تشدد کی طرف بڑھتا ہوا پاکستان
اب تو لاہور میں بھی انتظامیہ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک محدود علاقے میں بھی اپنا اثر قائم رکھ نہیں پا رہی
پاکستان کے اندر جن علاقوں میں شورش زدہ تحریکیں پنپتی ہیں، اس کی بڑی وجہ ان علاقوں کا بوسیدہ اور پرانا انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ ہے ۔ان علاقوں میں ریاست کے مروجہ عدالتی و انتظامی اداروں اور قوانین کے بجائے، مقامی رواج کو قوانین کا درجہ دیا گیا۔
چاہے وہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقے یا پرامن ملاکنڈ ڈویژن ہو۔ بلوچستان میں صدیوں سے رائج سرداری نظام کسی طور بھی پاکستان میں رائج آئین اور قوانین سے میل نہیں کھاتا تھا۔
اسی سرداری نظام کی وجہ سے بلوچستان ترقی نہ کر سکا حالانکہ وسائل کی کمی نہیں تھی لیکن مقامی لوگوں کی مالی پوزیشن انتہائی کمزورہونے کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم حاصل کرسکے اور کوئی کاروبار کرسکے اور نہ زراعت پر توجہ دے سکے۔پاکستان کے بارے میں ان کا تصور وہی رہا جو سرداری نظام نے دیا تھا۔
ترقی کی راہ میں سرداری نظام رکاوٹ رہا اور بات اب اتنی بگڑ چکی ہے کہ وہاں پر کئی تحریکیں جنم لے چکی ہیں اور انھوں نے اپنے مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن سے بھی مدد لے لی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں بھی طالبان کا ظہور اور انھیں طاقت پکڑنے کا موقع اس لیے ہوا کہ فاٹا میں انگریز دور کا رائج کردہ ایف سی آر اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔افغان جنگ کی وجہ سے فاٹا میں غیر ملکی مجاہدین کی آمد، ڈالروں کی برسات اور جدید ترین اسلحہ کی بہتات ہوگئی۔
فاٹا کے نوجوانوں کے پاس اسلحہ بھی آگیا، فوجی تربیت بھی مل گئی اور پیسہ بھی آگیا، فاٹا کا روایتی نظام اوراس کے اسٹیک ہولڈرز ان علاقوں میں اپنا کنٹرول کھو بیٹھے۔ شمالی وزیرستان میں مقامی دینی مدرسے کے طلباء نے اس علاقے کے ایک مشہور جرائم پیشہ گینگ کے ظلم و ستم کے خلاف از خود آپریشن کا آغاز کر دیا۔
اس وقت فوج وزیرستان میں داخل نہیں ہوئی تھی اور پولیٹیکل انتظامیہ کے پاس شاید اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اس جرائم پیشہ گینگ کو گرفتار کرکے اس کا خاتمہ کرتا۔ مدرسے کے مسلح طلباء نے اس گینگ کی تمام پناہ گاہیں مسمار کر دیں ، گینگ کے سرغنہ اور کئی دیگر کو ہلاک کر دیا۔ پھر طالبان اتنے مضبوط ہو گئے کہ انھوں نے پوری قبائلی بیلٹ پر کنٹرول حاصل کر لیا ۔
سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کو عروج ملا۔سوات، دیر اور چترال کی نواب شاہی ابھی ماضی قریب کی بات ہے۔ ملاکنڈ میں بھی ضم شدہ ریاست کی وجہ سے خصوصی قوانین لاگو تھے۔ ملاکنڈ کے شہری ہر قسم کے ٹیکس سے آزاد تھے اور یہ سہولت ان کو آج بھی حاصل ہے۔
اسی لیے ملاکنڈ اسمگل شدہ گاڑیوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ ملاکنڈ کے ہر گھر میں نان کسٹم پیڈ اور اسمگل شدہ گاڑیاں ضرور ہیں۔ ملاکنڈ کے شہریوں کو انکم ٹیکس اور دولت سمیت کئی ٹیکسوں کی چھوٹ حاصل ہے۔ صوفی محمد مرحوم نے بھی اسی علاقے سے اپنی تحریک کا آغاز کیا جو ابتداء ہی سے پرتشدد تھی۔
پاکستان میں عمران خان کو سیاست میں اہمیت ملنے کے بعد 2012 سے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ عمرانی سیاست کا آغاز جو 2012 سے ہوا تھا سے پہلے پاکستان کے دس سال دہشت گردی کی نذر ہو گئے تھے۔ 2001 میں امریکا کے افغانستان میں آمد کے بعد سے ہی پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا تاوقتیکہ 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد جب قوم یک جان بنی تو ہی ان سے چھٹکارا ملا۔ 2012 سے شروع سیاسی عدم استحکام اب سیاسی تشدد میں تبدیل ہو رہا ہے۔
سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی بے توقیری کے بعد اب عدلیہ کے وقار اور ساکھ کا مسئلہ درپیش ہے۔ معزز ججز کا جھکاؤ اور سابقہ چیف جسٹس کے اعترافی بیانات نے عدلیہ کے وقار اور ساکھ پر کئی سوالات اٹھادیے ہیں۔ خود اعلیٰ عدلیہ کے اندر سے بھی ایسی آوازیں آ رہی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔
ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے پولیس پر جوابی تشدد کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا ہے ، لاہور میں اتوار کی شب پولیس موبائل پر حملہ کرنا، اس میں سوار پولیس پر تشدد کرنا اور پولیس موبائل وین کو نذر آتش کرکے نہر میں پھینک دیا، معمولی واقعہ نہیں ہے۔ عدالتی حاضریوں سے بچنے کے لیے جس طرح تشدد اور قانون توڑنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے، ایسا پاکستان میں کبھی نہیں ہوا ہے ۔
پاکستان میں ماضی میں بھی تحریکیں چلیں، سیاسی کارکنوں پر تشدد ہوا لیکن کس نے بدلے کی بات نہیں کی، سیکیورٹی اداروں کو دھمکیاں نہیں دیں، جتھہ بند ہوکرپولیس پر پٹرول بم نہیں پھینکے، انھیں کنچوں سے نشانہ نہیں بنایا، درختوں کو آگ نہیں لگائی لیکن پی ٹی آئی نے یہ سب کچھ کیا، عمران خان ، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، علی امین گنڈا پور، فواد چوہدری اور چوہدری پرویز الہی نے کھل کر ان ''کارناموں'' کی حمایت کی اور وہ اسے اپنی جدوجہد کا ایک حصہ سمجھتے رہے ۔
جس طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ایک عدالتی عمل اور انتظامی عمل میں باقاعدہ مقابلہ کرکے رکاوٹ ڈالی، اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ تربیت یافتہ بھی تھے اور تیار بھی تھے۔ پولیس موبائل کو جلانے کا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کام عام کارکن انجام نہیں دے سکتا،تربیت یافتہ گینگ ہی ایسا کام کرسکتا ہے، پیغام یہ ہے اب بدلہ بھی لیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں جس طرح پولیس تحریک طالبان کے نشانے پر ہے۔
اسی طرح اب پنجاب پولیس کو پی ٹی آئی کے ورکروں سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا۔ ایک ایسے وقت میں جب تحریک طالبان ریاست پاکستان کے خلاف نہ صرف اعلان جنگ کر چکی ہے بلکہ اس کے حملے تیز بھی ہو رہے ہیں اور اس کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اسی وجہ سے خیبر پختونخوا میں سرکاری مشینری نے انتخابات کرانے سے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اب پنجاب میں بھی ایک نئے طریقے سے تشدد کا عنصر داخل کر دیا گیا ہے جس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔ عدالتیں بھی اب فیصلہ کن نہیں رہیں، ایک عدالت کا فیصلہ ، دوسری عدالت معطل کر دیتی ہے۔
ماضی میں ایسا نہیں تھا، یہ کیسے ممکن ہے کہ پشاور سیشن جج کے احکامات کو لاہور کی عدالت عالیہ معطل کر دے۔ قانون میں نئے نئے قانونی راستے تراشے جا رہے ہیں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب میں بھی ملاکنڈ، بلوچستان اور ضم شدہ قبائلی علاقوں کی طرح عدالتی اور انتظامی خلاء پیدا کیا جا رہا ہے۔
اب تو لاہور میں بھی انتظامیہ کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک محدود علاقے میں بھی اپنا اثر قائم رکھ نہیں پا رہی ، اسلام آباد پولیس بھی بے چارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین پولیس والوں سے بدتمیزی بھی کررہی ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم بھی کہہ رہی ہیں، یہ سب کچھ سوشل میڈیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر اس عدالتی و انتظامی بحران کو جلد ختم نہ کیا گیا تو اس کے اثرات پنجاب کے انتخابات کے ساتھ ساتھ پورے ملک پر ہوں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سیاسی عدم استحکام سے اب تشدد اور انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں ایک طرف طالبان کی پرتشدد کارروائیاں اور دوسری طرف سیاسی تشدد ، افراتفری ، معاشی بحران ہے، پولیس اور انتظامیہ مفلوج ہے ، آگے کیا ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔