگی نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
عام طور پر خواتین کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ دن بھر کھانا پکانے اور افطار کے لیے مختلف پکوان تیار کرنے ہی میں سارا دن گزار دیتی ہیں اور روزے کے بعد عید کی تیاری اور اس کی خریداری میں بقیہ وقت صَرف کرتی ہیں۔ نتیجتاً بالیدگی روح اور اﷲ کی نعمتوں کی قدر و قیمت نہ جانتے ہوئے، اَن جانے میں عطائے الٰہی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
آپ اس عادت کو سختی سے مسترد کردیں اور اپنی دنیاوی مصروفیات کم کرکے قربت الی اﷲ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے خلوص اور تقویٰ اور خشیت الٰہی کے ساتھ سحر و افطار کا اہتمام کریں۔ کیوں کہ اپنے ہر فرض کی مکمل ایمان داری سے ادائی بھی عبادت ہے۔ دن کا بیشتر حصہ قرآن کی تلاوت میں صَرف کریں۔
زیادہ سے زیادہ غریبوں کی مدد کریں۔ تہجد، تراویح اور قیام اللّیل کی پابندی کریں اور اس حدیث قدسی کو ذہن میں رکھیں کہ رمضان کے دنوں میں نفلی اعمال و عبادت سے قربت الٰہی کا وہ درجہ ملتا ہے، جو عام دنوں میں کسی فرض کی ادائی سے ملتا ہے اور جو شخص رمضان میں ایک فرض ادا کرتا ہے، اسے ستّر فرائض کے برابر اجر و ثواب دیا جاتا ہے۔
اس ماہ میں صدقہ و خیرات کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ آپ ﷺ اس ماہ مبارک میں دیگر مہینوں سے زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ مستحقین کی امداد دل کھول کر کیجیے۔
اپنے اور اپنے بچوں کے عید کے چار جوڑوں کے بہ جائے صرف دو جوڑے بنائیں اور دو جوڑے اُن یتیم اور بے گھر اور بے در بچوں کو بھجوادیں، جن کے سرپرست مجبور و بے کس ہیں۔ آپ کی خلوص نیت اور خوش دلی سے کی جانے والی یہ تھوڑی سی امداد بہت سے بچوں کی آنکھوں میں عید کی خوشیوں کی چمک پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
رمضان کے روزوں میں سحری کے لیے اٹھنا، افطار کی تیاری کرنا، تہجد، تراویح کا اہتمام کرنا بھی خواتین کے لیے روحانی مدارج میں اضافے کا سبب ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا، روح اور جسم دونوں کے لیے قربتِ الٰہی کی ایک عملی مشق ہے، جو ہمیں اﷲ کی کامل اطاعت اور تعلیمات شریعت کی تعمیل پر مجبور کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خواتین اس بابرکت مہینے میں پورے اطمینان و قلب کے ساتھ اعمال صالح سے مستفید ہوں۔ نیکیوں کی برکھا کا پورا فائدہ اٹھائیں اور اجر و ثواب میں پورا پورا معاوضہ اپنے رب سے وصول کریں۔
آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ''شب قدر'' بھی ہے جس میں ایک رات کی عبادت کا ثواب، ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس لیے اس عشرے میں اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے باورچی خانے میں افطار اور سحر کا اہتمام کرتے ہوئے مسنون دعاؤں کا ورد اپنی زبان پر جاری رکھیں۔ شبِ قدر میں نوافل، صلوٰۃ التسبیح، تہجد، تلاوت کلام پاک کو اپنا معمول بنائیں۔
یاد رکھیں! یہ ایک ایسا مقدس مہینہ ہے ، جس میں روزے کے ذریعے ہمارے اندر مخلصانہ بندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جواہر اخلاق نکھر جاتے ہیں۔
مسلسل مشق سے ضمیر میں پاکیزگی، ضبط نفس اور صبر و استقامت پیدا ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور نیکیوں کے اس موسم بہار کے ہر ایک لمحے سے مستفید ہونے کی توفیق عطا کرے اور اس کے جھونکے ہمارے جسم و جاں کو معطّر کرتے رہیں۔