حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کا نزلہ کس پر گرے گا
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سارے معاملے کا پہلا نزلہ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے وزارت دفاع کے اضافی چارج پر گرے گا
LONDON:
وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری گھر وزیراعظم ہاؤس کے مکین وزیراعظم نواز شریف اپنی سیاسی زندگی اور وزارت عظمیٰ کے ادوار کے مشکل ترین مخمصے سے دوچار ہیں۔
وہ باہر کی دنیا کے اخبارات کی رپورٹس دیکھتے ہیں اور بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو انہیں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے حوصلہ افزاء باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار محض حکومت پاکستان سے مثبت رویہ روا رکھنے کی امید پر لاکھوں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چین، ترکی اور کوریا کے سربراہان مملکت اور وہاں کے سرمایہ کار و صنعت کار سے تبادلہ خیالات کے بعد وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں صنعتی ترقی و سماجی خوشحالی کے حوالے سے انتہائی مطمئن نظر آتے ہیں۔ مگر جونہی پاکستان پہنچتے ہیں تو انہیں ایک سے بڑھ کر ایک بڑے مسئلے، ناراضگی ، الجھن اور شخصیات واداروں کے درمیان مفادات اور اناؤں کی جنگ کی سی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔
یوں تو میاں محمد نواز شریف پہلی نہیں تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ اب کی بار انہیں پہلے سے بڑے چیلنجز کا بھی سامنا ہے اور وہ اہم قومی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ جوش جذبے اور خلوص سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وطن سے باہر سرمایہ کاری خوشحالی اور ترقی کی حوصلہ افزاء باتیں سننے والے ہمارے وزیراعظم کو پاکستان میں واپس داخل ہوتے ہی مایوسی، ناراضگیاں، گلے شکوے، ذاتی مفاد، انا، خوش فہمیاں، غلط فہمیاں، پرانے بدلے اور تازہ غصّے، مرد کا بچہ بننے اور بن کر دکھانے جیسے معاملات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وزیراعظم یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ وطن عزیز کے اکثر باسی کب تک کنوؤں کے مینڈک کی عادت اپنائے رکھیں گے یہ ناعاقبت اندیش غیر ضروری حد تک اناپرست لوگ باہر کی دنیا میں ہونے والی اقتصادی، کاروباری و سماجی ترقی کو دیکھ کر اپنے روّیے کیوں نہیں بدلتے۔
ابھی حال ہی میں چین کے کامیاب دورے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد پہنچے ہیں تو ان کے سامنے سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کا اہم ترین مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ان کی ٹیم کے اہم ترین کھلاڑی خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کی جانب سے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی ذات کے حوالے سے کیے گئے تبصروں اور اس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی جانب سے جاری کردہ آئی ایس پی آر کے بیان نے اداروں کے درمیان موجود تناؤ کی نشاندہی ضرور کر دی۔ اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہمارے اکثر میڈیا ارکان نے صبح، دوپہر، شام ہر معاملے کے منفی پہلوؤں کو ہی محض اجاگر کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھی اور بالآخر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حکومت اور فوج کے درمیان کچھ تناؤ کی سی صورتحال موجود ہے مگر ہم باہم رابطوں سے اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب اس تناؤ کے خاتمے کے لیے دونوں اطراف سے اپنی اپنی منوانے کے علاوہ دوسرے فریق کی بھی کچھ نہ کچھ ماننا ضرور پڑے گی۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سارے معاملے کا پہلا نزلہ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے وزارت دفاع کے اضافی چارج پر گرے گا۔ اس تناؤ کی صورتحال کے بعد وزارت دفاع کا چارج اس وقت تک وزیراعظم نواز شریف اپنے پاس رکھنا پسند کریں گے جب تک انہیں انتہائی دھیمے اور بے ضرر لہجے کا حامل رکن پارلیمنٹ دستیاب نہ ہو جائے۔ مسلم لیگ (ق) کے مشاہد حسین سید نے تو دو قدم آگے بڑھ کے یہ مشورہ بھی دے دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کو وزیر دفاع بنا دیا جائے جبکہ وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے نام بھی یہ قرعہ نکل سکتا ہے کہ پاک فوج کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار عبدالقادر بلوچ کے ماتحت افسر رہے ہیں اور دھیمے لہجے کے باعث ان کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے باہر لاکھوں روپے کی لاگت سے اضافی حفاظتی دیوار کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی بیرون ملک روانگی کے امکانات کم ہیں جبکہ ان کے نئے نامزد وکیل بیرسٹر فروغ نسیم بھی پرویز مشرف کے عدالتی معاملے کو جذبات سے قطع نظر کلی طور پر ایک قانونی جنگ کی صورت میں لڑنے کا ارادہ اور کام شروع کر چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف بھی کسی خاص ہدایت کے تحت بیک فٹ پر جا چکے ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک اور رکن احسن اقبال نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف اپنی توپوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو امن مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے عسکری قیادت، صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ اور قبائلی جرگہ کی قیادت سمیت قومی میڈیا کے تعاون کی بھی ضرورت ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ قیام امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی کامیابی کے لیے پوری قوم متفق اور دعاگو ہے۔
اس دوران البتہ وزیراعظم نواز شریف کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ضرور ملاقات کرکے ان کے گلے شکوے دور کرنا ہوں گے۔ ناراض اراکین قومی اسمبلی میں 3 اراکین کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ بھی قومی اسمبلی کے گزشتہ سیشن میں حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی سے بائیکاٹ کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ وزارت کے مطالبے کے علاوہ ان اراکین فاٹا کا یہ مطالبہ انتہائی جائز معلوم ہوتا ہے کہ وزراء ہماری عزت نہیں کرتے اور فاٹا میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہمیں شامل نہیں کیا جا رہا۔ ہم مسلم لیگ (ن) کے نام پر فاٹا سے ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی بنے ہیں اور ہمیں ہی معاملات سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف یو ایس ایڈ سمیت متعدد بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے فاٹا میں انتخابی و جمہوری اصلاحات کے حوالے سے سیمینارز کانفرنسیں اور ورکشاپس کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف پہلے سے منتخب عوامی نمائندوں کو ان کے ہی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی سنجیدہ کوششوں اور عملی اقدامات سے انتہائی غیر سنجیدگی سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
باہر اور اندر کے معاملے پر تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت بھی بے حد پریشان ہیں کہ انہیں یہ ہی نہیں معلوم کہ وہ حکومت میں شامل ہیں یا حکومت سے باہر ہیں کہ ان کے دو وزراء اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھائے ایک مدت ہو چکی ہے مگر ابھی تک انہیں وزارتوں کے قلمدان نہیں سونپے گئے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم نواز شریف آئندہ ایک دو روز میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرکے ان کے لیے وزارتوں اور محکموں کا اعلان کر دیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمان بھی مواصلات اور ہاؤسنگ جیسی تگڑی وزارتوں کے حصول کی ضد چھوڑ کر جو ملیں اسی پر اکتفا کر لیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی تقرری کا معاملہ اس حد تک طوالت اختیار کر چکا تھا کہ گزشتہ روز عدالت کو یہ احکامات جاری کرنا پڑے کہ حکومت 15 یوم کے اندر چیئرمین تعینات کرے۔ ادھر عدالت کے احکامات آنے کی دیر تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار احمد کو چیئرمین تعینات کرکے عدالتی حکم کی تعمیل کر دی ۔ ڈاکٹر مختار احمد کی تعیناتی اس اعتبار سے خوش آئند فیصلہ ہے کہ انہیں اس ادارے میں پہلے بحیثیت ڈائریکٹر اور بعد ازاں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے اس وقت دستیاب امیدواروں میں سے وہی اس اہم قومی ادارے کے معاملات بہتر اندازے میں چلا سکتے ہیں۔ دیگر معاملات میں بھی وزیراعظم پاکستان سے اسی سرعت کی توقع کی جانی چاہیے۔
وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری گھر وزیراعظم ہاؤس کے مکین وزیراعظم نواز شریف اپنی سیاسی زندگی اور وزارت عظمیٰ کے ادوار کے مشکل ترین مخمصے سے دوچار ہیں۔
وہ باہر کی دنیا کے اخبارات کی رپورٹس دیکھتے ہیں اور بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو انہیں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے حوصلہ افزاء باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار محض حکومت پاکستان سے مثبت رویہ روا رکھنے کی امید پر لاکھوں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چین، ترکی اور کوریا کے سربراہان مملکت اور وہاں کے سرمایہ کار و صنعت کار سے تبادلہ خیالات کے بعد وزیراعظم نواز شریف پاکستان میں صنعتی ترقی و سماجی خوشحالی کے حوالے سے انتہائی مطمئن نظر آتے ہیں۔ مگر جونہی پاکستان پہنچتے ہیں تو انہیں ایک سے بڑھ کر ایک بڑے مسئلے، ناراضگی ، الجھن اور شخصیات واداروں کے درمیان مفادات اور اناؤں کی جنگ کی سی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔
یوں تو میاں محمد نواز شریف پہلی نہیں تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ اب کی بار انہیں پہلے سے بڑے چیلنجز کا بھی سامنا ہے اور وہ اہم قومی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ جوش جذبے اور خلوص سے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وطن سے باہر سرمایہ کاری خوشحالی اور ترقی کی حوصلہ افزاء باتیں سننے والے ہمارے وزیراعظم کو پاکستان میں واپس داخل ہوتے ہی مایوسی، ناراضگیاں، گلے شکوے، ذاتی مفاد، انا، خوش فہمیاں، غلط فہمیاں، پرانے بدلے اور تازہ غصّے، مرد کا بچہ بننے اور بن کر دکھانے جیسے معاملات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں وزیراعظم یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ وطن عزیز کے اکثر باسی کب تک کنوؤں کے مینڈک کی عادت اپنائے رکھیں گے یہ ناعاقبت اندیش غیر ضروری حد تک اناپرست لوگ باہر کی دنیا میں ہونے والی اقتصادی، کاروباری و سماجی ترقی کو دیکھ کر اپنے روّیے کیوں نہیں بدلتے۔
ابھی حال ہی میں چین کے کامیاب دورے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد پہنچے ہیں تو ان کے سامنے سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کا اہم ترین مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ان کی ٹیم کے اہم ترین کھلاڑی خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کی جانب سے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی ذات کے حوالے سے کیے گئے تبصروں اور اس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی جانب سے جاری کردہ آئی ایس پی آر کے بیان نے اداروں کے درمیان موجود تناؤ کی نشاندہی ضرور کر دی۔ اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہمارے اکثر میڈیا ارکان نے صبح، دوپہر، شام ہر معاملے کے منفی پہلوؤں کو ہی محض اجاگر کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھی اور بالآخر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حکومت اور فوج کے درمیان کچھ تناؤ کی سی صورتحال موجود ہے مگر ہم باہم رابطوں سے اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب اس تناؤ کے خاتمے کے لیے دونوں اطراف سے اپنی اپنی منوانے کے علاوہ دوسرے فریق کی بھی کچھ نہ کچھ ماننا ضرور پڑے گی۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سارے معاملے کا پہلا نزلہ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے وزارت دفاع کے اضافی چارج پر گرے گا۔ اس تناؤ کی صورتحال کے بعد وزارت دفاع کا چارج اس وقت تک وزیراعظم نواز شریف اپنے پاس رکھنا پسند کریں گے جب تک انہیں انتہائی دھیمے اور بے ضرر لہجے کا حامل رکن پارلیمنٹ دستیاب نہ ہو جائے۔ مسلم لیگ (ق) کے مشاہد حسین سید نے تو دو قدم آگے بڑھ کے یہ مشورہ بھی دے دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کو وزیر دفاع بنا دیا جائے جبکہ وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے نام بھی یہ قرعہ نکل سکتا ہے کہ پاک فوج کے بہت سے اعلیٰ عہدیدار عبدالقادر بلوچ کے ماتحت افسر رہے ہیں اور دھیمے لہجے کے باعث ان کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے باہر لاکھوں روپے کی لاگت سے اضافی حفاظتی دیوار کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی بیرون ملک روانگی کے امکانات کم ہیں جبکہ ان کے نئے نامزد وکیل بیرسٹر فروغ نسیم بھی پرویز مشرف کے عدالتی معاملے کو جذبات سے قطع نظر کلی طور پر ایک قانونی جنگ کی صورت میں لڑنے کا ارادہ اور کام شروع کر چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف بھی کسی خاص ہدایت کے تحت بیک فٹ پر جا چکے ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے ایک اور رکن احسن اقبال نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف اپنی توپوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو امن مذاکرات کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے عسکری قیادت، صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ اور قبائلی جرگہ کی قیادت سمیت قومی میڈیا کے تعاون کی بھی ضرورت ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ قیام امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کی کامیابی کے لیے پوری قوم متفق اور دعاگو ہے۔
اس دوران البتہ وزیراعظم نواز شریف کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ضرور ملاقات کرکے ان کے گلے شکوے دور کرنا ہوں گے۔ ناراض اراکین قومی اسمبلی میں 3 اراکین کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ بھی قومی اسمبلی کے گزشتہ سیشن میں حکومت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی سے بائیکاٹ کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ وزارت کے مطالبے کے علاوہ ان اراکین فاٹا کا یہ مطالبہ انتہائی جائز معلوم ہوتا ہے کہ وزراء ہماری عزت نہیں کرتے اور فاٹا میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہمیں شامل نہیں کیا جا رہا۔ ہم مسلم لیگ (ن) کے نام پر فاٹا سے ووٹ لے کر رکن قومی اسمبلی بنے ہیں اور ہمیں ہی معاملات سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف یو ایس ایڈ سمیت متعدد بین الاقوامی ڈونرز کی مدد سے فاٹا میں انتخابی و جمہوری اصلاحات کے حوالے سے سیمینارز کانفرنسیں اور ورکشاپس کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف پہلے سے منتخب عوامی نمائندوں کو ان کے ہی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی سنجیدہ کوششوں اور عملی اقدامات سے انتہائی غیر سنجیدگی سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
باہر اور اندر کے معاملے پر تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت بھی بے حد پریشان ہیں کہ انہیں یہ ہی نہیں معلوم کہ وہ حکومت میں شامل ہیں یا حکومت سے باہر ہیں کہ ان کے دو وزراء اکرم خان درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو وفاقی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھائے ایک مدت ہو چکی ہے مگر ابھی تک انہیں وزارتوں کے قلمدان نہیں سونپے گئے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم نواز شریف آئندہ ایک دو روز میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرکے ان کے لیے وزارتوں اور محکموں کا اعلان کر دیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ مولانا فضل الرحمان بھی مواصلات اور ہاؤسنگ جیسی تگڑی وزارتوں کے حصول کی ضد چھوڑ کر جو ملیں اسی پر اکتفا کر لیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی تقرری کا معاملہ اس حد تک طوالت اختیار کر چکا تھا کہ گزشتہ روز عدالت کو یہ احکامات جاری کرنا پڑے کہ حکومت 15 یوم کے اندر چیئرمین تعینات کرے۔ ادھر عدالت کے احکامات آنے کی دیر تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار احمد کو چیئرمین تعینات کرکے عدالتی حکم کی تعمیل کر دی ۔ ڈاکٹر مختار احمد کی تعیناتی اس اعتبار سے خوش آئند فیصلہ ہے کہ انہیں اس ادارے میں پہلے بحیثیت ڈائریکٹر اور بعد ازاں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے اس وقت دستیاب امیدواروں میں سے وہی اس اہم قومی ادارے کے معاملات بہتر اندازے میں چلا سکتے ہیں۔ دیگر معاملات میں بھی وزیراعظم پاکستان سے اسی سرعت کی توقع کی جانی چاہیے۔