مفلسی اور شوکت صدیقی کا قلم
’’خدا کی بستی‘‘ اب پورے ملک میں پھیل گئی ہے اور اس کے کردار زیادہ خوفناک، زیادہ کمینے، زیادہ سفاک ہوگئے ہیں
عظمیٰ فرمان خوش رہیں کہ انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں شوکت صدیقی کا صدسالہ جشن منایا۔ انھوں نے بہت محبت سے مجھے بھی اس جشن میں مدعو کیا تھا لیکن میں اپنی ناسازی طبع کے باعث اس میں شرکت نہ کرسکی۔
اس کی ندامت عظمیٰ سے کہیں زیادہ شوکت صدیقی سے ہے، اس لیے کہ وہ میرے محسنین میں سے ہیں۔ ان سے میری نیاز مندی کا زمانہ بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ ''ہم قلم'' کے مدیر تھے اور میرا پہلا افسانہ ان ہی نے شایع کیا۔ یہ بھی وہی تھے کہ روزنامہ ''انجام'' کی ادارت کے زمانے میں انھوں نے اس اخبار میں میری کئی تحریریں شایع کیں، میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ افسانہ لکھو اور صحافت بھی کرو۔
یوں تو ان دونوں میں بہت فاصلہ ہے لیکن آج کے زمانے میں کچھ لوگ ان دونوں کو شیر و شکر کرنے کا ہنر سیکھ گئے ہیں۔ کوشش کرو کہ یہ ہنر تمہیں بھی آجائے۔ میں وہ ہنر تو کیا سیکھتی! ہاں یہ ضرور ہوا کہ ادب اور صحافت دونوں میدانوں میں اپنی سی کوشش کرتی رہی۔
وہ مارکس وادی تھے اور آخر تک ان کا رشتہ اسی فلسفہ حیات سے رہا۔ ان کی رخصت کے ساتھ ہی اردو ادب کے اس سنہرے دور کا خاتمہ ہوا جس کی ترقی پسند تحریک نے رشید جہاں، عصمت چغتائی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی اور شوکت صدیقی جیسے کئی درخشاں نام دیے تھے۔ ان ناموں کی تابانی سے آج بھی اردو ادب کا افق منور ہے۔ وہ ادب کے شناور تھے، اپنا روزگار بھی انھوں نے لفظ گری میں ہی تلاش کیا۔ پاکستان کے متعدد اہم اور بڑے اخباروں سے وابستہ ہوئے، ان کے مدیر رہے۔
شوکت صاحب نے اپنی تحریری زندگی 1940 میں ایک کہانی ''کون کسی کا'' سے شروع کی تھی اور اس کے بعد وہ دم لینے کو نہیں ٹھہرے۔ ان کی کہانیوں کے چار مجموعے اور دو ناولٹ شایع ہوئے۔ ''خدا کی بستی'' کے بعد انھوں نے ''جانگلوس'' اور ''چار دیواری'' لکھا لیکن شہرت عام انھیں اپنے پہلے ناول سے ہی حاصل ہوئی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بستی بنانا کھیل نہیں لیکن شوکت صدیقی کے ہاتھ میں ایک خلاق قلم تھا، تب ہی انھوں نے50ء کی دہائی کے آخری دنوں میں کاغذ پر ''خدا کی بستی'' آباد کی، ایک ایسی بستی جس میں نوعمر نوشہ تھا جسے 14 برس کی قید بامشقت کاٹنی تھی۔ اس کی بہن سلطانہ اور اس کی بیوہ ماں تھی جس کے نصیبوں میں قتل ہونا لکھا تھا۔
چور، اُچکّے، جیب کترے اور نوسرباز تھے، خواب دیکھنے اور دکھانے والے تھے، خان بہادر فرزند علی ایسے ایمان اور عدل خریدنے والے تھے، سلمان کی طرح بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جانے والے تھے۔ زندگی اس ناول کے بے بس اور بے آسرا کرداروں کو جیل دیتی تھی اور ان کے چاروں طرف اندھیرے پھیل جاتے تھے، تنہائی اور بے چارگی انھیں اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
اس اندھیری اور مایوس کردینے والی فضا میں وہ بھی تھے جوٹریڈ یونین بناتے تھے، اسکائی لارک اور فلک پیما کے لیے کام کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ سیاست صرف کاروبار حکومت میں حصہ لینے کا نام نہیں۔ یہ بنیادی طور پر سماج میں اقتصادی رشتوں کا اظہار ہے۔ اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ کارخانے دار بھی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اور مزدور بھی۔ دونوں ہی انسان ہوتے ہیں۔ مگر جب مزدور اپنے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بناتے ہیں تو اسی وقت سے اقتصادی رشتوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
اس طرح جب آپ غربت، پس ماندگی اور سماجی اور اقتصادی عدم توازن ختم کر کے مساوات قائم کرنے اور سماج کو صحتمند اور خوبصورت بنانے کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کرتے ہیں تویہ جدوجہد ان طبقات اور سماجی گروہوں کے خلاف ہوتی ہے جو محنت کش عوام کی غربت اور پس ماندگی کا باعث ہیں۔ جوان کی محنت کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ جدوجہد سیاست ہے۔
آس اور نراس کی لہروں پرڈوبتے ابھرتے ہوئے یہ کردار شوکت صدیقی نے کراچی شہر کی گلیوں اور بازاروں سے اٹھائے تھے، ساڑھے تین لاکھ کا ایک ایسا پرامن شہر جسے اچانک لاکھوں لٹے پٹے اور حواس باختہ لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹنا پڑا۔ ان لوگوںمیں وہ شریف و نجیب تھے جن کے لاکھوں کے گھر خاک ہوگئے تھے اور وہ بھی جو اس نئے انقلاب زمانہ سے دولت کشید کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور اس کے لیے ہر جرم جائز تھا۔ ہر کمینگی روا تھی۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب تقسیم کے زخم ہرے تھے۔
ترک وطن کرکے نئے آسمان کے سائے میں نئی زمین پر زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ لاکھوں کو درپیش تھا۔ ایک ایسی صورتحال میں جب سب کو اپنی پڑی ہو اور چھین جھپٹ کامیابی کا اصول بن گئی ہو تو خدا کی ایسی ہی بستیاں وجود میں آتی ہیں۔ شوکت صاحب نے اس زمانے کے کراچی کو دیکھا، برتا اور پھر اس انداز سے لکھا کہ ان کا یہ ناول اپنے عہد کاعکس بن گیا۔ ایسا عکس جس میں ہم اپنے چہرے پہچان سکتے ہیں۔
ہندوستان کے مشہور ادیب اور صحافی خوشونت سنگھ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ شوکت صدیقی نے بڑے کینوس پر ناکارہ ریاستی نظم و نسق، حکمراں طبقے کی مکروہ بدعنوانی ، دیانت دار اور محب وطن عناصر پر نااہل اور بداطوار لوگوںکی بالادستی کی نہایت اعلیٰ تصویر کشی کی ہے۔ جہاں امیر، امیر ترین اور غریب، غربت اور تنگدستی کی مزید گہرائی میں گرتے جارہے ہیں۔ ''خدا کی بستی'' بدعنوان پاکستانی سماج پر بڑا بھرپور طنز ہے۔
بہت سے لوگوں کو خوشونت سنگھ کا یہ تبصرہ پسند نہیں آیا تھا لیکن شوکت صاحب کا ناول اور اس پر یہ تبصرہ آج کچھ زیادہ بھیانک سچ بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ ''خدا کی بستی'' اب پورے ملک میں پھیل گئی ہے اور اس کے کردار زیادہ خوفناک، زیادہ کمینے، زیادہ سفاک ہوگئے ہیں۔
شوکت صاحب پاکستان کے ان خوش نصیب ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے شہرت، عزت اوردولت سب ہی کچھ اپنے قلم سے حاصل کی۔ وہ اردو ادب کا ایک اہم اور بڑا نام تھے، لیکن یہ ایک المناک بات ہے کہ ہم اپنے ادیبوں کو ان کی تحریروں سے کہیں زیادہ اس کی ڈرامائی تشکیل سے پہچانتے ہیں۔ شوکت صاحب بھی اپنے مشہور ناول ''خدا کی بستی'' کی ڈرامائی تشکیل سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
ہر مرتبہ ان کے ناول کی ڈرامائی تشکیل نشر ہوئی ''خدا کی بستی'' کی فروخت میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوا۔ اب تک اس کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں اس کے وڈیو کیسٹ اور ڈی وی ڈی فروخت ہوچکے ہیں۔ دنیا کی چھبیس زبانوںمیں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے جن میں اردو کے برطانوی ادیب اور نقاد ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کا انگریزی ترجمہ سرفہرست ہے۔
''خدا کی بستی'' کے برسوں بعد انھوں نے ''جانگلوس'' لکھا جو فیوڈل پنجاب کی داستان ہے۔ اس ناول نے شوکت صاحب کی مقبولیت اور احترام میں کچھ اور اضافہ کیا۔ ''جانگلوس'' کو شوکت صدیقی نے اس وقت لکھا جب ان کا قلم کچھ اور پختہ ہوچکا تھا۔ اسے لکھنے کے لیے انھوں نے پنجاب کی تاریخ جغرافیہ اور تہذیب گھول کر پی لی، تب ہی وہ اس علاقے کے بچھڑ جانے والوں کی داستان لکھ سکے۔
''خدا کی بستی'' اور ''جانگلوس'' دو مختلف جغرافیائی منطقوں میں زندگی بسر کرنے والوں، دو یکسر مختلف تہذیبی اور لسانی دھاروں میں بہنے والوں، شہری اور دیہی جہنموں کا نوالہ بننے والوں کی داستانیں ہیں لیکن یہ شوکت صاحب کے تخلیقی وفور اور سماجی حقیقت نگاری کا کمال ہے کہ انھوں نے دونوں ناولوں کے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا۔
''جانگلوس'' میں جیل سے فرار ہونے والے رحیم داد اور لالی ہیں جو رات کے اندھیرے میں بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے، چھپتے چھپاتے دوبارہ گرفتار ہوجانے کے خوف سے نڈھال بھاگ رہے ہیں۔ ایسے میں ایک ٹرک اورکار کا حادثہ ہوتا ہے۔ تباہ شدہ کار سے آنے والی کراہ سن کر ان سے ضبط نہیں ہوتا۔ وہ اس طرف بھاگتے ہیں۔ شاید کوئی بچ گیا ہو، شاید وہ کسی کی جان بچاسکتے ہوں۔
اس کے بعد کا منظر شوکت صاحب کے قلم نے یوں لکھا ہے: ''قریب جاکر انھوں نے دیکھا۔ کار کے جھلسے ہوئے ڈھانچے کے نیچے ایک لاش دبی ہوئی ہے۔ آدھا دھڑ الٹی ہوئی کار کے نیچے سے باہر نکلا ہوا ہے۔ چہرہ اور ہاتھ جل کر سیاہ پڑگئے ہیں۔ ہر طرف جلے ہوئے گوشت کی تیز بو پھیلی ہوئی تھی۔ ڈھانچے کے آس پاس کار کے ٹوٹے ہوئے دروازے، دو پہیے اور دوسرے حصے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ چاندنی میں رحیم داد نے کوئی چیز دیکھی اور اس پر بلی کی طرح تیزی سے جھپٹا۔ یہ ایک مڑی تڑی روٹی تھی۔ رحیم داد نے اسے جھٹ اٹھایا۔ اس میں لگی ہوئی ریت اور مٹی صاف کیے بغیر بے صبری سے ہبڑ ہبڑ کھانے لگا۔''
روٹی دنیا کی سب سے بڑی نعمت، بھوک دنیا کی سب سے سفاک حقیقت لیکن ہمارے اردگرد وہ لوگ بھی ہیں جن کے اندر دولت، عیش و عشرت، اقتدار اور جاہ پرستی کا ایک ایسا کنواں ہے جس کی تھاہ نہیں اور جس نے ہمارے سماج کے اَن گنت لوگوں کو اپنا نوالہ بنالیا ہے۔ ان کے بعد پاکستان کے افتادگان خاک کی ایسی تمثیل کون لکھے گا؟
اس کی ندامت عظمیٰ سے کہیں زیادہ شوکت صدیقی سے ہے، اس لیے کہ وہ میرے محسنین میں سے ہیں۔ ان سے میری نیاز مندی کا زمانہ بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ ''ہم قلم'' کے مدیر تھے اور میرا پہلا افسانہ ان ہی نے شایع کیا۔ یہ بھی وہی تھے کہ روزنامہ ''انجام'' کی ادارت کے زمانے میں انھوں نے اس اخبار میں میری کئی تحریریں شایع کیں، میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ افسانہ لکھو اور صحافت بھی کرو۔
یوں تو ان دونوں میں بہت فاصلہ ہے لیکن آج کے زمانے میں کچھ لوگ ان دونوں کو شیر و شکر کرنے کا ہنر سیکھ گئے ہیں۔ کوشش کرو کہ یہ ہنر تمہیں بھی آجائے۔ میں وہ ہنر تو کیا سیکھتی! ہاں یہ ضرور ہوا کہ ادب اور صحافت دونوں میدانوں میں اپنی سی کوشش کرتی رہی۔
وہ مارکس وادی تھے اور آخر تک ان کا رشتہ اسی فلسفہ حیات سے رہا۔ ان کی رخصت کے ساتھ ہی اردو ادب کے اس سنہرے دور کا خاتمہ ہوا جس کی ترقی پسند تحریک نے رشید جہاں، عصمت چغتائی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی اور شوکت صدیقی جیسے کئی درخشاں نام دیے تھے۔ ان ناموں کی تابانی سے آج بھی اردو ادب کا افق منور ہے۔ وہ ادب کے شناور تھے، اپنا روزگار بھی انھوں نے لفظ گری میں ہی تلاش کیا۔ پاکستان کے متعدد اہم اور بڑے اخباروں سے وابستہ ہوئے، ان کے مدیر رہے۔
شوکت صاحب نے اپنی تحریری زندگی 1940 میں ایک کہانی ''کون کسی کا'' سے شروع کی تھی اور اس کے بعد وہ دم لینے کو نہیں ٹھہرے۔ ان کی کہانیوں کے چار مجموعے اور دو ناولٹ شایع ہوئے۔ ''خدا کی بستی'' کے بعد انھوں نے ''جانگلوس'' اور ''چار دیواری'' لکھا لیکن شہرت عام انھیں اپنے پہلے ناول سے ہی حاصل ہوئی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بستی بنانا کھیل نہیں لیکن شوکت صدیقی کے ہاتھ میں ایک خلاق قلم تھا، تب ہی انھوں نے50ء کی دہائی کے آخری دنوں میں کاغذ پر ''خدا کی بستی'' آباد کی، ایک ایسی بستی جس میں نوعمر نوشہ تھا جسے 14 برس کی قید بامشقت کاٹنی تھی۔ اس کی بہن سلطانہ اور اس کی بیوہ ماں تھی جس کے نصیبوں میں قتل ہونا لکھا تھا۔
چور، اُچکّے، جیب کترے اور نوسرباز تھے، خواب دیکھنے اور دکھانے والے تھے، خان بہادر فرزند علی ایسے ایمان اور عدل خریدنے والے تھے، سلمان کی طرح بیچ منجدھار میں چھوڑ کر جانے والے تھے۔ زندگی اس ناول کے بے بس اور بے آسرا کرداروں کو جیل دیتی تھی اور ان کے چاروں طرف اندھیرے پھیل جاتے تھے، تنہائی اور بے چارگی انھیں اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
اس اندھیری اور مایوس کردینے والی فضا میں وہ بھی تھے جوٹریڈ یونین بناتے تھے، اسکائی لارک اور فلک پیما کے لیے کام کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ سیاست صرف کاروبار حکومت میں حصہ لینے کا نام نہیں۔ یہ بنیادی طور پر سماج میں اقتصادی رشتوں کا اظہار ہے۔ اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ کارخانے دار بھی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اور مزدور بھی۔ دونوں ہی انسان ہوتے ہیں۔ مگر جب مزدور اپنے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بناتے ہیں تو اسی وقت سے اقتصادی رشتوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
اس طرح جب آپ غربت، پس ماندگی اور سماجی اور اقتصادی عدم توازن ختم کر کے مساوات قائم کرنے اور سماج کو صحتمند اور خوبصورت بنانے کے لیے جدوجہد کرنے کا عزم کرتے ہیں تویہ جدوجہد ان طبقات اور سماجی گروہوں کے خلاف ہوتی ہے جو محنت کش عوام کی غربت اور پس ماندگی کا باعث ہیں۔ جوان کی محنت کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ جدوجہد سیاست ہے۔
آس اور نراس کی لہروں پرڈوبتے ابھرتے ہوئے یہ کردار شوکت صدیقی نے کراچی شہر کی گلیوں اور بازاروں سے اٹھائے تھے، ساڑھے تین لاکھ کا ایک ایسا پرامن شہر جسے اچانک لاکھوں لٹے پٹے اور حواس باختہ لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹنا پڑا۔ ان لوگوںمیں وہ شریف و نجیب تھے جن کے لاکھوں کے گھر خاک ہوگئے تھے اور وہ بھی جو اس نئے انقلاب زمانہ سے دولت کشید کرنے کے لیے کمربستہ تھے اور اس کے لیے ہر جرم جائز تھا۔ ہر کمینگی روا تھی۔ یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب تقسیم کے زخم ہرے تھے۔
ترک وطن کرکے نئے آسمان کے سائے میں نئی زمین پر زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ لاکھوں کو درپیش تھا۔ ایک ایسی صورتحال میں جب سب کو اپنی پڑی ہو اور چھین جھپٹ کامیابی کا اصول بن گئی ہو تو خدا کی ایسی ہی بستیاں وجود میں آتی ہیں۔ شوکت صاحب نے اس زمانے کے کراچی کو دیکھا، برتا اور پھر اس انداز سے لکھا کہ ان کا یہ ناول اپنے عہد کاعکس بن گیا۔ ایسا عکس جس میں ہم اپنے چہرے پہچان سکتے ہیں۔
ہندوستان کے مشہور ادیب اور صحافی خوشونت سنگھ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ شوکت صدیقی نے بڑے کینوس پر ناکارہ ریاستی نظم و نسق، حکمراں طبقے کی مکروہ بدعنوانی ، دیانت دار اور محب وطن عناصر پر نااہل اور بداطوار لوگوںکی بالادستی کی نہایت اعلیٰ تصویر کشی کی ہے۔ جہاں امیر، امیر ترین اور غریب، غربت اور تنگدستی کی مزید گہرائی میں گرتے جارہے ہیں۔ ''خدا کی بستی'' بدعنوان پاکستانی سماج پر بڑا بھرپور طنز ہے۔
بہت سے لوگوں کو خوشونت سنگھ کا یہ تبصرہ پسند نہیں آیا تھا لیکن شوکت صاحب کا ناول اور اس پر یہ تبصرہ آج کچھ زیادہ بھیانک سچ بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ ''خدا کی بستی'' اب پورے ملک میں پھیل گئی ہے اور اس کے کردار زیادہ خوفناک، زیادہ کمینے، زیادہ سفاک ہوگئے ہیں۔
شوکت صاحب پاکستان کے ان خوش نصیب ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے شہرت، عزت اوردولت سب ہی کچھ اپنے قلم سے حاصل کی۔ وہ اردو ادب کا ایک اہم اور بڑا نام تھے، لیکن یہ ایک المناک بات ہے کہ ہم اپنے ادیبوں کو ان کی تحریروں سے کہیں زیادہ اس کی ڈرامائی تشکیل سے پہچانتے ہیں۔ شوکت صاحب بھی اپنے مشہور ناول ''خدا کی بستی'' کی ڈرامائی تشکیل سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
ہر مرتبہ ان کے ناول کی ڈرامائی تشکیل نشر ہوئی ''خدا کی بستی'' کی فروخت میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوا۔ اب تک اس کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں اس کے وڈیو کیسٹ اور ڈی وی ڈی فروخت ہوچکے ہیں۔ دنیا کی چھبیس زبانوںمیں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے جن میں اردو کے برطانوی ادیب اور نقاد ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کا انگریزی ترجمہ سرفہرست ہے۔
''خدا کی بستی'' کے برسوں بعد انھوں نے ''جانگلوس'' لکھا جو فیوڈل پنجاب کی داستان ہے۔ اس ناول نے شوکت صاحب کی مقبولیت اور احترام میں کچھ اور اضافہ کیا۔ ''جانگلوس'' کو شوکت صدیقی نے اس وقت لکھا جب ان کا قلم کچھ اور پختہ ہوچکا تھا۔ اسے لکھنے کے لیے انھوں نے پنجاب کی تاریخ جغرافیہ اور تہذیب گھول کر پی لی، تب ہی وہ اس علاقے کے بچھڑ جانے والوں کی داستان لکھ سکے۔
''خدا کی بستی'' اور ''جانگلوس'' دو مختلف جغرافیائی منطقوں میں زندگی بسر کرنے والوں، دو یکسر مختلف تہذیبی اور لسانی دھاروں میں بہنے والوں، شہری اور دیہی جہنموں کا نوالہ بننے والوں کی داستانیں ہیں لیکن یہ شوکت صاحب کے تخلیقی وفور اور سماجی حقیقت نگاری کا کمال ہے کہ انھوں نے دونوں ناولوں کے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا۔
''جانگلوس'' میں جیل سے فرار ہونے والے رحیم داد اور لالی ہیں جو رات کے اندھیرے میں بھوکے پیاسے، گرتے پڑتے، چھپتے چھپاتے دوبارہ گرفتار ہوجانے کے خوف سے نڈھال بھاگ رہے ہیں۔ ایسے میں ایک ٹرک اورکار کا حادثہ ہوتا ہے۔ تباہ شدہ کار سے آنے والی کراہ سن کر ان سے ضبط نہیں ہوتا۔ وہ اس طرف بھاگتے ہیں۔ شاید کوئی بچ گیا ہو، شاید وہ کسی کی جان بچاسکتے ہوں۔
اس کے بعد کا منظر شوکت صاحب کے قلم نے یوں لکھا ہے: ''قریب جاکر انھوں نے دیکھا۔ کار کے جھلسے ہوئے ڈھانچے کے نیچے ایک لاش دبی ہوئی ہے۔ آدھا دھڑ الٹی ہوئی کار کے نیچے سے باہر نکلا ہوا ہے۔ چہرہ اور ہاتھ جل کر سیاہ پڑگئے ہیں۔ ہر طرف جلے ہوئے گوشت کی تیز بو پھیلی ہوئی تھی۔ ڈھانچے کے آس پاس کار کے ٹوٹے ہوئے دروازے، دو پہیے اور دوسرے حصے ادھر ادھر بکھرے تھے۔ چاندنی میں رحیم داد نے کوئی چیز دیکھی اور اس پر بلی کی طرح تیزی سے جھپٹا۔ یہ ایک مڑی تڑی روٹی تھی۔ رحیم داد نے اسے جھٹ اٹھایا۔ اس میں لگی ہوئی ریت اور مٹی صاف کیے بغیر بے صبری سے ہبڑ ہبڑ کھانے لگا۔''
روٹی دنیا کی سب سے بڑی نعمت، بھوک دنیا کی سب سے سفاک حقیقت لیکن ہمارے اردگرد وہ لوگ بھی ہیں جن کے اندر دولت، عیش و عشرت، اقتدار اور جاہ پرستی کا ایک ایسا کنواں ہے جس کی تھاہ نہیں اور جس نے ہمارے سماج کے اَن گنت لوگوں کو اپنا نوالہ بنالیا ہے۔ ان کے بعد پاکستان کے افتادگان خاک کی ایسی تمثیل کون لکھے گا؟