زمان پارک سے نکلنے والا ریلا
زمان پارک سے گرفتاری سے بچنے کے لیے جو طرز عمل اختیار کیا گیا ہے اور عدالت نے جیسے اسے ریاست پر حملہ قرار دیا ہے
مسئلہ اب یہ نہیں ہے کہ عمران خان گرفتار ہوئے یا نہیں۔ اب صورت حال بدل چکی ہے اور اس بدلی ہوئی صورت حال سے چند سوالات جنم لے چکے ہیں۔
ابھی چند روز ہوئے ہیں، ایک تصویر شایع ہوئی۔ یہ گوادر کی کسی عدالت کے باہر کا منظر تھا۔ تصویر میں دکھائی دے رہا ہے کہ ٹوٹے ہوئے ایک بینچ پر ایک باریش آدمی پولیس کی تحویل میں بیٹھا ہے اوراس کے ہاتھ ہتھ کڑی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس شخص کا نام مولانا ہدایت الرحمان ہے۔
یہ ہمارے قومی ذرایع ابلاغ کے ایجنڈے کی ترجیحات کا کمال ہے کہ اس تصویر کو اس نمایاں انداز میں پیش کرنے سے گریز کیا گیا جیسے اس کا حق تھا ، ورنہ دنیا یہ تصویر دیکھ کر تڑپ اٹھتی اور جانتی کہ انسانیت کی توہین کیا ہوتی ہے اور ہمارے دیس میں سیاسی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔
یہ منظر ذہن میں رکھ کر ذرا یہ خیال کیجیے کہ لاہور کے زمان پارک میں کیا کچھ نہیں ہو گیا یا ہو رہا ہے۔پولیس کے ہاتھ باندھ کر پورے ہجوم اور پٹرول بم کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔
عمران خان قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہی عمران خان ہیں جنھوں نے دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ دیا لیکن اپنے چار برس کو پہنچتے ہوئے اقتدار کے دوران اور اس کے بعد قانون کی حکمرانی کے تعلق سے جو کچھ انھوں نے کیا، وہ ایک نہیں دو پاکستان کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔
ایک پاکستان وہ ہے جس میں رعایا بستی ہے اور مولانا ہدایت الرحمان کو ہتھ کڑیوں میں جکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے اور دوسری طرف عمران خان ہیں جو قانون اور عدالت کا حکم تسلیم کرنے سے صرف انکار ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف ایسی مزاحمت کرتے ہیں جو سیاسی حدود سے نکل کر بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔
عمران خان کے تعلق سے عدالتوں کے طرز عمل پر بہت سے سوالات ہمارے سیاسی اور قانونی حلقوں میں اٹھائے جاتے ہیں اور اس رویے پر ہر دو طرف سے سخت آرا بھی موجود ہیں۔ اس بار بھی بعض لوگ توقع کر رہے تھے کہ زمان پارک میں قانون کی جو دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔
اسے نظر انداز کر کے ممکن ہے کہ عمران خان کو پھر کوئی سہولت مل جائے۔سہولت تو بہر حال ملی لیکن ایک عدالت کو یہ بھی کہنا پڑا کہ عمران خان یا تحریک انصاف کی طرف سے جو کچھ کیا گیا، وہ ریاست پر حملہ تھا۔
پاکستان میں ریاست پر حملہ کب کب ہوا اور کس کس نے کیا، یہ ایک متنازع اور پیچیدہ موضوع ہے، اسے ایک طرف رکھئے اور اس سوال پر غور کیجیے جو متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی نے اٹھایا ہے کہ کیا عمران خان کا ڈومیسائل مختلف ہے اور جو ڈومیسائل ہمیں میسر ہے، کیا وہ کچھ مختلف حقوق کی یقین دہانی کراتا ہے؟
انھوں نے سیدھا سیدھا سوال کیا ہے کہ اگر ایسا طرز عمل کسی اور صوبے سے تعلق رکھنے والے فرد نے اختیار کیا ہوتا تو کیا ریاست کی قوت قاہرہ اسے کچل کر نہ رکھ دیتی؟ انھوں نے واضح طور پر سوال اٹھایا ہے کہ آخر عمران خان کو سرخاب کے ایسے کیا پر لگے ہیں کہ وہ ریاست پر حملہ آور بھی ہو جائیں تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟یہ سوالات اہمیت رکھتے ہیں اور یہ سلسلسہ جیسے جیسے آگے بڑھے گا، ان سوالوں کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔
مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ ان دنوں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے اور ملک کی مختلف اکائیوں میں ماضی میں ریاست کے نام پر جو کچھ ہوا، اس تناظر میں خالد مقبول صدیقی کا سوال اہمیت رکھتا ہے تاہم یہاں ایک وضاحت ضروری ہے۔ماضی میں پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ دیگر صوبوں کی قیادت کے مقابلے میں ان کے ساتھ خاص رعایت برتی جاتی ہے لیکن تاریخ کی میزان پر یہ پروپیگنڈا غلط ثابت ہو چکا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی صاحب جو ان دنوں اپنے کالموں میں مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے ساتھ ماضی قریب اور ماضی بعید میں کیے جانے والے سلوک سے پردہ اٹھاتے رہتے ہیں، کسی روز یہ بھی بے نقاب کر دیں گے کہ نواز شریف کو کس طرح ہتھ کڑیوں میں جکڑ کر نشستوں سے باندھ دیا جاتا تھا اور جیل میں کس طرح انھیں ایذائیں دی جاتی رہیں اور محترمہ مریم نواز کے مطابق انھیں زہر تک دیا گیا۔
نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے استثنا کے بعد اب یہ معاملہ صوبوں سے زیادہ شخصیات کا بن گیا ہے جو امتیازی سلوک سے بھی زیادہ خوف ناک اور شرم ناک ہے۔ ہمارے بزرگ اور پاکستان کے قابل فخر صحافی اور کالم نگار جناب نصرت جاوید کا خیال ہے کہ زمان پارک کی ریاست کے خلاف مزاحمت دراصل نوجوانوں کی فرسودہ نظام سے مایوسی کی علامت ہے اور انھوں نے اپنے طرز عمل سے اسے مسترد کر دیا ہے۔
نصرت صاحب کی بزرگی اور تجربے کے پیش نظر ان سے اختلاف کی ہمت ہم اپنے اندر نہیں پاتے لیکن ایک متوازی حقیقت پیش کرنے کی جرات ضرور کریں گے۔
عمران خان کے مقابلے میں دیگر جماعتوں اور دیگر صوبوں کی قیادت کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک پر نوجوانوں کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے، اس کی قیمت پاکستان کو ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان کے باشعور نوجوان موجودہ حالات اور خاص طور پر مختلف اداروں کی طرف سے کچھ لوگوں کے جرائم پر آنکھیں بند کر لینے اور کچھ کے محض سیاسی اختلاف پر انھیں کچل دینے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے
اس پر مایوس ہیں اور وہ پوری شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ اگر اس رویے کی اصلاح بروقت نہ ہوئی تو وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ردعمل آئے گا، زمان پارک کے واقعات جس کے سامنے خس و خاشاک ثابت ہوں گے۔
شخصیات اور علاقائی امتیاز سے ہٹ کر ان معاملات کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ زمان پارک سے گرفتاری سے بچنے کے لیے جو طرز عمل اختیار کیا گیا ہے اور عدالت نے جیسے اسے ریاست پر حملہ قرار دیا ہے، اس معاملے پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس لیے کہ بڑے سیاسی بحرانوں کے مواقعے پر یہی دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے سنگین جرائم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ سبب یہ ہے کہ ریاست پر یہ حملہ اتنا نمایاں اور بے حجاب تھا کہ اس کے اثرات قومی زندگی پر نہایت گہرے ہوں گے کیوں کہ عمران خان نے اپنے طرز عمل سے ہر قانون شکن کے لیے راستہ کھول دیا ہے کہ اگر وہ طاقت رکھتا ہے تو ریاست اور اس کے احکام کو ہوا میں اڑا کر رکھ دے۔ زمان پارک کے واقعے کے بعد قانون کی حکمرانی یعنی ریاست کی رٹ کمزور ہوئی ہے۔
لہٰذا اب اگر اسے مضبوط نہ کیا گیا تو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا پھر صرف یہ نہیں ہو گا کہ سول انتظامیہ ناکام ہوگی بلکہ ریاست کی تمام تر قوتیں اپنے ارادے میں ناکام رہیں گی کیوں کہ عمران خان نے اپنے عمل سے وہ دروازہ کھول دیا ہے جس کے بعد تباہی کے راستے کی ہر رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔