گزشتہ ایک سال سے پرویز مشرف اور ان کے کیس کولے کر ملک کے ہر حلقے خواہ وہ سیاسی ہو یا عوامی ان میں ایک بھونچال آیا ہوا ہے سابق صدر پر دائر مقدمات میں بے نظیر قتل کیس ،لال مسجد واقعہ عبدالرشید غازی قتل کیس،بگٹی قتل کیس،ججز نظر بندی کیس اور سب سے سنگین نوعیت کا وہ کیس جس کا ریفرنس خود نوازحکومت نے دائر کیا ہے آئین شکنی کا کیس جسے سیاستدان ملک سے غداری کا کیس کہتے ہیں۔
سابق جنرل پر ان تمام مقدمات کی سماعت مختلف عدالتوں میں جاری ہے مگر ان مقدمات میں غداری کیس جس میں خاص طور پر تین نومبر کی ایمرجنسی شامل ہے اس سے متعلق بہت لے دے ہے۔ نواز حکومت کے وزرا پرویز مشرف پر اس کڑے انداز میں تنقید کررہے ہیں جس سے گماں یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ یہ تنقید صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ پورے عسکری ادارے پر کی جارہی ہے۔ بزدل کمانڈو،بھگوڑا کمانڈو اور مرد کے بچے بن کر مقابلہ کرنے کے مشورے دینے والے نواز حکومت کے وزراء خود اپنے لیے تو مشکل کھڑی کریں نہ کریں البتہ ان بیانات سے فوج کا ایک غیر معمولی رد عمل سامنے آگیا ہے جس سے ملک میں موجود شیر خوار جمہوریت اور میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایک بار پھر خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
چونکہ سابق صدر مشرف کا تعلق اسپیشل سروسز گروپ(SSG)سے تھا تو فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بھی اپنا پیغام سیاسی حلقوں تک پہنچانے کے لیے وہی پلیٹ فارم چنا۔ جنرل راحیل نے نواز حکومت پر ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ واضح کردیا کہ جنرل مشرف کو لے کر فوج پر جو کڑی تنقید کی جارہی ہے وہ ادارے کے وقار کو متاثر کررہی ہے اور فوج اپنے وقار کی بحالی کو ہر صورت مقدم رکھے گی ۔
جنرل راحیل کے اس پیغام اور کورکمانڈرز کانفرنس میں اعلیٰ عسکری قیادت کے تحفظات کے بعد ملک کے دانشور اور سیاسی بصیرت رکھنے والے طبقے میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے اوریہ ہلچل کیوں نہ پیدا ہو ،فوج اپنے سابق چیف کی آخر کب تک تذلیل برداشت کرے گی اور پھر میڈیا نے بھی اس بات کا ڈنکا بجا دیا ہے کہ فوج کے اعلیٰ افسران حکومتی وزراء کی تنقید سے قدرے ناراض ہیں جس کے بعد شاید نوازشریف نے نوشتۂ دیوار پڑھ لی ہے اورصورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنے سیاسی رفقاء ،وزراء اور مشیروں کو مشرف کیس پر بیان بازی سے روک تو دیا ہے مگر وزراء اور مشیروں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے وزیردفاع خواجہ آصف آرمی چیف کے بیان کے بعد پارلیمنٹ کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے جس کے بعد صورتحال کے مزید خراب ہونے کا خدشہ پیداہوگیا ہے ۔وزیردفاع کی یہ شعلہ بیانی جمہوریت کی راہ میں روہڑے اٹکانے کے مترادف ہوسکتی ہے۔
جنرل راحیل کا پیغام تو اپنی طرف مگر کئی بار لگتا یوں ہے کہ مشرف کی وجہ سے ملک ترقی کی پٹری پر نہیں چڑھ پارہا 24 مارچ 2013 سے پاکستان کی ترقی میں صرف ایک شخص رکاوٹ ہے اور وہ جنرل مشرف ہیں اور ملک میں بدامنی،بیروزگاری،لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے اہم مسائل صرف ایک شخص کی سزا سے ہی حل ہوسکتے ہیں پاکستان کی ترقی اگر رکی ہوئی ہے تو صرف سابق صدر ہی اس میں رکاوٹ نظر آتے ہیں حکومت پرویز مشرف کے کیس کو لے کر اس قدر سنجیدہ نظر آتی ہے کہ جیسے ملک میں تمام مسائل کا خاتمہ ہوچکا ہے اگر باقی بچا ہے تو وہ ہے پرویز مشرف کا مقدمہ اور ان کی سزا۔
نوازحکومت بھی سابق جنرل کو سزا دلوانے پر اس طرح تلی ہوئی ہے کہ جیسے ایک شخص کے سزا پانے سے ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی لیکن اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو محفوظ راستوں کی بھی مثالیں ملتی ہیں مگر اس محفوظ راستے پر میاں صاحب خود شش وپنج کا شکار ہیں اور پرویز مشرف کو راستہ دینے کے لیے نام ای سی ایل میں سے خود نکالنے کی بجائے گیند عدلیہ کی کورٹ میں ڈال دی ہے جبکہ عدلیہ بھی اس حوالے سے براہِ راست کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی ہے۔ پرویز مشرف کے معاملے پر نوازشریف اپنی کابینہ کے کچھ ارکان کے سامنے بھی بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ کابینہ اجلاس میں کچھ وزراء نے پرویز مشرف کے بجائے ملک میں موجود مسائل پر اپنی توانائی صرف کرنے کی تجویز دی مگر بعض ارکان نے پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کی سخت مخالف بھی کی ہے۔ اشارے یہ بتاتے ہیں کہ میاں نوازشریف سابق جنرل کو محفوظ راستہ دے کر وہ قرض اتارنا چاہتے ہیں جس کے وہ کئی سال پہلے مقروض ہوئے تھے مگر بعض ارکان کی مخالفت کے بعد اب وزیراعظم فیصلہ کرنے میں مشکل کا شکار ہیں اور جو وزراء مخالفت کررہے ہیں شاید ان کو گماں ہے کہ مشرف کو سزا ہوتے ہی ملک میں انقلاب آجائیگا۔ اداروں میں کرپشن ختم ہوجائے گی،اسٹیل مل اربوں کے منافع میں چلے گی اور دیگر تمام مسائل بھی ختم ہوجائیں گے اور ملک ایک جیتی جاگتی جنت بن جائے گا۔
اگر یہ ممکن ہے کہ مشرف کو سزا ہونے کے بعد ملک ایک جنت بن سکتا ہے اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں صرف ایک یہی شخص رکاوٹ ہے تو سابق فوجی صدر کو فوری طور پر سزا دے دینا چاہئے لیکن اگر مشرف کو سزا کے بعد بھی تمام مسائل جوں کے توں رہیں گے تو یہ نوازشریف کے پاس سیاسی قرض اتارنے کا سنہری موقع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔