تحفظ پاکستان آرڈیننس پر سیاسی جماعتیں کیوں معترض
پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اس آرڈیننس پر سب سے زیادہ معترض ہیں۔
L’ANGLIRU:
تحفظ پاکستان آرڈی ننس ( پی پی او) کے خلاف گزشتہ ہفتے سندھ میں جئے سندھ متحدہ محاذ کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) بھی تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی زبردست مخالف ہیں لیکن تادم تحریر وہ اس آرڈی ننس کے خلاف کوئی قرار داد سندھ اسمبلی میں پیش نہیں کر سکی ہیں۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں اس معاملے پر خاصی مشکل میں پھنس گئی ہیں کیونکہ اگر وہ سندھ اسمبلی میں آرڈی ننس کے خلاف قرار داد منظور کرتی ہیں تو ان پر یہ الزام عائد ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف آپریشن میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نافذ کیا گیا ہے اور کراچی سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اس آرڈیننس پر سب سے زیادہ معترض ہیں۔ ان سب کا مؤقف یہی ہے کہ اس آرڈی ننس کی آڑ میں سیاسی کارکنوں اور حکومت مخالفین کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ ان کے بقول یہ آرڈی ننس آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے پورا ملک ایک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا ۔ نہ صرف پولیس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوں گے بلکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بلا روک ٹوک اور کوئی وجہ بتائے بغیر کارروائیاں کر سکیں گے ۔ ان سیاسی جماعتوں کے خیال میں اس آرڈی ننس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کے بجائے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں۔ آرڈی ننس کے خلاف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے احتجاج کی ایک حد ہے لیکن قوم پرست جماعتوں نے اس معاملے میں ان پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ ویسے بھی بعض سیاسی حلقے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ سندھ کی اسٹریٹ پاور ایک منصوبہ بندی کے تحت قوم پرست جماعتوں کو منتقل ہو رہی ہے اور مختلف ایشوز پر ان کی سرگرمیاں حیران کن حد تک بڑھ گئی ہیں۔ مختلف قوم پرست جماعتوں کے کارکنان اور رہنما اس آرڈی ننس کے نفاذ سے قبل ہی لاپتہ ہیں اور اب اس آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد انہیں خدشہ ہے کہ ان کے مزید کارکن لاپتہ ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر سندھ میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کے بھی کئی کارکن آرڈیننس سے پہلے لاپتہ تھے اور ان کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد بھی ایم کیو ایم کے کئی کارکن لاپتہ ہو چکے ہیں ۔ اگلے روز سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید فیصل علی سبزواری نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے 45 کارکن لاپتہ تھے۔ ان میں سے 6 کارکنوں کی لاشیں مل چکی ہیں جبکہ ان کے حلقے سے ایم کیو ایم کے مزید 5 کارکنوں کو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں آئے ہوئے سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گی اور ہمارا خدشہ درست ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کالا قانون ہے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو بتایا جائے اور لاپتہ کارکنوںکے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے پیارے کس ایجنسی کے پاس ہیں۔ دوسری جانب سنیٹراعتزازاحسن کا کہنا ہے کہ اس قانون کو سینیٹ میں منظور نہیں ہونے دیں گے ۔ تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے سندھ میں بیشترارکان اسمبلی نے ایم کیو ایم کے ارکان سے کہاکہ گورنر سندھ وفاق کے نمائندہ ہیں اور ان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ لہذا وہ اس آرڈی ننس پر وفاق سے بات کریں اور احتجاج کریں ۔ اگر کسی صوبائی ادارے کے اہلکاروں نے سادہ کپڑوںمیں ملبوس ہو کر کارروائی کی تو ان کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔
یہ بھی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے خلاف قرار داد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی ہے لیکن یہ قرار داد ایوان میں نہیں آ سکی ہے ۔ دونوں سیاسی جماعتیں شاید کسی مجبوری کی وجہ سے اس آرڈی ننس کے خلاف اس حد تک نہیں جا رہی ہیں ، جس حد تک قوم پرست جماعتیں چلی گئی ہیں ۔ شاید انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ آرڈی ننس سینیٹ سے منظور نہیں ہو سکے گا لیکن انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ سیاسی کارکنوں اور عام افراد کو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ اٹھا رہے ہیں ۔ وہ شاید یہ الزام بھی اپنے سر نہیں لینا چاہتی ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشن میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔ اسکے باوجود دونوں جماعتیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین بعض معاملات پر ہم آہنگی نہیں ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے تحت ہونے والی کارروائیوں سے ہم آہنگی کی عدم موجودگی اختلاف کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مگر دونوں جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ بات تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سینیٹ میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی بھرپور مخالفت کریں گی اور اس کی منظوری روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گی۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس ( پی پی او) کے خلاف گزشتہ ہفتے سندھ میں جئے سندھ متحدہ محاذ کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔
سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) بھی تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی زبردست مخالف ہیں لیکن تادم تحریر وہ اس آرڈی ننس کے خلاف کوئی قرار داد سندھ اسمبلی میں پیش نہیں کر سکی ہیں۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں اس معاملے پر خاصی مشکل میں پھنس گئی ہیں کیونکہ اگر وہ سندھ اسمبلی میں آرڈی ننس کے خلاف قرار داد منظور کرتی ہیں تو ان پر یہ الزام عائد ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی میں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف آپریشن میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نافذ کیا گیا ہے اور کراچی سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اس آرڈیننس پر سب سے زیادہ معترض ہیں۔ ان سب کا مؤقف یہی ہے کہ اس آرڈی ننس کی آڑ میں سیاسی کارکنوں اور حکومت مخالفین کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ ان کے بقول یہ آرڈی ننس آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے پورا ملک ایک پولیس اسٹیٹ بن جائے گا ۔ نہ صرف پولیس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوں گے بلکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بلا روک ٹوک اور کوئی وجہ بتائے بغیر کارروائیاں کر سکیں گے ۔ ان سیاسی جماعتوں کے خیال میں اس آرڈی ننس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کے بجائے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں۔ آرڈی ننس کے خلاف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے احتجاج کی ایک حد ہے لیکن قوم پرست جماعتوں نے اس معاملے میں ان پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ ویسے بھی بعض سیاسی حلقے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ سندھ کی اسٹریٹ پاور ایک منصوبہ بندی کے تحت قوم پرست جماعتوں کو منتقل ہو رہی ہے اور مختلف ایشوز پر ان کی سرگرمیاں حیران کن حد تک بڑھ گئی ہیں۔ مختلف قوم پرست جماعتوں کے کارکنان اور رہنما اس آرڈی ننس کے نفاذ سے قبل ہی لاپتہ ہیں اور اب اس آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد انہیں خدشہ ہے کہ ان کے مزید کارکن لاپتہ ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر سندھ میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کے بھی کئی کارکن آرڈیننس سے پہلے لاپتہ تھے اور ان کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ آرڈی ننس کے نفاذ کے بعد بھی ایم کیو ایم کے کئی کارکن لاپتہ ہو چکے ہیں ۔ اگلے روز سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید فیصل علی سبزواری نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے 45 کارکن لاپتہ تھے۔ ان میں سے 6 کارکنوں کی لاشیں مل چکی ہیں جبکہ ان کے حلقے سے ایم کیو ایم کے مزید 5 کارکنوں کو بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں آئے ہوئے سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گی اور ہمارا خدشہ درست ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کالا قانون ہے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو بتایا جائے اور لاپتہ کارکنوںکے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے پیارے کس ایجنسی کے پاس ہیں۔ دوسری جانب سنیٹراعتزازاحسن کا کہنا ہے کہ اس قانون کو سینیٹ میں منظور نہیں ہونے دیں گے ۔ تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے سندھ میں بیشترارکان اسمبلی نے ایم کیو ایم کے ارکان سے کہاکہ گورنر سندھ وفاق کے نمائندہ ہیں اور ان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ لہذا وہ اس آرڈی ننس پر وفاق سے بات کریں اور احتجاج کریں ۔ اگر کسی صوبائی ادارے کے اہلکاروں نے سادہ کپڑوںمیں ملبوس ہو کر کارروائی کی تو ان کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔
یہ بھی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے خلاف قرار داد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی ہے لیکن یہ قرار داد ایوان میں نہیں آ سکی ہے ۔ دونوں سیاسی جماعتیں شاید کسی مجبوری کی وجہ سے اس آرڈی ننس کے خلاف اس حد تک نہیں جا رہی ہیں ، جس حد تک قوم پرست جماعتیں چلی گئی ہیں ۔ شاید انہیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ آرڈی ننس سینیٹ سے منظور نہیں ہو سکے گا لیکن انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ سیاسی کارکنوں اور عام افراد کو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ اٹھا رہے ہیں ۔ وہ شاید یہ الزام بھی اپنے سر نہیں لینا چاہتی ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشن میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔ اسکے باوجود دونوں جماعتیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ آپریشن کے حوالے سے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین بعض معاملات پر ہم آہنگی نہیں ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈی ننس کے تحت ہونے والی کارروائیوں سے ہم آہنگی کی عدم موجودگی اختلاف کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مگر دونوں جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ یہ بات تو طے ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سینیٹ میں تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی بھرپور مخالفت کریں گی اور اس کی منظوری روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گی۔