سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتیاں
کمیشن کے تحریری امتحان میں کس نے کیا لکھا یہ صرف کمیشن کے ممبران ہی جانتے ہیں
سندھ ہائی کورٹ نے24.02.2023 کو ایک پٹیشن نمبر D-8033/2019 جو محمد ایوب پنھور نے دائر کی تھی، کی سماعت کے بعد ایک حکم جاری کیا، جس کے تحت CCE-2020 کے منعقد کیے گئے امتحان کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو ماہ کی مدت میں سندھ ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی اور ایڈیشنل رجسٹرار کی نگرانی میں دوبارہ منعقد کروانے کا حکم جاری کیا ہے۔
اس سے قبل اسی کورٹ نے امتحان میں ہونے والی بدعنوانی اور اقربا پروری کی شکایت پر ایک انکوائری کا حکم جاری کیا تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں چیئرمین، سندھ پبلک سروس کمیشن نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔
اس انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کر دی ہے جس میں انکشاف کیا گیا کہ '' اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اپنے سرکاری اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کمبائنڈ کمپیٹیٹو ایگزام 2020 میں کامیاب ہونے والے افراد کی جانبداری کی اور کچھ امیدواروں کو اس امتحان کے دوران ناجائز فائدہ دیا۔ ''
انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ امتحانی کاپیوں کی ڈی کوڈنگ کے بعد ان کی از سر نو نمبرنگ درست طریقہ سے نہیں کی گئی۔ پھر اس کی تصحیح کے نام پر امتحانی کاپیاں واپس ایگزمینر کو بھیج دی گئیں جہاںجوابی کاپیوں میں تصحیح کے نام پر بہت سارے امیدواروں کو اضافی نمبرز دیے گئے۔ اس انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک امیدوار کو 98 اضافی نمبر تک دے دیے گئے جب کہ دوسرے امیدوار کو 78 اضافی نمبرز دے دیے گئے۔
انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امتحان میں شامل ہونے والے ایک سے زائد امیدواروں کو 40 یا اس سے زائد اضافی مارکس دیے گئے جب کہ اسی کمیٹی نے نتائج میں ردوبدل کی بھی نشاندہی کی ہے۔ سندھ پبلک کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ نتائج میں ردوبدل کے الزام میں ملوث افسران کو معطل کیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن نے بھی اعلیٰ سطح کمیٹی کی رپورٹ میں امتحانی نتائج میں ردو بدل کی تصدیق کی ہے۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذمے دار افسران کی صرف معطلی سے کام نہیں چلے گا بلکہ ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں سزا دیں،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کس طرح ان کو بچا پاتی ہے۔
یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے جس نے ایک ایسے ادارے کی شہرت پر ایک بد نما داغ لگا دیا ہے جس کی اولین ذمے داری امیدواروںمیں سے بہترین اور قابل افراد کا انتخاب کرکے خالصتامیرٹ کی بنیاد پر انھیں سندھ کی بیوروکریسی میں شامل کرنے کی سفارش کرنا ہے۔
اس ہائی پاورڈ کمیٹی کی رپورٹ سے اس ادارے کی غیر جانبداری اور میرٹ پرایک سوالیہ نشان پیدا ہو گیا ہے۔ گو کہ ہمارے سامنے سابقہ چیف جسٹس، شریعت کورٹ، پاکستان، آغارفیق جیسے افسران کی مثال بھی موجود ہے جنھوں نے بحیثیت چیئرمین، ایس پی ایس سی ، ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ یہ عہدہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے جب کہ اس اعلیٰ عہدے پر ان کا تقرر پانچ سال کے لیے کیاگیا تھا۔
اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق آغا رفیق پر سال 2014-15 کے مسابقتی امتحان کے نتائج میں رد وبدل کرنے کا دباو اور من پسند امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے دبائو تھا لیکن انھوں نے یہ دبائو لینے سے انکار کر دیا اور عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ باخبر ذرایع نے انکشاف کیا کہ آغا رفیق صاحب کو ایک'' ہائوس'' سے ایک لسٹ اس حکم کے ساتھ بجھو ائی گئی تھی کہ اس لسٹ میں موجود ناموںمیں سے ہی آخری امیدواروں کا انتخاب کرنا ہے جس سے انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
سندھ پبلک سروس کمیشن جیسے اہم ادارے میں چیئرمین اور دیگر ممبران کا سلیکشن عموما ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹس میں سے کیا جاتا ہے۔ اب قارئین خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو ایک بار پھر سرکاری مراعات اور اسٹیٹس کی آفر کی جائے تو ان کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہوں گی؟ گو کہ ابھی آغا رفیق جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو کسی بھی غلط حکم کی تعمیل کے بجائے عہدہ چھوڑنا پسند کرتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ اس کمیشن میں بھی ممبران کا انتخاب بھی سیاسی بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے گو کہ وہ سب ہوتے سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس ہی ہیں۔ ایسی مثال بھی موجود ہے کہ ایس۔ پی۔ ایس ۔سی کے بورڈ ممبران میں ایک ایسے ریٹائرڈ سینئر افسر کو بھی ممبر منتخب کیا گیا جن کے بارے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ جب ماضی میں وہ خود اسی کمیشن کے امتحان کے امیدوار تھے تو تحریری امتحان کا ایک پیپر بھی پاس نہ کر سکے، لیکن بعد ازاں وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نہ صرف بھرتی ہو گئے بلکہ سینئر پوسٹ سے ریٹائر بھی ہوئے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بورڈ کے ممبران میں ایسے ممبرز بھی موجود ہیں جو اپنے بہتر سروس ریکارڈ اور قابلیت کی بنیاد پر ہی ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
سندھ میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا وطیرہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے دور حکومت میں تقریبا ہر محکمے میں براہ راست بھرتیاں کیں۔ یعنی بناء کسی تحریری امتحان کے صرف اقرباء پرور ی کی بنیاد پر براہ راست گریڈ سترہ اور اس سے نیچے کی خالی اسامیوں پر بھرتیاں کی گئیں۔
جن میں ڈی ایس پیز، اسسٹنٹ کمشنرز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشنز آفیسرز اوراسسٹنٹ سب انسپکٹرز شامل ہیں۔جس کی وجہ سے ان محکموں میں پہلے سے ان عہدوں پر کام کرنیوالے افسران کی سنیارٹی بے حد متاثر ہوئی، گو کہ یہ پارٹی ہمیشہ اس بات کا کریڈٹ لیتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں'' عوام'' کو سب سے زیادہ سرکاری نوکریاں دیں لیکن اگر ان بھرتیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ بھرتی ہونیوالے ـ''عوام '' نہیں بلکہ '' خواص'' تھے جنھیں کسی نہ کسی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا۔
ماضی میں ایسی بے قاعدہ بھرتیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا جس کی وجہ سے ان براہ راست بھرتی شدہ افراد کو کچھ پریشانی بھی اٹھانا پڑی لیکن اس کے باجود حکومت سندھ اپنے حربوں سے کسی نہ کسی طرح ان کی نوکریاں بچانے میں کامیاب ہو گئی۔
اب اس کا حل کسی سیانے نے یہ نکالا کہ بجائے براہ راست بھرتی کرنے کے سفارشی افراد کو باقاعدہ کمیشن کے ذریعہ بھرتی کروایا جائے تاکہ مستقبل میں ان کی بھرتیوں کو کوئی چیلنج نہ کر پائے۔
کمیشن کے تحریری امتحان میں کس نے کیا لکھا یہ صرف کمیشن کے ممبران ہی جانتے ہیں اور موجود ہ انکوائری رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ وہ جسے چا ہیں اپنی مرضی کیمطابق نمبرز دے کر کامیاب کروا سکتے ہیں اور جب ایک ریٹائرڈ افسر کو سیاسی رشوت کے طور پر دوبارہ نوکری اور تمام مراعات مل جائیں تو وہ یقینا نوکری دینے والے کی ہی بات مانے گا۔بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو آغا رفیق کی طرح انکار کر پاتے ہیں۔
موجودہ انکوائری رپورٹ کے بعد ، جو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ، ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی اور ایڈیشنل رجسٹرار کی نگرانی میں مجبورا کروانا پڑی،سندھ پبلک سروس کمیشن کے کردار پر کئی سوالیہ نشان پید ا ہوگئے ہیں۔ اور یہ بھی اس لیے کہ اس بار کسی امیدوار نے پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن پروسیس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ جانے کی ہمت کر لی۔
2020 سے قبل اور بعد میں ہونیوالے دیگر مسابقتی امتحانات اور اس میں منتخب ہونیوالے امیدوارو ں کے خلاف کوئی شخص عدالت نہیں گیا اس لیے اس پررائے دینا مناسب نہیں ہوگا، لیکن اب عوام یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ جو بھرتیاں اس وقت کے چیئر مین، جسٹس ریٹائرڈ آغا رفیق سے کروانے کی کوشش کی گئی، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیاتو ان کے عہدہ چھوڑ کے جانے کے بعد کیا وہ لوگ جن کو بھرتی کرنے کے لیے کہا گیا تھا بھرتی ہونے میں کامیاب ہو پائے یا نہیں؟
جس کے لیے ایک اور غیر جانبدارانہ انکوائری کمیشن قائم کیے جانے کی ضرورت ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال میں ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ بہرحال اس کا کریڈٹ یقینا ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو دیا جائے گا جنھوں نے اس پٹیشن کو سنجیدگی سے سنا، اس پر انکوائری کروائی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔ ''مورل آف دا اسٹوری'' یہ ہے کہ اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھیں۔
اس سے قبل اسی کورٹ نے امتحان میں ہونے والی بدعنوانی اور اقربا پروری کی شکایت پر ایک انکوائری کا حکم جاری کیا تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں چیئرمین، سندھ پبلک سروس کمیشن نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔
اس انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کر دی ہے جس میں انکشاف کیا گیا کہ '' اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اپنے سرکاری اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کمبائنڈ کمپیٹیٹو ایگزام 2020 میں کامیاب ہونے والے افراد کی جانبداری کی اور کچھ امیدواروں کو اس امتحان کے دوران ناجائز فائدہ دیا۔ ''
انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ امتحانی کاپیوں کی ڈی کوڈنگ کے بعد ان کی از سر نو نمبرنگ درست طریقہ سے نہیں کی گئی۔ پھر اس کی تصحیح کے نام پر امتحانی کاپیاں واپس ایگزمینر کو بھیج دی گئیں جہاںجوابی کاپیوں میں تصحیح کے نام پر بہت سارے امیدواروں کو اضافی نمبرز دیے گئے۔ اس انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک امیدوار کو 98 اضافی نمبر تک دے دیے گئے جب کہ دوسرے امیدوار کو 78 اضافی نمبرز دے دیے گئے۔
انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امتحان میں شامل ہونے والے ایک سے زائد امیدواروں کو 40 یا اس سے زائد اضافی مارکس دیے گئے جب کہ اسی کمیٹی نے نتائج میں ردوبدل کی بھی نشاندہی کی ہے۔ سندھ پبلک کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ نتائج میں ردوبدل کے الزام میں ملوث افسران کو معطل کیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن نے بھی اعلیٰ سطح کمیٹی کی رپورٹ میں امتحانی نتائج میں ردو بدل کی تصدیق کی ہے۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذمے دار افسران کی صرف معطلی سے کام نہیں چلے گا بلکہ ذمے داروں کا تعین کرکے انھیں سزا دیں،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کس طرح ان کو بچا پاتی ہے۔
یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے جس نے ایک ایسے ادارے کی شہرت پر ایک بد نما داغ لگا دیا ہے جس کی اولین ذمے داری امیدواروںمیں سے بہترین اور قابل افراد کا انتخاب کرکے خالصتامیرٹ کی بنیاد پر انھیں سندھ کی بیوروکریسی میں شامل کرنے کی سفارش کرنا ہے۔
اس ہائی پاورڈ کمیٹی کی رپورٹ سے اس ادارے کی غیر جانبداری اور میرٹ پرایک سوالیہ نشان پیدا ہو گیا ہے۔ گو کہ ہمارے سامنے سابقہ چیف جسٹس، شریعت کورٹ، پاکستان، آغارفیق جیسے افسران کی مثال بھی موجود ہے جنھوں نے بحیثیت چیئرمین، ایس پی ایس سی ، ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ یہ عہدہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے جب کہ اس اعلیٰ عہدے پر ان کا تقرر پانچ سال کے لیے کیاگیا تھا۔
اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق آغا رفیق پر سال 2014-15 کے مسابقتی امتحان کے نتائج میں رد وبدل کرنے کا دباو اور من پسند امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے دبائو تھا لیکن انھوں نے یہ دبائو لینے سے انکار کر دیا اور عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ باخبر ذرایع نے انکشاف کیا کہ آغا رفیق صاحب کو ایک'' ہائوس'' سے ایک لسٹ اس حکم کے ساتھ بجھو ائی گئی تھی کہ اس لسٹ میں موجود ناموںمیں سے ہی آخری امیدواروں کا انتخاب کرنا ہے جس سے انھوں نے صاف انکار کر دیا۔
سندھ پبلک سروس کمیشن جیسے اہم ادارے میں چیئرمین اور دیگر ممبران کا سلیکشن عموما ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹس میں سے کیا جاتا ہے۔ اب قارئین خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو ایک بار پھر سرکاری مراعات اور اسٹیٹس کی آفر کی جائے تو ان کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہوں گی؟ گو کہ ابھی آغا رفیق جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو کسی بھی غلط حکم کی تعمیل کے بجائے عہدہ چھوڑنا پسند کرتے ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ اس کمیشن میں بھی ممبران کا انتخاب بھی سیاسی بنیادوں پر ہی کیا جاتا ہے گو کہ وہ سب ہوتے سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹس ہی ہیں۔ ایسی مثال بھی موجود ہے کہ ایس۔ پی۔ ایس ۔سی کے بورڈ ممبران میں ایک ایسے ریٹائرڈ سینئر افسر کو بھی ممبر منتخب کیا گیا جن کے بارے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ جب ماضی میں وہ خود اسی کمیشن کے امتحان کے امیدوار تھے تو تحریری امتحان کا ایک پیپر بھی پاس نہ کر سکے، لیکن بعد ازاں وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نہ صرف بھرتی ہو گئے بلکہ سینئر پوسٹ سے ریٹائر بھی ہوئے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بورڈ کے ممبران میں ایسے ممبرز بھی موجود ہیں جو اپنے بہتر سروس ریکارڈ اور قابلیت کی بنیاد پر ہی ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
سندھ میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا وطیرہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے دور حکومت میں تقریبا ہر محکمے میں براہ راست بھرتیاں کیں۔ یعنی بناء کسی تحریری امتحان کے صرف اقرباء پرور ی کی بنیاد پر براہ راست گریڈ سترہ اور اس سے نیچے کی خالی اسامیوں پر بھرتیاں کی گئیں۔
جن میں ڈی ایس پیز، اسسٹنٹ کمشنرز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشنز آفیسرز اوراسسٹنٹ سب انسپکٹرز شامل ہیں۔جس کی وجہ سے ان محکموں میں پہلے سے ان عہدوں پر کام کرنیوالے افسران کی سنیارٹی بے حد متاثر ہوئی، گو کہ یہ پارٹی ہمیشہ اس بات کا کریڈٹ لیتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں'' عوام'' کو سب سے زیادہ سرکاری نوکریاں دیں لیکن اگر ان بھرتیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ بھرتی ہونیوالے ـ''عوام '' نہیں بلکہ '' خواص'' تھے جنھیں کسی نہ کسی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بھرتی کیا گیا۔
ماضی میں ایسی بے قاعدہ بھرتیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا جس کی وجہ سے ان براہ راست بھرتی شدہ افراد کو کچھ پریشانی بھی اٹھانا پڑی لیکن اس کے باجود حکومت سندھ اپنے حربوں سے کسی نہ کسی طرح ان کی نوکریاں بچانے میں کامیاب ہو گئی۔
اب اس کا حل کسی سیانے نے یہ نکالا کہ بجائے براہ راست بھرتی کرنے کے سفارشی افراد کو باقاعدہ کمیشن کے ذریعہ بھرتی کروایا جائے تاکہ مستقبل میں ان کی بھرتیوں کو کوئی چیلنج نہ کر پائے۔
کمیشن کے تحریری امتحان میں کس نے کیا لکھا یہ صرف کمیشن کے ممبران ہی جانتے ہیں اور موجود ہ انکوائری رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ وہ جسے چا ہیں اپنی مرضی کیمطابق نمبرز دے کر کامیاب کروا سکتے ہیں اور جب ایک ریٹائرڈ افسر کو سیاسی رشوت کے طور پر دوبارہ نوکری اور تمام مراعات مل جائیں تو وہ یقینا نوکری دینے والے کی ہی بات مانے گا۔بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو آغا رفیق کی طرح انکار کر پاتے ہیں۔
موجودہ انکوائری رپورٹ کے بعد ، جو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ، ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی اور ایڈیشنل رجسٹرار کی نگرانی میں مجبورا کروانا پڑی،سندھ پبلک سروس کمیشن کے کردار پر کئی سوالیہ نشان پید ا ہوگئے ہیں۔ اور یہ بھی اس لیے کہ اس بار کسی امیدوار نے پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن پروسیس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ جانے کی ہمت کر لی۔
2020 سے قبل اور بعد میں ہونیوالے دیگر مسابقتی امتحانات اور اس میں منتخب ہونیوالے امیدوارو ں کے خلاف کوئی شخص عدالت نہیں گیا اس لیے اس پررائے دینا مناسب نہیں ہوگا، لیکن اب عوام یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ جو بھرتیاں اس وقت کے چیئر مین، جسٹس ریٹائرڈ آغا رفیق سے کروانے کی کوشش کی گئی، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیاتو ان کے عہدہ چھوڑ کے جانے کے بعد کیا وہ لوگ جن کو بھرتی کرنے کے لیے کہا گیا تھا بھرتی ہونے میں کامیاب ہو پائے یا نہیں؟
جس کے لیے ایک اور غیر جانبدارانہ انکوائری کمیشن قائم کیے جانے کی ضرورت ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال میں ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ بہرحال اس کا کریڈٹ یقینا ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کو دیا جائے گا جنھوں نے اس پٹیشن کو سنجیدگی سے سنا، اس پر انکوائری کروائی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔ ''مورل آف دا اسٹوری'' یہ ہے کہ اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھیں۔