برصغیر کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور انتقال کرگئیں
عمر 85برس تھی،کہانیوں اور افسانوں کے 7مجموعے شائع ہوئے، ایوارڈ بھی ملے
WASHINGTON:
برصغیر میں حقوق نسواں کی علم بردار ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور ہفتے کو 83برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔
خود کو دہائیوں سے گوشہ نشین کرلینے والی اردو کی نامور ادیبہ کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم از کم 7مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ادب کے نقاد ان کے شہرۂ آفاق افسانوں میں سے ایک ''خرمن'' کو قرار دیتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے موضوعات سماج و سیاست، قانون و معیشت کی ناہمواریوں اور خواتین کے استحصال کے گرد گھومتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اردو ادب کی اس ممتاز افسانہ نگار کو حقوق نسواں کی علمبردار کہا جاتا ہے۔ ہاجرہ مسرور کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
حکومت پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی دیا انھیں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے 1965ء میں بننے والی فلم آخری اسٹیشن کی کہانی بھی لکھی۔ یہ فلم سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1991ء میں لاہور کے ایک ناشر نے ''میرے سب افسانے'' کے عنوان سے شائع کیا۔ افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔
چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی ان کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔ ہاجرہ مسرور نے گھر کے اچھے دنوں میں آنکھ کھولی مگر بہت جلد ان کا گھرانہ نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انھوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ ان کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکز علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے، پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کر گئے اور خاندان کی ذمے داری ان کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں، انھوں نے اپنے چھ بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے انداز میں کی۔
یہ کل 5بہنیں اورایک بھائی پر مشتمل گھرانا تھا۔ ان کی چھوٹی بہن خدیجہ مسرور بھی اردو کی ادیبہ تھیں۔ اردو ادب کا تذکرہ ان دونوں بہنوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ تقسیم ہند کے بعد ہاجرہ بہن خدیجہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ اس زمانے میں لاہور پاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور خود ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا عہد شروع کرچکی تھیں، ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ہوچکی تھی۔ ہاجرہ نے بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں جو اپنے وقت کے معروف ادبی رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی۔
ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ نقوش مرتب کرتی تھیں، قاسمی صاحب کی دونوں بہنوں کے ساتھ اچھی دوستی تھی۔ ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منافقتوں کی کھل کر عکاسی کرتی تھیں جس پر انھیں بھی منٹو اور عصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اردو ادب میں ان کی شناخت روایت شکن تحریریں ہیں جو تیز دھار خنجر کی مانند معاشرے پر پڑے وہ پردے چاک کردیتی تھیں جس کی آڑ میں صنف نازک کا استحصال ہوتا ہے۔ 1971ء میں انھوں نے معروف صحافی احمد علی خان سے شادی کی۔
اس وقت وہ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔1973ء میں احمد علی خان نے بطور ایڈیٹر روزنامہ ڈان جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ 28 برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے ان کا انتقال 27مارچ 2007ء کو ہوا۔ ہاجرہ اور احد علی خان کی دو بیٹیاں ہیں، ایک نوید احمد طاہر اور دوسری نوشین احمد ہیں۔ کئی برس تک لاہور میں سرگرم ادبی زندگی بسر کرنے والی ہاجرہ مسرور نے شادی کے بعد خود کو گھر تک محدود کر لیا اور خانہ دار خاتون بن گئیں۔ کئی دہائیوں کی گوشہ نشینی کے بعد پہلی بار پرزور اصرار پر وہ کئی سال پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں معقدہ ایک ادبی تقریب میں شریک ہوئیں یہ تقریب برصغیر کی معروف ادیبہ قرۃ العین حیدر کے اعزاز میں منعقد ہوئی تھی۔
مکمل گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والی روایت شکن ادیبہ کے بارے میں نئی نسل کو شاید کچھ زیادہ علم نہیں اس حوالے سے مرحومہ کی صاحبزادی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ ڈان ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 8 برس پہلے معروف ادیبہ اور شاعرہ کشور ناہید ٹی وی کیمرے کے ساتھ ان کے گھر آئی تھیں۔ انھیں امید نہ تھی کہ وہ انٹرویو دینے سے انکار کردیں گی مگر انھوں نے ایسا کیا اور کشور ناہید کو مایوس لوٹنا پڑا۔
ہاجرہ مسرور کی کہانیوں اور افسانوں کے کم از کم 7 مجموعے شائع ہوئے، ان میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور ''وہ لوگ'' شامل ہیں۔ اسلام آباد سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ہاجرہ مسرور، ان کی ہمشیرہ خدیجہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی نے 60 سال تک ادب کی دنیا میں افسانہ نگاری کے ضمن میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ حال ہی میں ہاجرہ مسرور پربہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے خالد جاوید نے ڈاکٹرانواراحمدکی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جو کہ جلد ہی کتابی شکل میں شائع ہونے والا ہے۔
برصغیر میں حقوق نسواں کی علم بردار ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور ہفتے کو 83برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔
خود کو دہائیوں سے گوشہ نشین کرلینے والی اردو کی نامور ادیبہ کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم از کم 7مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ادب کے نقاد ان کے شہرۂ آفاق افسانوں میں سے ایک ''خرمن'' کو قرار دیتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے موضوعات سماج و سیاست، قانون و معیشت کی ناہمواریوں اور خواتین کے استحصال کے گرد گھومتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اردو ادب کی اس ممتاز افسانہ نگار کو حقوق نسواں کی علمبردار کہا جاتا ہے۔ ہاجرہ مسرور کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
حکومت پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی دیا انھیں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے 1965ء میں بننے والی فلم آخری اسٹیشن کی کہانی بھی لکھی۔ یہ فلم سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1991ء میں لاہور کے ایک ناشر نے ''میرے سب افسانے'' کے عنوان سے شائع کیا۔ افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انھوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔
چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی ان کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔ ہاجرہ مسرور نے گھر کے اچھے دنوں میں آنکھ کھولی مگر بہت جلد ان کا گھرانہ نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انھوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ ان کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکز علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے، پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کر گئے اور خاندان کی ذمے داری ان کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں، انھوں نے اپنے چھ بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے انداز میں کی۔
یہ کل 5بہنیں اورایک بھائی پر مشتمل گھرانا تھا۔ ان کی چھوٹی بہن خدیجہ مسرور بھی اردو کی ادیبہ تھیں۔ اردو ادب کا تذکرہ ان دونوں بہنوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ تقسیم ہند کے بعد ہاجرہ بہن خدیجہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ اس زمانے میں لاہور پاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور خود ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا عہد شروع کرچکی تھیں، ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ہوچکی تھی۔ ہاجرہ نے بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں جو اپنے وقت کے معروف ادبی رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی۔
ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ نقوش مرتب کرتی تھیں، قاسمی صاحب کی دونوں بہنوں کے ساتھ اچھی دوستی تھی۔ ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منافقتوں کی کھل کر عکاسی کرتی تھیں جس پر انھیں بھی منٹو اور عصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اردو ادب میں ان کی شناخت روایت شکن تحریریں ہیں جو تیز دھار خنجر کی مانند معاشرے پر پڑے وہ پردے چاک کردیتی تھیں جس کی آڑ میں صنف نازک کا استحصال ہوتا ہے۔ 1971ء میں انھوں نے معروف صحافی احمد علی خان سے شادی کی۔
اس وقت وہ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔1973ء میں احمد علی خان نے بطور ایڈیٹر روزنامہ ڈان جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ 28 برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے ان کا انتقال 27مارچ 2007ء کو ہوا۔ ہاجرہ اور احد علی خان کی دو بیٹیاں ہیں، ایک نوید احمد طاہر اور دوسری نوشین احمد ہیں۔ کئی برس تک لاہور میں سرگرم ادبی زندگی بسر کرنے والی ہاجرہ مسرور نے شادی کے بعد خود کو گھر تک محدود کر لیا اور خانہ دار خاتون بن گئیں۔ کئی دہائیوں کی گوشہ نشینی کے بعد پہلی بار پرزور اصرار پر وہ کئی سال پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں معقدہ ایک ادبی تقریب میں شریک ہوئیں یہ تقریب برصغیر کی معروف ادیبہ قرۃ العین حیدر کے اعزاز میں منعقد ہوئی تھی۔
مکمل گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والی روایت شکن ادیبہ کے بارے میں نئی نسل کو شاید کچھ زیادہ علم نہیں اس حوالے سے مرحومہ کی صاحبزادی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔ ڈان ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 8 برس پہلے معروف ادیبہ اور شاعرہ کشور ناہید ٹی وی کیمرے کے ساتھ ان کے گھر آئی تھیں۔ انھیں امید نہ تھی کہ وہ انٹرویو دینے سے انکار کردیں گی مگر انھوں نے ایسا کیا اور کشور ناہید کو مایوس لوٹنا پڑا۔
ہاجرہ مسرور کی کہانیوں اور افسانوں کے کم از کم 7 مجموعے شائع ہوئے، ان میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور ''وہ لوگ'' شامل ہیں۔ اسلام آباد سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ہاجرہ مسرور، ان کی ہمشیرہ خدیجہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی نے 60 سال تک ادب کی دنیا میں افسانہ نگاری کے ضمن میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ حال ہی میں ہاجرہ مسرور پربہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے خالد جاوید نے ڈاکٹرانواراحمدکی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جو کہ جلد ہی کتابی شکل میں شائع ہونے والا ہے۔