فوج کے ساتھ بات چیت

امید کرسکتے ہیں کہ حکومت خود کو خود سے پیدا کیے جانے والے منجدھار سے آسانی سے نکال لے گی

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

وزیر اعظم نواز شریف کی کیفیت اس ملاح سی ہے جس کا خواب کشتی کو پارلگانا ہو مگر جوانتہائی محنت سے دونوں چپوئوں کو مخالف سمتوں میں چلا رہا ہو۔ ایک طرف معیشت کی بحالی کے لیے بھر پور کاوش کی جا رہی ہے ۔ اہم معاملات پر فیصلہ سازی اورغور و خوض ہو رہا ہے،انتخابات کے بعد افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات ، امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بننے والے علاقائی منظر نامے کی پیچیدگیاں، مشرق وسطی کی متذبذب حالت ، ایران اور امریکا کے درمیان بننے والا نیا توازن ، کراچی میں آنے والے دنوں میں بڑی تبدیلیاں، بلوچستان اور پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات ۔ قومی مفادات کے یہ تمام پہلو تمام اداروں کی توانائیوں کو یکجا کیے بغیر نہیں سنبھالے جا سکتے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی تیسری حکومت کے اہم ترین فیصلوں میں ایک فیصلہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کر کے کیا۔ اس وقت اس فیصلے کے پروفیشنل محرکات کے علاوہ ایک اہم جز سول اور عسکری قیادت کے درمیان مثبت ہم آہنگی اور دوستانہ ماحول کو فروغ دینا تھا۔

یہ چپو میاں نواز شریف نے صحیح چلایا ۔ مگر دوسری طرف کشتی کی سمت درست ہوتے ہی چپو کو الٹا گھمانا شروع کر دیا گیا۔ چند ماہ پہلے بہترین تعلقات اور دوستانہ فضاء کے بیانات سے مزین تجزیئے فوج کے حوالے سے اب فکر اور پریشانی میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کا ہی کمال ہے کہ ایک جنبش سے سیدھی لکیر کھینچ کر اس کو خط تنسیخ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات اب ڈھکے چُھپے نہیں ہیں۔ ان کی چند ایک وجوہات میں پچھلے کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ ان وجوہات سے کہیں زیادہ حیرانی کی بات وہ رفتار ہے جس سے یہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پیچیدگیوں کا رد عمل قسطوں کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔پہلی قسط تو وہ تھی کہ جب ہر کوئی ان حقائق سے رو گردانی کر رہا تھا۔ اور من پسند صحافیوں کے ذریعے یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ یہ افواہ دشمن کی اڑائی ہوئی ہے، معاملات قابو میں ہیں۔

دوسری قسط اس وقت آئی جب جنرل راحیل شریف نے ایک خصوصی بیان میں دو جملے ایسے ڈال دیے جن کو سامنے لانے سے فوج عموما گریز کرتی ہے ۔ حکومت کی طرف سے اگلے دن سامنے لایا جانے والا رد عمل دلچسپ تھا۔ براہ راست اور بالواسطہ طور پر سویلین اور آئینی برتری اور حکمرانی کی یاد دہانی کروائی گئی۔ ایسے میں خصوصی تجزیہ نگار سیاسی مباحثہ کو حکومت کے پسندیدہ زاویے کی طرف لے جانے لگے ۔ اسمبلی میں تقاریر کروائی گئیں ۔ اعتزاز احسن بھی میدان میں کود پڑے ۔ سیاستدانوں کو تھپکی دے کر فرمانے لگے، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ڈٹ جائیں۔ یہ قسط ابھی جاری تھی کہ اب تیسری سامنے آ گئی ہے ۔ اب حکومتی تجزیہ نگار فرما رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ کشیدگی ( جس کے وجود سے وہ ایک ہفتہ پہلے تک انکار کر رہے تھے ) کو مل بیٹھ کر دور کرنے کے لیے بات چیت کرنی ہو گی ۔ چوہدری نثار علی خان، جو واضع الذہن ہونے کے باوجود اپنی وزارت کے صدقے متضاد بیان دینے میں رحمان ملک کے برابر شہرت حاصل کر چکے ہیں،نے اب اشارہ کیا ہے کہ موجودہ سرد جنگ جلد ہی گرم جوش دوستی میں تبدیل ہو جائے گی۔


انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ فوج اور منتخب قیادت کے درمیان تعلقات کبھی اتنے اچھے نہیں تھے جتنے اب ہیں ۔ (اچھے تعلقات پر مبنی سرد جنگ کون سی ہوتی ہے یہ سمجھنے میں ہم کو خصوصی ذہنی تربیت حاصل کرنا ہو گی ) مسئلہ سرد اور گرم جنگ کا نہیں ہے۔ نہ ہی کشیدگی حالات و واقعات نے خود سے پیدا کر دی ہے۔ فوری وجوہات سے بالا معاملہ اس رویے کا ہے جو میاں نواز شریف اور ان کے مشیران حساس قومی معاملات پر فیصلہ سازی کے لیے اپنائے ہوئے ہیں۔ آئین اور قانون ، سویلین برتری کا تصور غیر مبہم طور پر لکھا جا چکا ہے ۔ اس برتری کی بنیاد جمہوری عقل و دانش اور دوسری تہذیبوں کے تجربات اورہمارے اپنے حالات کے نچوڑ سے بنی ہے ۔ بحیثیت ووٹ دہندگان ہمیں معلوم ہے کہ فوجی طاقت جب سیاسی میدان میںگھس جاتی ہے تو نتائج برے ہی نکلتے ہیں۔ مگر اس کے بعد معاملہ سویلین اختیار کو استعمال کرنے کا ہے ۔حکومت کا تصور برتری اتنا سادہ ہے کہ اس کو سادہ لوحی کہہ کر بھی ہضم نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے خیال میں انگریزی کے محاورے One Page کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ سازی کی کتاب میں ایک ہی صفحہ ہے جس کے مندرجات سے سب پڑھنے والوں کو اتفاق کرنا ہو گا ۔ جب وہ یہ فرماتی ہے کہ فوج اور سویلین ایک صفحہ پر ہے تو اصل میں وہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ طاقت کے واحد ورق پر اس نے جو تحریر کر دیا وہ حرف آخر ہو گیا ۔ وہ جو کچھ بھی کرے ، اس کی آئینی اور قانونی بنیاد جیسی بھی ہو اس میں سے کسی اور کو ایک لفظ تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ فیصلہ سازی کا یہ انداز پاکستان جیسے ملک میں مسائل پیدا کرنے میں معاونت کر سکتا ہے ان کے حل میں نہیں ۔ عملی طور پر ''ایک صفحے ''پر ہونے سے مراد یہ ہے کہ تمام آراء کو حاصل کرنے کے بعد ایک قومی نقطہ فکر کو سامنے لایا جائے جس کے بعد پالیسیوں کا اجراء ہو۔ مگر حکومت ایسا نہ کر کے فوج کے ساتھ سیدھے سادے تعلقات کو گھمبیر بنا رہی ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات کو سدھارا کیسے جائے ۔ مجھے یہ پڑھ کر انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ جنرل راحیل شریف اور میاں نواز شریف کے درمیان بات چیت کی تجاویز بغیر کسی پریشانی کے سامنے لائی جا رہی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں کے درمیان کوئی رابطہ یا بات چیت کا ضابطہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اور جیسے یہ دونوں فیصلہ ساز قوتیں کسی ہاٹ لائن کے بغیر ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر حالات واقعی ایسے ہیں جن کی طرف اشارہ ان تجاویز میں پنہاں ہے تو ہم سب کا خدا حافظ۔ جس نظام کے چلانے والے اس حد تک پہنچ گئے ہوں کہ ان کی باہمی بات چیت کے لیے استدعا کرنی پڑے تو ایسی صورت میں فلاح اور خیریت پر مبنی فیصلے کیسے سامنے آئیں گے ۔ میری اطلاعات کے مطابق حالات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں جتنے نواز لیگ کے حلقوں میں سمجھے جا رہے ہیں۔

بات چیت بھی ہو رہی ہے اور اتفاق رائے بنانے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ امید کر سکتے ہیں کہ حکومت خود کو خود سے پیدا کیے جانے والے منجدھار سے آسانی سے نکال لے گی ۔ مگر اس رویے کا کیا ہو گا جو حکومت اور اس کے رفقاء نے اپنا رکھا ہے ۔ وہ چلتی ہوئی ریل گاڑی پر اطمینان کے ساتھ سفرکرنے کے بجائے اس کے سامنے چھلانگ لگانے کی عادت کو ترک کر پائیں گے یا نہیں ، مستقبل میں فوج اور نواز لیگ کی حکومت کے تعلقات کا انحصار اسی عنصر پر ہے ۔
Load Next Story