مختلف شہروں سے گداگروں کی بڑی تعداد سیزن لگانے کراچی پہنچ گئی
شہریوں نے ’’گداگر مافیا‘‘ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی
رمضان المبارک سے قبل مختلف شہروں سے گداگروں کی بڑی تعداد سیزن لگانے کراچی پہنچ گئی، جبکہ شہریوں نے سوشل میڈیا پر ''گداگر مافیا'' کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شہر میں آنے والے گداگروں نے سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک فٹ پاتھ، اطراف کی آبادیوں کے باہر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ شہر کی بڑی مساجد کے باہر اب پہلے سے زیادہ گداگروں کا منظم اور مضبوط مافیا موجود ہے، اس کے علاوہ شہر کے مصروف ترین شاپنگ مالز کے باہر بھی گداگر بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق طارق روڈ ، ناظم آباد، نارتھ کراچی، عائشہ منزل، کریم آباد، ٹاور، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال، گلستان جوہر، بابر مارکیٹ ملیر، صدر، بہادرآباد، واٹر پمپ، لیاقت آباد سمیت دیگر مارکیٹوں کے باہر گداگروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ملیر ندی میں قیوم آباد، کراسنگ، ابراہیم حیدری، لانڈھی، قائد آباد سے گھگر پھاٹک تک نیشنل ہائی وے کے اطراف، ماڑی پور روڈ پر مچھر کالونی سے گلبائی پھاٹک تک، شیرشاہ، بلدیہ، موچکو، منگھو پیر، ناردرن بائی پاس کے اطراف اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔
مافیا صرف ایک ماہ میں 5 سے 8 کروڑ روپے جمع کرتا ہے
محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں گداگر مافیا مارکیٹوں، سگنلز، مساجد سمیت دیگر چھوٹے بڑے مراکز سے صرف ایک ماہ میں 5 سے 8 کروڑ روپے جمع کرتا ہے، شہر میں یہ مافیا ٹرک میں صبح سویرے چھوٹے بچوں اور خواتین کو سگنلز اور مارکیٹوں میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اندرون سندھ اور پنجاب سے بھکاریوں کی بڑی تعداد کراچی کا رُخ کرتی ہے، پولیس ذرائع بتاتے ہیں کہ صرف رمضان کے مہینے میں بھکاری اس مہم سے کروڑوں روپے جمع کرتے ہیں، کراچی کے کچھ شہری زکوۃ اور فطرے کی رقم بھی ان گداگروں کو دے دیتے ہیں۔
رمضان میں جرائم کی شرح 60 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے
پولیس ذرائع کے مطابق کراچی میں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث مقامی مانگنے والوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی آتے ہیں اور رمضان کے دوران جرائم کی شرح 60 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے۔ شہر میں پہلے ہی گھروں میں ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز بہت زیادہ ہیں جبکہ سیکیورٹی خدشات بھی بڑھے ہوئے ہیں۔
ہر سال تین لاکھ گداگر رمضان میں کراچی کا رُخ کرتے ہیں
ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد مقامی گداگر موجود ہیں اور تین لاکھ گداگر ہر سال رمضان سے قبل دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ویسے تو سندھ حکومت کا ہر ادارہ کراچی میں گداگروں کے خلاف ہر سال کریک ڈائون کا اعلان کرتا ہے لیکن عملی طور پر گداگر مافیا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران بعض وفاقی تحقیقاتی اداروں نے رپورٹس بھیجی تھیں کہ کراچی کی کچی اور مضافاتی علاقوں کے علاوہ ساحلی آبادیوں میں قائم گداگروں کی آبادیوں میں رہنے والوں کا کوئی ریکارڈ مقامی پولیس کے پاس نہیں ہے اور ان میں اکثریت نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔
گزشتہ سال جب شہری بڑی تعداد میں آنے والے گداگروں سے تنگ ہو کر سوشل میڈیا پر خبریں چلانے لگے تو نمائشی آپریشن کر کے چند گداگروں کو پکڑ کر ایدھی فائونڈیشن کے حوالے کر دیا گیا اور رمضان کا مہینہ گزر گیا۔ اس بار صورت حال زیادہ خراب ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں اور کراچی میں مقیم گداگروں کی اب تک تعداد بھی 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ایئرپورٹ کے اطراف، ریلوے اسٹیشن، تجارتی مراکز، بس اڈوں، سڑک کنارے، چوراہوں، گلی کوچوں میں گداگروں کی بڑی تعداد نظر آنا شروع ہوگئی ہے جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
کراچی پولیس گداگروں کی آبادیوں کے مکینوں کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکی ہے اور نہ یہ اس بار گداگروں کے خلاف کوئی پلاننگ کی گئی ہے۔ شہر میں گداگروں کی دوسرے شہروں سے آمد کا سلسلہ تیز ہوچکا ہے۔ ٹرینوں، بسوں، گاڑیوں میں بڑی تعداد دیگر شہروں سے کراچی کا رُخ کررہی ہے۔ کراچی پولیس کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس بار سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں سے سیلاب متاثرین بھی گداگروں کے روپ میں کراچی کا رُخ کریں گے۔ رمضان میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے اطراف بڑی تعداد نظر آئے گی اس طرح اصل ضرورت مند متاثر ہوں گے۔
شہریوں کی گداگر مافیا کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم
شہریوں نے بھی سوشل میڈیا پر بھکاری مافیا کے خلاف مہم چلانا شروع کردی ہے جن کا کہنا ہے کہ گداگری کے اس منظم اور مضبوط دھندے میں سفید پوش لوگ امداد سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ مافیا کراچی سے کروڑوں روپے کی امدادی رقم لے کر چاند رات کو اپنے اپنے شہروں کیلئے روانہ ہوجاتا ہے۔طارق روڈ کے ایک تاجر عیسیٰ خان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں پہلے کی نسبت اس سال بھکاریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں خواتین اور بچے نمایاں ہیں۔ کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ چلتے پھرتے گداگروں کی مالی مدد نہیں کی جائے گی بلکہ ضرورت مندوں کی امداد کی جائے گی یا دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی مدد کو ترجیح دی جائے گی۔
گداگر شہر کے مقامی افراد کا حق مارتے ہیں، سماجی کارکن ظفر عباس
کراچی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور معروف سماجی کارکن ظفر عباس نے بھی بھکاری مافیا کے خلاف مہم شروع کی ہے، ظفر عباس کا کہنا ہے کہ بڑھتی مہنگائی کے پیش نظر دیگر شہروں سے کراچی آنے والے گداگر مافیا کا روپ اختیار کرچکے ہیں جن کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، یہ گداگر مافیا شہر کے مقامی افراد کا حق مارتے ہیں جس کی وجہ سے سفید پوش لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ظفر عباس کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیشہ ور گداگر مافیا کے خلاف مہم میں دکانداروں، مارکیٹوں کے صدور سمیت دیگر افراد سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ ایسے افراد کو شہر میں پنپنے کی جگہ نہ ملے۔
اس سال گداگروں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کریں گے، ڈی آئی جی ساؤتھ
ڈی آئی جی سائوتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس سال گداگر مافیا کے بھرپور کریک ڈائون کا فیصلہ کیا ہے، گداگر مافیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سزا معمولی ہونے کے باعث پیشہ ور بھکاری رہائی حاصل کرلیتے ہیں جن کے پیچھے ایک مضبوط اور منظم مافیا موجود ہوتا ہے ، پولیس نے ایسے کرداروں کی کمر توڑنے کیلئے اینٹی بیگری یونٹ کو فعال کردیا ہے۔ ڈی آئی جی سائوتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ اینٹی بیگری یونٹ کی نفری تجارتی مراکز میں بڑھا دی گئی ہے تاکہ پیشہ ور گداگروں کے منظم گروہ کو گرفتار کیا جاسکے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔
کمزور قانون کی وجہ سے گداگروں کو فوراً ضمانت مل جاتی ہے، ایس ایس پی سینٹرل
ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان کا کہنا ہےکہ ضلع سینٹرل کے بڑے تجارتی مراکز کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ گداگر مافیا کی بیخ کنی کی جاسکے، ایس ایس پی سینٹرل کا کہنا ہے کہ شہر میں موجود گداگروں کے خلاف قانون تو موجود ہے لیکن اس گداگری ایکٹ پر اس مافیا کو فوراً ضمانت مل جاتی ہے جس کی وجہ سے مافیا کو مقدمات سے خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ حکومت کو ایسے مضبوط اور منظم مافیا کے خلاف نیا قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق شہر میں آنے والے گداگروں نے سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک فٹ پاتھ، اطراف کی آبادیوں کے باہر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ شہر کی بڑی مساجد کے باہر اب پہلے سے زیادہ گداگروں کا منظم اور مضبوط مافیا موجود ہے، اس کے علاوہ شہر کے مصروف ترین شاپنگ مالز کے باہر بھی گداگر بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق طارق روڈ ، ناظم آباد، نارتھ کراچی، عائشہ منزل، کریم آباد، ٹاور، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال، گلستان جوہر، بابر مارکیٹ ملیر، صدر، بہادرآباد، واٹر پمپ، لیاقت آباد سمیت دیگر مارکیٹوں کے باہر گداگروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ملیر ندی میں قیوم آباد، کراسنگ، ابراہیم حیدری، لانڈھی، قائد آباد سے گھگر پھاٹک تک نیشنل ہائی وے کے اطراف، ماڑی پور روڈ پر مچھر کالونی سے گلبائی پھاٹک تک، شیرشاہ، بلدیہ، موچکو، منگھو پیر، ناردرن بائی پاس کے اطراف اور دیگر علاقوں میں بڑی تعداد نظر آرہی ہے۔
مافیا صرف ایک ماہ میں 5 سے 8 کروڑ روپے جمع کرتا ہے
محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں گداگر مافیا مارکیٹوں، سگنلز، مساجد سمیت دیگر چھوٹے بڑے مراکز سے صرف ایک ماہ میں 5 سے 8 کروڑ روپے جمع کرتا ہے، شہر میں یہ مافیا ٹرک میں صبح سویرے چھوٹے بچوں اور خواتین کو سگنلز اور مارکیٹوں میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اندرون سندھ اور پنجاب سے بھکاریوں کی بڑی تعداد کراچی کا رُخ کرتی ہے، پولیس ذرائع بتاتے ہیں کہ صرف رمضان کے مہینے میں بھکاری اس مہم سے کروڑوں روپے جمع کرتے ہیں، کراچی کے کچھ شہری زکوۃ اور فطرے کی رقم بھی ان گداگروں کو دے دیتے ہیں۔
رمضان میں جرائم کی شرح 60 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے
پولیس ذرائع کے مطابق کراچی میں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث مقامی مانگنے والوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی آتے ہیں اور رمضان کے دوران جرائم کی شرح 60 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے۔ شہر میں پہلے ہی گھروں میں ڈکیتیاں، اسٹریٹ کرائمز بہت زیادہ ہیں جبکہ سیکیورٹی خدشات بھی بڑھے ہوئے ہیں۔
ہر سال تین لاکھ گداگر رمضان میں کراچی کا رُخ کرتے ہیں
ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد مقامی گداگر موجود ہیں اور تین لاکھ گداگر ہر سال رمضان سے قبل دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ویسے تو سندھ حکومت کا ہر ادارہ کراچی میں گداگروں کے خلاف ہر سال کریک ڈائون کا اعلان کرتا ہے لیکن عملی طور پر گداگر مافیا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران بعض وفاقی تحقیقاتی اداروں نے رپورٹس بھیجی تھیں کہ کراچی کی کچی اور مضافاتی علاقوں کے علاوہ ساحلی آبادیوں میں قائم گداگروں کی آبادیوں میں رہنے والوں کا کوئی ریکارڈ مقامی پولیس کے پاس نہیں ہے اور ان میں اکثریت نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔
گزشتہ سال جب شہری بڑی تعداد میں آنے والے گداگروں سے تنگ ہو کر سوشل میڈیا پر خبریں چلانے لگے تو نمائشی آپریشن کر کے چند گداگروں کو پکڑ کر ایدھی فائونڈیشن کے حوالے کر دیا گیا اور رمضان کا مہینہ گزر گیا۔ اس بار صورت حال زیادہ خراب ہے کہ کراچی میں سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں اور کراچی میں مقیم گداگروں کی اب تک تعداد بھی 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ایئرپورٹ کے اطراف، ریلوے اسٹیشن، تجارتی مراکز، بس اڈوں، سڑک کنارے، چوراہوں، گلی کوچوں میں گداگروں کی بڑی تعداد نظر آنا شروع ہوگئی ہے جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔
کراچی پولیس گداگروں کی آبادیوں کے مکینوں کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکی ہے اور نہ یہ اس بار گداگروں کے خلاف کوئی پلاننگ کی گئی ہے۔ شہر میں گداگروں کی دوسرے شہروں سے آمد کا سلسلہ تیز ہوچکا ہے۔ ٹرینوں، بسوں، گاڑیوں میں بڑی تعداد دیگر شہروں سے کراچی کا رُخ کررہی ہے۔ کراچی پولیس کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس بار سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں سے سیلاب متاثرین بھی گداگروں کے روپ میں کراچی کا رُخ کریں گے۔ رمضان میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے اطراف بڑی تعداد نظر آئے گی اس طرح اصل ضرورت مند متاثر ہوں گے۔
شہریوں کی گداگر مافیا کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم
شہریوں نے بھی سوشل میڈیا پر بھکاری مافیا کے خلاف مہم چلانا شروع کردی ہے جن کا کہنا ہے کہ گداگری کے اس منظم اور مضبوط دھندے میں سفید پوش لوگ امداد سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ مافیا کراچی سے کروڑوں روپے کی امدادی رقم لے کر چاند رات کو اپنے اپنے شہروں کیلئے روانہ ہوجاتا ہے۔طارق روڈ کے ایک تاجر عیسیٰ خان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں پہلے کی نسبت اس سال بھکاریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں خواتین اور بچے نمایاں ہیں۔ کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ چلتے پھرتے گداگروں کی مالی مدد نہیں کی جائے گی بلکہ ضرورت مندوں کی امداد کی جائے گی یا دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی مدد کو ترجیح دی جائے گی۔
گداگر شہر کے مقامی افراد کا حق مارتے ہیں، سماجی کارکن ظفر عباس
کراچی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور معروف سماجی کارکن ظفر عباس نے بھی بھکاری مافیا کے خلاف مہم شروع کی ہے، ظفر عباس کا کہنا ہے کہ بڑھتی مہنگائی کے پیش نظر دیگر شہروں سے کراچی آنے والے گداگر مافیا کا روپ اختیار کرچکے ہیں جن کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے، یہ گداگر مافیا شہر کے مقامی افراد کا حق مارتے ہیں جس کی وجہ سے سفید پوش لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ظفر عباس کا کہنا تھا کہ انہوں نے پیشہ ور گداگر مافیا کے خلاف مہم میں دکانداروں، مارکیٹوں کے صدور سمیت دیگر افراد سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ ایسے افراد کو شہر میں پنپنے کی جگہ نہ ملے۔
اس سال گداگروں کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کریں گے، ڈی آئی جی ساؤتھ
ڈی آئی جی سائوتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس سال گداگر مافیا کے بھرپور کریک ڈائون کا فیصلہ کیا ہے، گداگر مافیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سزا معمولی ہونے کے باعث پیشہ ور بھکاری رہائی حاصل کرلیتے ہیں جن کے پیچھے ایک مضبوط اور منظم مافیا موجود ہوتا ہے ، پولیس نے ایسے کرداروں کی کمر توڑنے کیلئے اینٹی بیگری یونٹ کو فعال کردیا ہے۔ ڈی آئی جی سائوتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ اینٹی بیگری یونٹ کی نفری تجارتی مراکز میں بڑھا دی گئی ہے تاکہ پیشہ ور گداگروں کے منظم گروہ کو گرفتار کیا جاسکے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔
کمزور قانون کی وجہ سے گداگروں کو فوراً ضمانت مل جاتی ہے، ایس ایس پی سینٹرل
ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان کا کہنا ہےکہ ضلع سینٹرل کے بڑے تجارتی مراکز کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ گداگر مافیا کی بیخ کنی کی جاسکے، ایس ایس پی سینٹرل کا کہنا ہے کہ شہر میں موجود گداگروں کے خلاف قانون تو موجود ہے لیکن اس گداگری ایکٹ پر اس مافیا کو فوراً ضمانت مل جاتی ہے جس کی وجہ سے مافیا کو مقدمات سے خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ حکومت کو ایسے مضبوط اور منظم مافیا کے خلاف نیا قانون بنانے کی ضرورت ہے۔