خصوصی عدالت کا دائرہ اختیار صرف پرویزمشرف کے خلاف کیس تک محدود ہے جسٹس فیصل عرب
مارچ 1956 سے مقدمات نہیں کھول سکتے، سربراہ خصوصی عدالت
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا ہے کہ عدالت کا اختیار سماعت صرف اس کیس تک محدود ہے، مارچ 1956 سے مقدمات نہیں کھول سکتے۔
جسٹس فیصل عرب، جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاورعلی خان پر مشتمل خصوصی عدالت نے سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت نیشنل لائبریری کی بجائے وفاقی شرعی عدالت میں کی، سماعت کے آغاز پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق درخواست کا فیصلہ 18 اپریل کو سنائے گی، جس کے بعد پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے استدعا کی کہ غیر آئینی اقدامات میں پرویز مشرف کےساتھیوں اور معاونین کو ٹرائل میں شامل کرنے کی درخواست پر عدالت 11 مارچ کو نوٹس جاری کرچکی لیکن استغاثہ نے نہ اس بات پراعتراض جمع کرایا اور نہ کوئی جواب داخل کیا۔ انہیں اس درخواست پر دلائل کے لئے مزید وقت دیا جائے، جس پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ کی جانب سے درخواست کی مخالفت میں اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے صرف درخواست کی نقل فراہم کرنے کاحکم دیا تھا اس سلسلے میں نوٹس جاری نہیں کیا۔ پرویز مشرف کی عدم حاضری میں تمام درخواستیں نمٹائی جاچکیں، کیس کی سماعت 2 ہفتوں بعد ہورہی ہے اس لئے وہ مزید وقت دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔
بعد ازاں بیرسٹر فروغ نسیم نے پرویز مشرف کے معاونین کو بھی ٹرائل میں شامل کرنے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام پر صرف ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق 1956 سے ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی بھی ضمانت دی گئی ہے، اس لئے ان تمام افراد کو بھی نوٹس جاری کرکے ٹرائل میں شامل کیا جائے جنہوں نے ان اقدامات پر عمل کرایا، 3 نومبر 2007 کو جاری کئے گئے نوٹی فکیشن میں ان افراد کا ذکر موجود ہے جن سے پرویز مشرف نے مشاورت کی۔ استغاثہ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ نوٹی فکیشن میں درج ناموں کے بارے میں یہ ثابت کریں کہ یہ افراد 3نومبر کے اقدامات میں ملوث نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی اور رپورٹ میں ان افراد سے انکوائری کا ذکر بھی موجود نہیں، انکوائری ٹیم کےایک رکن حسین اصغر نے اس سلسلے میں اختلافی نوٹ لکھا جسے شامل نہیں کیا گیا، استغاثہ بتائے کہ اختلافی نوٹ چھپانے کا کیا مقصد ہے۔ وہ عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ کی نقل فراہم کرنے کا حکم جاری کرے۔ جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا اختیار سماعت صرف اس کیس تک محدود ہے،عدالت مارچ 1956 سے مقدمات نہیں کھول سکتی۔
فروغ نسیم کے دلائل کے جواب میں وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے کہا کہ فروغ نسیم جتنے دن چاہیں ان پر جرح کریں تاہم یہ درخواست مفروضے پر مبنی ہے،اس قسم کی درخواست پہلے بھی آ چکی ہے اور عدالت اس بارے میں 7 مارچ کو اپنا حکم جاری کر چکی، انہوں نے کہا کہ حسین اصغر کا نام گواہوں کی فہرست میں شامل ہے،عدالت انہیں قانون کے برعکس کوئی حکم نہیں دے سکتی، ملزم پر آئین توڑنے کا الزام ہے اور اس سلسلے میں ان ہی کے دو وکلا سے بھی تفتیش کی گئی ہے لیکن وہ ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتے، یہ مقدمہ زبانی شہادت کا مقدمہ نہیں دستاویزی شہادت کا مقدمہ ہے، جس میں ہر دستاویزی شہادت پیش کی جائے گی، وکلا صفائی کو عدالت کو کہانیاں نہیں سنانی چاہئیں، ٹرائل کے دوران کسی کے بھی خلاف شہادت آتی ہے تو استغاثہ اسے نہیں روکے گا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
جسٹس فیصل عرب، جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاورعلی خان پر مشتمل خصوصی عدالت نے سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت نیشنل لائبریری کی بجائے وفاقی شرعی عدالت میں کی، سماعت کے آغاز پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق درخواست کا فیصلہ 18 اپریل کو سنائے گی، جس کے بعد پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے استدعا کی کہ غیر آئینی اقدامات میں پرویز مشرف کےساتھیوں اور معاونین کو ٹرائل میں شامل کرنے کی درخواست پر عدالت 11 مارچ کو نوٹس جاری کرچکی لیکن استغاثہ نے نہ اس بات پراعتراض جمع کرایا اور نہ کوئی جواب داخل کیا۔ انہیں اس درخواست پر دلائل کے لئے مزید وقت دیا جائے، جس پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ کی جانب سے درخواست کی مخالفت میں اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے صرف درخواست کی نقل فراہم کرنے کاحکم دیا تھا اس سلسلے میں نوٹس جاری نہیں کیا۔ پرویز مشرف کی عدم حاضری میں تمام درخواستیں نمٹائی جاچکیں، کیس کی سماعت 2 ہفتوں بعد ہورہی ہے اس لئے وہ مزید وقت دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔
بعد ازاں بیرسٹر فروغ نسیم نے پرویز مشرف کے معاونین کو بھی ٹرائل میں شامل کرنے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام پر صرف ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، آئین کے آرٹیکل 6 کا اطلاق 1956 سے ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی بھی ضمانت دی گئی ہے، اس لئے ان تمام افراد کو بھی نوٹس جاری کرکے ٹرائل میں شامل کیا جائے جنہوں نے ان اقدامات پر عمل کرایا، 3 نومبر 2007 کو جاری کئے گئے نوٹی فکیشن میں ان افراد کا ذکر موجود ہے جن سے پرویز مشرف نے مشاورت کی۔ استغاثہ کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ نوٹی فکیشن میں درج ناموں کے بارے میں یہ ثابت کریں کہ یہ افراد 3نومبر کے اقدامات میں ملوث نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی اور رپورٹ میں ان افراد سے انکوائری کا ذکر بھی موجود نہیں، انکوائری ٹیم کےایک رکن حسین اصغر نے اس سلسلے میں اختلافی نوٹ لکھا جسے شامل نہیں کیا گیا، استغاثہ بتائے کہ اختلافی نوٹ چھپانے کا کیا مقصد ہے۔ وہ عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ کی نقل فراہم کرنے کا حکم جاری کرے۔ جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا اختیار سماعت صرف اس کیس تک محدود ہے،عدالت مارچ 1956 سے مقدمات نہیں کھول سکتی۔
فروغ نسیم کے دلائل کے جواب میں وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے کہا کہ فروغ نسیم جتنے دن چاہیں ان پر جرح کریں تاہم یہ درخواست مفروضے پر مبنی ہے،اس قسم کی درخواست پہلے بھی آ چکی ہے اور عدالت اس بارے میں 7 مارچ کو اپنا حکم جاری کر چکی، انہوں نے کہا کہ حسین اصغر کا نام گواہوں کی فہرست میں شامل ہے،عدالت انہیں قانون کے برعکس کوئی حکم نہیں دے سکتی، ملزم پر آئین توڑنے کا الزام ہے اور اس سلسلے میں ان ہی کے دو وکلا سے بھی تفتیش کی گئی ہے لیکن وہ ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتے، یہ مقدمہ زبانی شہادت کا مقدمہ نہیں دستاویزی شہادت کا مقدمہ ہے، جس میں ہر دستاویزی شہادت پیش کی جائے گی، وکلا صفائی کو عدالت کو کہانیاں نہیں سنانی چاہئیں، ٹرائل کے دوران کسی کے بھی خلاف شہادت آتی ہے تو استغاثہ اسے نہیں روکے گا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔