مہنگائی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ بدلیں

کیا حکومت مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے

کیا حکومت مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔ فوٹو:فائل

ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے کہ زندگی تھم سی گئی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، دکانداروں نے اپنی مرضی سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے گہرے معاشی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

ڈالر کی اونچی اُڑان اور پاکستانی روپے کی روز بروز گرتی قدر نے مہنگائی کے طوفان کو سونامی میں بدل دیا ہے۔ اب روز بروز اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ پٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔

بجلی اور گیس کی صورتحال بھی پٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔ اپوزیشن اسے حکومت کی نا اہلی قرار دے رہی ہے جب کہ بعض حکومتی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ معاشی بحران گزشتہ حکومت کی نا اہلی کے باعث آیا ہے۔ عوام کی بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجیے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ بحران کیسے بھی آیا، اس کا ذمے دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچارے غریب عوام رہے ہیں۔

جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیا سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہان ِوقت سے۔ انھیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو اسے میسر نہیں ، اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

اس وقت ایک کلو آٹا کراچی میں 150 روپے میں دستیاب ہے۔ تندوری روٹی اور نان کی قیمت بھی ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہوچکی ہے۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں کہ چینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔

جب ماں باپ اپنے بچے کے لیے دودھ نہ خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے تو سفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے گی۔ یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلات کو پار کریں گے۔

بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ہمارے ملک میں روزگار کا سلسلہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ماں اور بہنوں کے زیور بیچ کر ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسری جانب ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہوں میں اضافہ ہو نہیں رہا اور ہر ہفتے جب بازار خریداری کے لیے جاتے ہیں تو اشیائے خورونوش کا ایک نیا ریٹ ملتا ہے۔

مہنگائی اور جرائم کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جتنی زیادہ مہنگائی ہوگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ مہنگائی جہاں ملکی معیشت کو تباہ کرتی ہے وہیں معاشرے میں جرائم کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 30 فیصد جب کہ صرف اشیا خور و نوش سے متعلق مہنگائی کی شرح 45 فیصد کے لگ بھگ ہے ، جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔ تقریباً ایک سال تک اس میں کمی آنے کی توقع نہیں ہے۔

شرح سود بھی اوپر جائے گی، معیشت جو حد سے زیادہ پھیلی ہے وہ اب سکڑے گی، تو اب مہنگائی کی شرح 2023 جون کے بعد بھی نیچے آنے کی توقع نہیں ہے۔ ہمارا انحصار تیل کی درآمدات پر ہے اور اشیائے خور و نوش درآمد کرنے پر ہے اس پر یہ کہ ہم آبادی کو کنٹرول نہیں کر پا رہے، ان نا مساعد حالات میں آنے والے ماہ و سال بہت مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔

آنے والا ہر دن پاکستان کی مڈل کلاس اور سفید پوش طبقے کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں۔ گاڑیوں والے اب موٹر سائیکل پر اور موٹر سائیکل سوار پیدل ہو گئے ہیں۔ ماہانہ آمدن مہینے کی پندرہ تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، مہینے کے آخر تک جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگنے لگتی ہے۔ غریب اور مڈل کلاس گھرانوں کے پاس مشکل وقت کے لیے کوئی اثاثے نہیں ہوتے۔

شعبہِ صحت کی بات کی جائے تو اسپتال کے اخراجات اور ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے باعث ہم نے علاج سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ سفید پوش طبقے کی تقریباً 80 فیصد آبادی کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے۔ بجلی کے بل، گھی اور پٹرول کی قیمتیں اب اس طبقے کی دسترس سے باہر ہیں۔ سفید پوش اور غریب لوگوں کے ہاں مہمان داری تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔


ان کے بچوں کے لیے حصولِ تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا۔ مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے مگر پاکستان میں پیدا ہونے والی یا بننے والی بعض اشیا کی قیمتیں بڑھانے کا کوئی جواز نہیں اور اس میں مڈل مین اور پرچون کی دکان پر فروخت کرنے والے ذمے دار ہیں۔ مختلف شہروں سے آنے جانے والی اشیا کی قیمتیں ٹرانسپورٹ کی لاگت پٹرول یا ڈیزل مہنگا ہونے سے بھی بڑھ جاتی ہیں۔

دوسری جانب معیشت تبدیل کرنے کے دعویدار ماہرِ معاشیات کے چند مخصوص لوگ گزشتہ پچھتر سال سے حکومت میں آ کر کام کر رہے ہیں اور ہر دفعہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی مجبوری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو قرضے لینا پڑتے ہیں اور پاکستان کی غربت ان شرائط کی وجہ سے کبھی ختم نہیں ہوسکی۔ مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔

پیپر مہنگا ، کئی صنعتیں بند ، کچھ شدید مشکلات سے دوچار، اسی باعث ہزاروں ، لاکھوں افراد بے روزگار ہو ئے، غریب دو وقت کی روڑی کے لیے پریشان ہے۔ مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق دنیا بھر میں اشیاء خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔ ان چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ دُنیا بھر میں اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔

ہماری تمام حکومتیں صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر اپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کے لیے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے، کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے، دولت کے نشے نے آخر میں ما دی ترجیحات کو انسانیت سے بلند کر دیا ہے، ہمارا اقتصادی نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

معاشرے میں غربت کی ایک اور وجہ بھی ہے، زیادہ تر لوگ آمدنی کے جدید ذریعے سے واقف ہی نہیں، زیادہ تر لوگ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے کاروباری ضروریات کے لیے اپنانے کے قابل ہی نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ کاروبار میں آمدنی کی کمی اورعالمی معیار کے نتائج سامنے نہیں آتے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ محدود ہے، تعلیم کی کمی کے باعث نچلا طبقہ اور مزدور اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔

مہنگائی کے خلاف عوام کی طرف سے خاصا سخت رد عمل آنا شروع ہو گیا ہے کہ اشرافیہ، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیاں اپنی جگہ پر قائم ہیں اور یہ قربانی کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور ایک وقت کی روٹی کے لالے غریب عوام کو پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ حکومت اداروں کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے اداروں کو غیر ملکی سرمایہ داروں کو بیچا جارہا ہے، مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاء کو مہنگا کردیا جاتا ہے، اجارہ داری کے منصوبوں کے تحت کمیشن لے کر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ صارف کو ہی اٹھانا پڑتا ہے یہی وجہ مہنگائی اور غربت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال نہیں ہیں۔

پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک طویل المدتی اصلاحات کی حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے، ہم ہر پانچ سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اسی لیے جاتے ہیں کہ ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ جب تک ہم معیشت کا ڈھانچہ نہیں بدلتے اور خساروں میں کمی نہیں لائیں گے ہم اس چکی میں پستے رہیں گے۔

بہرحال ان مسائل کو دور کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، ان میں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ زراعت میں ویلیو ایڈیشن لائیں، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کپڑے کے ساتھ ساتھ پہننے کے لیے سوٹ بھی بنائے تاکہ ہمارے زر مبادلہ میں اضافہ ہو۔

سب سے اہم بات جس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم نالج بیسڈ اکانومی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں جو وقت کی اہم ضرورت ہے ، اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمے داریوں کو پوری طرح اور خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا
Load Next Story