طاہر نجمی بڑے انسان
طاہر نجمی کی رحلت سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا تا دیر ممکن نہیں
طاہر نجمی کی شخصیت لاتعداد خوبیوں کا منبع تھی۔ آپ دھیمے مزاج ، سادہ طبیعت ، مخلص ، محنتی ، نفیس ، تحمل مزاج ، جرات مند ، دیانت دار انسان تھے۔
دل یقین ہی نہیں کر پا رہا کہ آج آپ کے ساتھ ' تھے' کا صیغہ لگانا پڑ رہا ہے ، لیکن اس فانی دنیا میں جو آیا ہے اس سے ایک دن جانا بھی ہے مگر اصل کامیابی تو اس میں ہے کہ انسان اپنے حسن سلوک سے خلق خدا کے دل میں گھر کر لے۔
طاہر نجمی سابق صدر ضیاء الحق کے خلاف صحافیوں کی تحریک میں شامل رہے اور اس تحریک کے دوران سکھر جیل میں قید تنہائی کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اس مشقت کے دوران آپ نے تمام پیش کشوںکو ٹھکرا دیا اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا، سی پی این ای کے فعال ممبر تھے۔
بیس برس سے زائد عرصہ تک روزنامہ ایکسپریس کراچی سے بحیثیت ایڈیٹر منسلک رہے اور روز بروز اس کی بڑھتی مقبولیت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ طاہر نجمی تقریبا پچاس برس سے صحافت سے منسلک تھے ، انھوں نے بحیثیت سب ایڈیٹر روزنامہ امن سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا ، بعدازاں وہ نیوزایڈیٹر بنے۔ کراچی پریس کلب اورکراچی یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری بھی رہے ، طاہر نجمی گرین پینل گروپ کے سربراہ بھی تھے۔
آپ دنیائے صحافت کا درخشاں ستارہ تھے ، حق و سچ کے علمبردار تھے۔ آپ کے اصولوں اور نظریات کو آپ کے شاگرد اور قاری کبھی فراموش نہیں کرسکتے، جس کے باعث آپ ان کے دلوں کی دھڑکن بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آپ نے آزادی اظہار کے لیے کسی قسم کی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ آپ اردو صحافت کے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے ، آپ جیسا شفیق سائبان مہربان حوصلے بڑھانے والا ، مسکراتے چہرے والا استاد جس شاگرد کو میسر آئے وہ شاگرد بھی کیسا گوہر نایاب ہوگا۔
ان سے میرا تعارف انور احسن صدیقی کی معرفت ہوا ، جوکہ ڈی ایس ایف ، این ایس ایف کی تحریکوں سے وابستہ رہے تھے جس کی صف اول کی رہنماؤں میں راقم الحروف کی والدہ بھی شامل تھیں اور ان تحریکوں سے منسلک بہت سے رہنما اور کارکن ایس ایم کالج میں زیر تعلیم تھے جہاں میرے والد صدر شعبہ فلسفہ و نفسیات تھے۔
میرے والد طبیعت کے سخت اور اصول پسند تھے مگر ان تحریکوں سے وابستہ اکثریت متوسط اور غریب گھرانوں سے تھی جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ حصول معاش کی پریشانیوں میں مبتلا تھے ، میرے والد اپنے تمام طالب علموں سے انتہائی شفقت رکھتے اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی فرماتے ایسے طالب علموں کی نہ صرف مالی اعانت کرتے بلکہ الگ سے وقت نکال کر کالج میں ہی ان کے لیکچرز بھی کور کروا دیتے۔
اسی طرح میری والدہ جب سرکاری اسکول سے منسلک ہوئیں تو وہ غریب پسماندہ بچوں خصوصا لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات بالخصوص کتابیں ، یونیفارم و دیگر اپنی تنخواہ سے اٹھاتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھی وجوہات کی بناء پر جب میں کوئی خبر خصوصا اپنے والدین کے حوالے سے طاہر نجمی کو بھجواتا تو میری بھیجی گئی خبر کو بہت عمدہ طریقے سے شایع کرتے، وہ اتنے عظیم انسان تھے کہ ان کو اپنے عہدے اور شخصیت کا کبھی کوئی غرور نہ تھا وہ بہت انکساری سے ملتے جس کی وجہ سے وہ نظروں میں ہی نہیں دل میں بھی بہت بلند مقام پاتے۔
جب میرے والد محترم اس جہاں فانی سے رخصت ہوئے تو راقم الحروف بہت کرب میں تھا۔ میں نے انھیں موبائل پر کال کی اور کہا طاہر نجمی صاحب ، ابا چلے گئے ان کے منہ سے بے ساختہ ' اوہ' نکلا انھوں نے کہا '' بے شک ہر شے کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے'' پھرکسی صاحب کو فون دیا کہ '' یہ خبر کمپوز کر لو '' میں نے موبائل پر والد کی حیات و خدمات کا بہت مختصر جائزہ لکھوا دیا۔
قبل ازیں میرے والد کے لیے میری دعائے صحت کی اپیلوں کو بھی انھوں نے بڑے احسن طریقے سے شامل اشاعت کیا وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ ایک دفعہ میری ایک خبر مجھے نظر نہ آئی میں نے خفگی کا اظہارکیا تو انھوں نے اتنا پیارا جواب تحریر فرمایا '' مجھے بہت افسوس ہے کہ خبر آپ کی نظروں سے گذر نہیں سکی جب کہ وہ اگلے ہی روز لگ گئی تھی '' میں نے پھر سے اخبار دیکھا تو واقعی خبر اگلے ہی روز لگ چکی تھی میں بہت نادم ہوا اپنی غلطی پر میرے پاس الفاظ ہی نہیں بن رہے تھے کہ کیسے معذرت کرؤں پر پھر بھی میں نے ٹوٹے پھوٹے لفظ جمع کرکے معافی چاہی پر وہ قرار واقعی بڑے انسان تھے انھوں نے کسی بات کا برا نہیں منایا۔
ایک دفعہ مصروفیت کے باعث خبر کی اشاعت نہ ہوسکی میں نے یاد دہانی کروائی تو ان کی بڑائی دیکھیے انھوں نے معذرت کی اور دوبارہ بھیجنے کے لیے کہا ، ایسے ہی نجانے کتنے ان کی اچھائیوں کے واقعات راقم کے دل میں گھر کر گئے۔
پچھلے دنوں انھوں نے راقم کو اپنی علالت سے متعلق میسج کیا میں نے جواب میں ان کی کامل صحت وشفاء کی دعا کی اور کہا کہ وہ میرا اثاثہ ہیں جس پر انھوں نے شکریہ کا جواب لکھا۔ جمعرات کو اچانک مغرب کے بعد میرا دل انتہائی مللول سا ہوگیا ۔ گزشتہ روز جمعۃ المبارک کی صبح میں اپنے میسج دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر سب سے پہلے محمدبخش کے میسج پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ طاہر نجمی صاحب انتقال فرما گئے ، پڑھ کر اتنا دکھ پہنچا کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، دل ان کی اچھی یادوں کو دہرا رہا تھا۔
لب پر ان کے لیے دعائیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی ہمارے گھرکا مکین ہم سے دور چلا گیا جس کی یاد اب ہمیشہ ستائے گی۔ مزید میسج دیکھے تو اسٹیٹس پر کنعان کا بھی میسج تھا۔ کنعان سے راقم نے ان کے والد کی تعزیت کی مجھے ان سے بات کرکے دلی مسرت ہوئی کہ والدین نے ان کی تربیت اعلیٰ خطوط پر کی ہے انھوں نے انتہائی با ادب اور شائستہ انداز میں گفتگو کی۔ اللہ ہمارے طاہر نجمی کے بچوں کو کامیاب اور کامران کرے، ان کی عمر، رزق ، روزگار میں خیرو برکت رکھے۔
مجھے قوی امید ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی اور شاگرد بھی یقینا انھی خوبیوں کے مالک ہونگے اور ان کی اچھائیوں کو آگے بڑھائیں گے۔ روزنامہ ایکسپریس کے قاری ، مداح نہ صرف ان کے بچوں بلکہ ان کے ساتھیوں شاگردوں میں بھی انھی خوبیوں کا نظارہ کرنا چاہیں گے، جن سے انھوں نے حق و سچ کی شمع ہمیشہ جلائے رکھی۔
طاہر نجمی کی رحلت سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا تا دیر ممکن نہیں ، یہ انسان دوستی کی صفوں کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ طاہر نجمی آپ ہماری یادوں میں ، الفاظ میں ، دلوں میں اور دعاؤںمیں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ کریم آپ کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
دل یقین ہی نہیں کر پا رہا کہ آج آپ کے ساتھ ' تھے' کا صیغہ لگانا پڑ رہا ہے ، لیکن اس فانی دنیا میں جو آیا ہے اس سے ایک دن جانا بھی ہے مگر اصل کامیابی تو اس میں ہے کہ انسان اپنے حسن سلوک سے خلق خدا کے دل میں گھر کر لے۔
طاہر نجمی سابق صدر ضیاء الحق کے خلاف صحافیوں کی تحریک میں شامل رہے اور اس تحریک کے دوران سکھر جیل میں قید تنہائی کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اس مشقت کے دوران آپ نے تمام پیش کشوںکو ٹھکرا دیا اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا، سی پی این ای کے فعال ممبر تھے۔
بیس برس سے زائد عرصہ تک روزنامہ ایکسپریس کراچی سے بحیثیت ایڈیٹر منسلک رہے اور روز بروز اس کی بڑھتی مقبولیت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ طاہر نجمی تقریبا پچاس برس سے صحافت سے منسلک تھے ، انھوں نے بحیثیت سب ایڈیٹر روزنامہ امن سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا ، بعدازاں وہ نیوزایڈیٹر بنے۔ کراچی پریس کلب اورکراچی یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری بھی رہے ، طاہر نجمی گرین پینل گروپ کے سربراہ بھی تھے۔
آپ دنیائے صحافت کا درخشاں ستارہ تھے ، حق و سچ کے علمبردار تھے۔ آپ کے اصولوں اور نظریات کو آپ کے شاگرد اور قاری کبھی فراموش نہیں کرسکتے، جس کے باعث آپ ان کے دلوں کی دھڑکن بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آپ نے آزادی اظہار کے لیے کسی قسم کی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ آپ اردو صحافت کے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے ، آپ جیسا شفیق سائبان مہربان حوصلے بڑھانے والا ، مسکراتے چہرے والا استاد جس شاگرد کو میسر آئے وہ شاگرد بھی کیسا گوہر نایاب ہوگا۔
ان سے میرا تعارف انور احسن صدیقی کی معرفت ہوا ، جوکہ ڈی ایس ایف ، این ایس ایف کی تحریکوں سے وابستہ رہے تھے جس کی صف اول کی رہنماؤں میں راقم الحروف کی والدہ بھی شامل تھیں اور ان تحریکوں سے منسلک بہت سے رہنما اور کارکن ایس ایم کالج میں زیر تعلیم تھے جہاں میرے والد صدر شعبہ فلسفہ و نفسیات تھے۔
میرے والد طبیعت کے سخت اور اصول پسند تھے مگر ان تحریکوں سے وابستہ اکثریت متوسط اور غریب گھرانوں سے تھی جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ حصول معاش کی پریشانیوں میں مبتلا تھے ، میرے والد اپنے تمام طالب علموں سے انتہائی شفقت رکھتے اور ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی فرماتے ایسے طالب علموں کی نہ صرف مالی اعانت کرتے بلکہ الگ سے وقت نکال کر کالج میں ہی ان کے لیکچرز بھی کور کروا دیتے۔
اسی طرح میری والدہ جب سرکاری اسکول سے منسلک ہوئیں تو وہ غریب پسماندہ بچوں خصوصا لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات بالخصوص کتابیں ، یونیفارم و دیگر اپنی تنخواہ سے اٹھاتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھی وجوہات کی بناء پر جب میں کوئی خبر خصوصا اپنے والدین کے حوالے سے طاہر نجمی کو بھجواتا تو میری بھیجی گئی خبر کو بہت عمدہ طریقے سے شایع کرتے، وہ اتنے عظیم انسان تھے کہ ان کو اپنے عہدے اور شخصیت کا کبھی کوئی غرور نہ تھا وہ بہت انکساری سے ملتے جس کی وجہ سے وہ نظروں میں ہی نہیں دل میں بھی بہت بلند مقام پاتے۔
جب میرے والد محترم اس جہاں فانی سے رخصت ہوئے تو راقم الحروف بہت کرب میں تھا۔ میں نے انھیں موبائل پر کال کی اور کہا طاہر نجمی صاحب ، ابا چلے گئے ان کے منہ سے بے ساختہ ' اوہ' نکلا انھوں نے کہا '' بے شک ہر شے کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے'' پھرکسی صاحب کو فون دیا کہ '' یہ خبر کمپوز کر لو '' میں نے موبائل پر والد کی حیات و خدمات کا بہت مختصر جائزہ لکھوا دیا۔
قبل ازیں میرے والد کے لیے میری دعائے صحت کی اپیلوں کو بھی انھوں نے بڑے احسن طریقے سے شامل اشاعت کیا وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ ایک دفعہ میری ایک خبر مجھے نظر نہ آئی میں نے خفگی کا اظہارکیا تو انھوں نے اتنا پیارا جواب تحریر فرمایا '' مجھے بہت افسوس ہے کہ خبر آپ کی نظروں سے گذر نہیں سکی جب کہ وہ اگلے ہی روز لگ گئی تھی '' میں نے پھر سے اخبار دیکھا تو واقعی خبر اگلے ہی روز لگ چکی تھی میں بہت نادم ہوا اپنی غلطی پر میرے پاس الفاظ ہی نہیں بن رہے تھے کہ کیسے معذرت کرؤں پر پھر بھی میں نے ٹوٹے پھوٹے لفظ جمع کرکے معافی چاہی پر وہ قرار واقعی بڑے انسان تھے انھوں نے کسی بات کا برا نہیں منایا۔
ایک دفعہ مصروفیت کے باعث خبر کی اشاعت نہ ہوسکی میں نے یاد دہانی کروائی تو ان کی بڑائی دیکھیے انھوں نے معذرت کی اور دوبارہ بھیجنے کے لیے کہا ، ایسے ہی نجانے کتنے ان کی اچھائیوں کے واقعات راقم کے دل میں گھر کر گئے۔
پچھلے دنوں انھوں نے راقم کو اپنی علالت سے متعلق میسج کیا میں نے جواب میں ان کی کامل صحت وشفاء کی دعا کی اور کہا کہ وہ میرا اثاثہ ہیں جس پر انھوں نے شکریہ کا جواب لکھا۔ جمعرات کو اچانک مغرب کے بعد میرا دل انتہائی مللول سا ہوگیا ۔ گزشتہ روز جمعۃ المبارک کی صبح میں اپنے میسج دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر سب سے پہلے محمدبخش کے میسج پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ طاہر نجمی صاحب انتقال فرما گئے ، پڑھ کر اتنا دکھ پہنچا کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، دل ان کی اچھی یادوں کو دہرا رہا تھا۔
لب پر ان کے لیے دعائیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی ہمارے گھرکا مکین ہم سے دور چلا گیا جس کی یاد اب ہمیشہ ستائے گی۔ مزید میسج دیکھے تو اسٹیٹس پر کنعان کا بھی میسج تھا۔ کنعان سے راقم نے ان کے والد کی تعزیت کی مجھے ان سے بات کرکے دلی مسرت ہوئی کہ والدین نے ان کی تربیت اعلیٰ خطوط پر کی ہے انھوں نے انتہائی با ادب اور شائستہ انداز میں گفتگو کی۔ اللہ ہمارے طاہر نجمی کے بچوں کو کامیاب اور کامران کرے، ان کی عمر، رزق ، روزگار میں خیرو برکت رکھے۔
مجھے قوی امید ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی اور شاگرد بھی یقینا انھی خوبیوں کے مالک ہونگے اور ان کی اچھائیوں کو آگے بڑھائیں گے۔ روزنامہ ایکسپریس کے قاری ، مداح نہ صرف ان کے بچوں بلکہ ان کے ساتھیوں شاگردوں میں بھی انھی خوبیوں کا نظارہ کرنا چاہیں گے، جن سے انھوں نے حق و سچ کی شمع ہمیشہ جلائے رکھی۔
طاہر نجمی کی رحلت سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا تا دیر ممکن نہیں ، یہ انسان دوستی کی صفوں کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ طاہر نجمی آپ ہماری یادوں میں ، الفاظ میں ، دلوں میں اور دعاؤںمیں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ کریم آپ کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔