سعودی عرب کا ترقی کی جانب سفر آخری حصہ
سعودیہ عرب ویژن 2030 کے تحت اگلے 5 سال میں 10 لاکھ مزید خواتین کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے گا
سعودیہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے نے مشرقی وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ یہ معاہدہ صرف ایک سیاسی اور سفارتی بریک تھرو نہیں بلکہ امریکا اور مغربی اتحادیوں کی سربراہی میں رائج عالمی سیاسی اور معاشی نظام کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
چین کی ثالثی میں ہونے والا معاہدہ اس بات کا اظہار ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن چین اور روس کے حق میں بدل رہا ہے۔ ایران اور سعودی معاہدہ امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے، اس معاہدے سے ایران کو تنہا کرنے کی تمام امریکی کوششیں ناکام ہوگئیں۔
روس، چین، سعودیہ اور ایران کا اتحاد کیا عالمی سیاسی و معاشی نظام کو چیلنج کر پائے گا یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صدی مشرقی وسطیٰ کی صدی ہے۔
سرد جنگ کے دور سے لے کر امریکا کے نیو ورلڈ آرڈر تک عالمی سیاست میں مشرقی وسطیٰ کی کلیدی حیثیت رہی ہے لیکن جس طرح سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے اپنے ویژن اور دور رس سوچ پر مبنی پالیسیوں کی بدولت سعودیہ عرب کو عالمی سیاست کے ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر متعارف کروایا ، یہ عالمی رہنمائوں کے لیے بھی بڑا حیران کن ہے۔
خارجہ پالیسی اور سفارت کاری میں ولی عہد محمد بن سلمان کی کامیابیوں میں شاید سعودی عرب کی عالمی سیاست میں مذہبی ، سیاسی ، سفارتی ، جغرافیائی اہمیت اور تیل کی دولت کا بھی کردار ہو لیکن سعودیہ جیسے روایتی مزاج کی حامل مملکت میں معاشی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کے ذریعے سعودیہ کو مشرقی وسطی کا یورپ بنانے کی کوششیں دنیا کے لیے کسی الف لیلیٰ داستان سے کم نہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات دنیا کے لیے چاہے جتنا مرضی ناقابل یقین ہو محمد بن سلمان اور مملکت کے لیے یہ سالمیت اور مستقبل کی جنگ ہے اور نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان خود مستقبل کی اس جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔مشرقی وسطی دنیا کے لیے نیا یورپ ثابت ہوگا یہ صرف ایک خواب نہیں بلکہ نہ صرف مشرقی وسطی بلکہ دنیا کے اقتصادی ، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو یکسر بدل دینے والا اپنی نوعیت کا انوکھا منصوبہ ہے۔
محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کا سب سے اہم اور بنیادی حصہ مملکت میں سیاحت کا فروغ ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان 2030 تک سعودی معیشت کا انحصار تیل کی پیداوار سے ختم کر کے امارات کی طرح سعودی معیشت کو ماڈریٹ اور جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ویژن 2030 کے تحت سیاحت کا سب سے بڑا منصوبہ 500 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا نیوم شہر ہے۔
نیوم شہر موجودہ حکومتی فریم ورک سے آزاد اور خودمختار حیثیت میں کام کرے گا اور اس شہر میں روایتی اقدار کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ یہ نیا شہر دبئی کی طرز پر فری زون ہوگا جہاں سرمایہ کاروں کو نہ صرف ٹیکس سے استثنیٰ ملے گا بلکہ اس شہر کے اپنے قوانین ہوں گے۔ نئے شہر میں توانائی کی ضروریات کلین انرجی سے پوری کی جائیں گی جب کہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے خودمختار فنڈ بھی قائم ہوگا۔
نیوم شہر کو خطے کے دیگر ممالک سے جوڑنے کے لیے بحیرہ احمر پر ایک بڑا پل بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جو اس نئے شہر کو مصر ، اردن اور افریقہ کے باقی شہروں سے ملا دے گا، اس طرح دنیا میں پہلی بار تین ممالک کا خصوصی اقتصادی زون قائم ہوگا۔
سعودی عرب نہ صرف اپنی معیشت کا انحصار تیل کی پیداوار سے ختم کر رہا ہے بلکہ 2030 تک پوری مملکت میں تمام گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر شفٹ کرکے توانائی کا انحصار پائیدار کلین انرجی پر کر رہا ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کی مذہبی اہمیت اور شناخت سے بھی غافل نہیں مذہبی سیاحت اور دنیا بھر سے حج اور عمرے کے لیے آنے والے زائرین سعودی عرب کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ حج اور عمرہ کے زائرین کی سہولت اور مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب نے بہت انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اب دنیا بھر سے آنے والے زائرین سعودی ایئر لائن کی ٹکٹ پر بغیر ویزہ 4 روز کے لیے عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرہ کے لیے ویزہ کی مدت 30 دن سے بڑھا کر 90 روز کردی گئی ہے اور زائرین کے لیے دیگر شہروں میں نقل و حرکت بھی آسان بنا دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ روڑ ٹو مکہ پروجیکٹ کے تحت کے عازمین حج اور عمرہ زائرین کی امیگریشن ان کے اپنے ملکوں کے ایئر پورٹس پر کی جائے گی اور دنیا بھر سے آنے والے زائرین سعودی ایئر پورٹ پر صرف بار کوڈ اسکین کروا کر بغیر کسی رکاوٹ اور تاخیر کے سعودی عرب میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ان اصلاحات سے نہ صرف دنیا بھر سے آنے والے زائرین کو سہولیات میسر ہوں گی بلکہ سعودی عرب مذہبی سیاحت کے ذریعے سالانہ 25 ارب ڈالر اضافی کمائے گا۔دنیا کی کوئی بھی معیشت خواتین کی شمولیت اور خود مختاری کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ سعودی معیشت میں خواتین کی شمولیت اور صنفی تفریق کے خاتمے کے لیے ولی عہد محمد بن سلمان نے انقلابی اقدامات کیے ہیں۔
آج سعودی خواتین کو کاروبار کرنے کے لیے مرد یا اپنے گارڈین کی اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں سعودی خواتین اب نہ صرف ڈرائیونگ کرسکتی ہیں بلکہ بغیر محرم بیرون ملک سفر بھی کر سکتی ہیں۔
سعودیہ عرب ویژن 2030 کے تحت اگلے 5 سال میں 10 لاکھ مزید خواتین کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے گا۔ جدیدیت اور قدامت کے امتزاج سے بننے والا نیا سعودی خواب کیسا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا لیکن ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن اور اقدامات نے ثابت کردیا کہ سعودیہ عرب نہ صرف مشرقی وسطیٰ کی قیادت کرنے کا اہل ہے بلکہ سعودی مملکت ایک نئے عالمی نظام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔