3 نومبر کی ایمرجنسی شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگائی پرویز مشرف کا غداری کیس میں بیان

عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام میں صرف ایک ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا،پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل


ویب ڈیسک April 15, 2014
خصوصی عدالت نے 1956 سے مقدمات کھولنے سے انکار کردیا۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

پرویزمشرف پر چلنے والے غداری کیس نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے سابق صدر نے 3 نومبر کی ایمرجنسی شوکت عزیز کی ایڈوائس پر لگانے کابیان داخل کرادیا ہے جبکہ خصوصی عدالت کی بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے 1956 سے مقدمات کھولنے سے انکار کردیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، سماعت شروع ہوئی تو پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے استدعا کی کہ عدالت پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق پہلے فیصلہ سنائے تاکہ چیزیں واضح ہو جائیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ 18 اپریل کو فیصلہ سنادیا جائے گا۔ فروغ نسیم نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام میں صرف ایک ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا جن لوگوں نے عملدرآمد کرایا ان کو بھی مقدمے میں شامل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھاایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان افراد کا کوئی ذکرنہیں یہ رپورٹ بھی سامنے نہیں لائی گئی،استغاثہ بتائے کہ اختلافی نوٹ کو چھپانے کا مقصد کیا ہے۔

فروغ نسیم کے دلائل پر پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ خصوصی عدالت ایکٹ کے تحت حکومت صرف 3دستاویزات مہیاکرنے کی پابندہےان میں شکایت ،جرائم کی تفصیل اور گواہان کی فہرست شامل ہے اور اگر مقدمے میں رپورٹ کا حصول ملزم کا حق بنتاہواتو ضرور فراہم کریں گے لیکن اس حوالے سے قانون کا جائزہ لیناہوگا۔

اس موقع پرفروغ نسیم نے ایمرجنسی کے حکم نامہ کا نوٹی فکیشن خصوصی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ گزٹ نوٹی فکیشن ہے جس میں مشاورت کرنے والوں کے نام بھی شامل ہیں ،اب یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ ان لوگوں سے مشاورت نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت میں ایکٹ شق 6 جی کی روشنی میں تمام ملزمان کا ٹرائل اکٹھا ہونا ہے جس پر پراسیکیوٹراکرم شیخ نے کہا کہ دیگرافرادکو شامل تفتیش کرنے کے حوالے سے عدالت 7مارچ کو فیصلہ دے چکی ہے،جوابی دلائل میں مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل بارہ کی شق دو کے تحت آرٹیکل 6 کی کارروائی 23مارچ 1956سے شروع ہونی ہے ۔

وکلا کے دلائل سننے کے بعد جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آئین شکنی کے تمام مقدمات کی سماعت کا اختیار نہیں لہٰذا 1956سےمقدمات نہیں کھول سکتے، جس کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں