ملکی مسائل

دنیا ہماری جہالت پر ہنستی ہے اور اس ملک کی قسمت پر ترس کھاتی ہے جہاں نہ قانون ہے، نہ انصاف، نہ عزت

Shireenhaider65@hotmail.com

گردش دوراں جاری ہے، زمین گھوم رہی ہے اورباقی سیارے بھی، سورج اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے اوراس کی حدت دنیا کے ہر خطے میں مختلف اوقات میں، مختلف زاویوں سے مختلف شدت کے ساتھ پڑتی ہے اور اسی سے تعین ہوتا ہے کہ کہاں گرمی ہے، کہاں سردی اور کہاں معتدل موسم ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں اگر اسلام آباد اور لاہور کا موازنہ کیا جائے تو... لاہور میں حدت زیادہ ہے، ہر لحاظ سے۔

اسی بڑھتی ہوئی حدت کے دنوں میں ماہ رمضان بھی آیا ہی چاہتا ہے اور اس مقدس مہینے میں پورے اہتما م کے ساتھ اس کی ہمجولی بن کر آتی ہے مہنگائی۔ لیکن جس دن سے موجودہ حکومت کے سبز قدم مسند اقتدار پر پڑے ہیں، اس دن سے لگتا ہے کہ مسلسل ماہ رمضان ہے۔ سونے، چاندی، ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ اس سے دوگنی رفتار سے ہر چیز کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان میں کمی کرنے کا کسی کا ارادہ نہیں کیونکہ اس سے متاثر ہونے والا وہ آدمی ہے جو ان کی نظر میں انسان نہیں بلکہ فقط ایک ووٹر ہے جس کی انھیں ابھی کچھ عرصہ ضرورت نہیں۔

ان میں سے کس کے بچے جائز ہیں اور کس کے ناجائز، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں، کس نے کہاں داخلہ لینے کے لیے دھونس سے اس کالج کی پرنسپل کو فارغ کروا دیا کہ اس نے بغیر میرٹ کے داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کس نے کنئیرڈ سے پڑھا اور کس نے آکسفورڈ سے، کس کے صرف بچے لندن میں ہیں اور کس کا سار اخاندان۔ کس کا خاندان اقتدار کی کرسی پر نظر لگائے بیٹھا ہے اور کس کے بچوں کو کرسیء اقتدار میں کشش محسوس نہیں ہوتی۔

کس کے پاؤں میں ہر وقت چار پانچ لاکھ کی مالیت کا جوتا ہوتا ہے اور کس کے پاؤں میں تین ہزار روپے کی چپل۔ کون غریبوں کے علاج کی خاطر باہر سے مانگ تانگ کر سب کچھ ملک میں واپس لا کر کینسر اسپتال پر لگا رہا ہے اور کسے ملک سے دولت جمع کر کے اسے ملک سے باہر دولت کے انبار اکٹھے کرنے سے غرض، کن کے دستر خوانوں کو دیکھ کر شاہی دستر خوان شرماتے ہیں اور کس کا من بھرا ہے کہ اسے صرف پیٹ بھرنے کو کھانا ہوتا ہے۔

کس نے امریکا کی زیادہ خدمت کی تا کہ اس کا اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے اور کون ہے جو امریکا کو للکار کر ، سب کچھ کھو کرمصیبت میں پڑا ہے۔ کس نے ملک دشمنوں کو ملکی رازاپنے ذاتی کاروباری مفادات کے عوض فراہم کیے اور کون ہے جسے کسی کاروبار سے کوئی لگاؤ ہے نہ کسی دشمن کو ملک راز دینے میں اس کا کوئی ذاتی مفاد۔ کون سیاسی دشمنی میں کس حد تک جاتا ہے، ا س میں ان سب پس منظر، تربیت اور کردار واضع ہوتا ہے۔


کون بد لحاظی کے کس درجے پر ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ا س کے پاس کوئی تعلیم ہے یا نہیں اور ہے تو کس درجے اور کس نوعیت کے ادارے کی ہو گی۔ کسے کس چیز کی طلب ہے، اس کے حصول کے لیے کس حد تک جانے کی سکت، اس کا تعین وہ پیسہ کرتا ہے جسے کمانے میں جانے کیا ذرایع استعمال ہوئے ہوں گے۔ کس کا پیسہ کس مشقت سے کمایا گیا یا کن جائز اور ناجائز طریقوں سے آیا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ پیسہ اندھے کنوؤں میں پھینک کر بھی ختم نہیں ہوتامگر پھر بھی مزید کی ہوس ختم ہونے میں نہیں آتی۔

پیسے کی ہوس ہمیشہ ان میں زیادہ ہوتی ہے جنھیں محرومیاں گزار گزار کراور ترس ترس کر ملا ہوتا ہے، جنھوں نے پہلے بہت غربت دیکھی ہوتی ہے اور پھر ان کی حسرتیں اس نہج تک پہنچ جاتی ہیں کہ ان میں حلال اور حرام کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ انھیں موقع ملتا ہے تو وہ نوچتے اور کھسوٹتے ہیں، ان کی اخلاقیات ختم ہوجاتی ہے۔ پہلے پیسے کی ہوس ہوتی ہے، پھر تعلقات کی ، پھر اختیار کی، پھر اقتدار کی اور پھر فرعونیت کی۔

دنیا ہماری جہالت پر ہنستی ہے اور اس ملک کی قسمت پر ترس کھاتی ہے جہاں نہ قانون ہے، نہ انصاف، نہ عزت، نہ روٹی نہ کپڑا نہ مکان اور نہ جان و مال کا تحفظ۔ دنیا میں پٹرول ، سونے یا ڈالر کی قیمت چاہے گھٹ جائے مگر ہمارے ہاں ان چیزوں کی قیمتیں قد کی طرح ہیں کہ ایک بار بڑھ جائیں تو واپس گھٹ نہیں سکتیں۔ کھانے پینے کی اشیاء دو گنا یا تین گنا نہیں، چھ چھ گنا بڑھ گئی ہیں اور ذرایع آمدن جوں کے توں۔ غربت کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، خودکشیاں اور بچوں کو غربت کے باعث قتل کرنے کے واقعات بڑھتے ہیں تو معاشرے میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔

امیر کے ایک کوٹ کی قیمت میں... ایک غریب کے بچے کے عمر بھر کے کپڑے بن جاتے ہیں۔ ان کے دستر خوان پر ایک وقت میں اتنا کھانا سجتا ہے جتنے کو سو لوگ بھی پیٹ بھر کر کھائیں تو بچ جائے، یہ اس میں سے کھاتے بھی ہیں اور زیاں بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی کھا کھا کر تھکتے نہیں، ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیںمگر بھوک ختم نہیں ہو رہی، شکم کی بھوک ہو تو مٹ جائے نظر کی بھوک کہاں ختم ہو۔

ان کی بھوک نے ملک کا کباڑہ کر دیا ہے، مزدور اور غریب بلک بلک ہلکان ہوجائیں، مر جائیں گے مگر ایک پلیٹ چاول کھا کر ، ووٹ پھر بھی انھی کو دیں گے جو ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ملک چل رہا ہے... اسے کون چلا رہا ہے، اس کا جواب کسی کو معلوم نہیں مگر ا ب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چل ہی نہیں رہا۔ کوئی نظام ہے جو یہاں کام کر رہا ہے؟ کون سا ادارہ ہے جو اس وقت اپنا کام کر رہا ہے، کون لوگ ہیں جنھیں اندازہ ہے کہ اس ملک کے مسائل کیا ہیں؟
Load Next Story