نریندر مودی کیسا بھارت چاہتا ہے
گجرات کے عرب اور ایران کے ساتھ تاریخی رشتوں کو بے دریغی کے ساتھ نظرانداز کرتے ہوئے مودی کے حامیوں نے اپنے صوبے میں۔۔۔
KARACHI:
اپنے صحافتی کیریئر کے ابتدائی دنوں میں مجھے اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں ہونے والے انتخابات کو ڈیڑھ ماہ تک اس ملک میں رہ کر دیکھنے کا موقعہ ملا۔ نئی دلی روانگی سے پہلے جو تھوڑی بہت تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ پاکستانی حکومت کے لیے بھارت پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت کو پورا یقین تھا کہ 1984کے انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہ حاصل کر پائے گی اور بالآخر کوئی کمزور سی مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ دلی پہنچا تو وہاں کے صحافتی اور سیاسی تجزیہ کار بھی اسی نوعیت کی داستان سناتے پائے گئے۔
پھر میں ایک تھیلے میں دو جینز اور کچھ ٹی شرٹس رکھ کر ایک سست رو ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سوار ہوگیا۔ کلکتہ اس کی منزل تھی۔ اس شہر تک پہنچتے ہوئے یوپی اور بہار کے جتنے مسافر بھی ملتے بیک زبان ''لمڈے (یعنی راجیوگاندھی) کو ایک چانس دینے'' کا عہد کرتے سنائی دیے۔ میں نے اس سفر کی بنیاد پر یہ بڑھک لگا دی کہ راجیو گاندھی کو اس انتخاب میں اتنی کامیابی ملے گی جو اس کے نانا اور ماں کو بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ میرا تجزیہ چھپا تو جنرل ضیاء الحق پریشان ہوگئے۔ انھوں نے پاکستان کے بھارت میں مقیم سفارتکاروں کی اس حوالے سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ اس کالم میں لکھنا ضروری نہیں۔
ویسے بھی فی الوقت آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ بھارت کے بہت سارے سفر کرنے کے بعد میرا اس ملک سے جی بھر سا گیا ہے۔ وہاں سے کسی سیمینار وغیرہ میں شرکت کی دعوت آئے تو ٹال جاتا ہوں۔ مگر گزشتہ چند دنوں سے میں خود پر کافی لعن طعن کر رہا ہوں کہ ان دنوں مختلف وجوہات کی بناء پر میں بھارت میں کیوں موجود نہیں۔ میرا اصرار ہے کہ اس ملک میں ہونے والے انتخابات بھارتی تاریخ کا ایک اہم ترین مرحلہ ہیں۔ وہاں کے میڈیا پر نظر ڈالیے تو ''اب کی بار مودی سرکار'' کا شور سنائی دے رہا ہے۔ ہماری حکومتی اشرافیہ بھی تقریباً ایسا ہی سوچتی محسوس ہو رہی ہے۔ ان میں سے چند ایک تو بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ بھی کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد نریندر مودی، اٹل بہاری واجپائی کی طرح پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوئی نہ کوئی ڈرامائی پہل ضرور کرے گا۔
ذاتی طور پر میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ مودی سے خیر کی توقع کرنے والے جنرل مشرف کے دنوں میں تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ چونکہ بھارت کو اصل مسئلہ پاکستانی فوج سے ہے اس لیے واجپائی اور بعدازاں من موہن سنگھ سرکار پاکستان کے ایک فوجی سربراہ کے ساتھ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے معاملات نمٹانا چاہے گی۔ حقیقت مگر یہ رہی کہ جنرل مشرف کے دنوں میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر آنیاں جانیاں تو کافی رہیں مگر دیرپا امن کے راستے اگر دریافت بھی کر لیے گئے تو ان پر سفر کا آغاز نہ ہوسکا۔
بھارت اور دوسرے اہم ملکوں میں پاکستان اور انڈیا کے باہمی معاملات پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت مودی میں سے ایک اور واجپائی دریافت کرتے ہوئے اس پہلو پر بہت زور دے رہی ہے کہ 2002 میں گجراتی مسلمانوں کے قتل عام کی سرکاری سطح پر واضح سرپرستی کرنے کے باوجود RSSکے اس پرچارک نے جو صرف 4گھنٹے سوتا ہے اپنی پوری توجہ گجرات کی معاشی ترقی پر مبذول کر رکھی ہے۔ اس کے بدترین دشمن بھی اس کے بارے میں کوئی کرپشن کہانیاں نہیں سناتے۔ بطور وزیر اعلیٰ وہ صبح پانچ بجے اُٹھ کر سارا دن اپنے صوبے کی معاشی ترقی کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ بھارتی سرمایہ داروں کا بہت چہیتا بھی ہے۔ اگر وہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو بہتر حکومت اور اقتصادی ترقی اس کی اہم ترین ترجیحات بن جائیں گی۔ اپنی ان ترجیحات کی بنا پر وہ چاہے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں کوئی پیش قدمی نہ بھی کرے تو کم از کم انھیں اس حد تک بگاڑنا نہ چاہے گا کہ عالمی سرمایہ دار پاک۔بھارت جنگ کے خوف سے جو خوفناک ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی پہنچ سکتی ہے برصغیر سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع ہوجائیں ۔
میری ذاتی خواہش اس خوش گمانی پر اعتبار کرنے کی ہے۔ مگرمودی کے بارے میں جو تحقیق میں نے کی ہے مجھے یہ بات کہنے پر مجبور کررہی ہے کہ وہ ہرگز واجپائی جیسا ٹھنڈا اور دور اندیش نہیں ہے۔ بھارتی صوبے گجرات نے یقینا اس کی وزارتِ اعلیٰ کے ادوار میں بڑی متاثر کن اقتصادی ترقی دکھائی ہے مگر ان سب کے حصول کے لیے نریندر مودی کا اندازِ حکومت ہرگز جمہوری نہیں ہے۔ ایک مشہور امریکی لکھاری کے ساتھ اپنی بات چیت میں وہ بارہا سنگاپور کا ذکر کرتا رہا۔ سنگاپور کی بے پناہ معاشی ترقی دراصل چینی النسل اکثریت میں موجود کاروباری صلاحیتوں کو بھرپورانداز میں اکٹھا کرکے استعمال کرنے میں مضمر ہے۔ نریندر مودی بھی ذکر گجراتیوں کی کاروباری جبلتوں کا کرتا رہتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ لیکن ان گیارہ فی صد گجراتیوں کا تذکرہ نہیں کرتا جو مسلمان ہیں۔ اس کی نظر میں گجراتی صرف ہندو پٹیل ہیں جو افریقہ کے کئی ملکوں میں کاروبار جمانے کے بعد ان لندن اور نیویارک کی منڈیوں پر چھائے ہوئے ہیں۔
وی ایس نیپال نے کئی برس پہلے لکھا تھا کہ ہندو مندر سے جتنا دور ہو اتنا ہی کٹر بن جایا کرتا ہے۔ نریندر مودی کی Core Constituency ''مندر سے دور''بسے ایسے ہی کٹر ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے ''ہندو مذہب'' کے چند بنیادی اصولوں تک محدود رہتے ہوئے ایسے رویے کو فروغ دیا ہے جسے مذہبی فاشزم کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ لوگ 1026 میں سومنات پر محمود غزنوی کے حملے کو اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے وہ حال ہی کا کوئی واقعہ ہو۔ اکبر اعظم جیسا ''دین الہی'' کا پرچارک بھی ان کی نظر میں ایک ''غیر ملکی غاصب'' ہی شمار ہوتا ہے۔ گجرات کی تاریخ کو ازسرِ نو لکھتے ہوئے یہ لوگ اتنا یادرکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ ایران پر عرب اور اسلام کے غلبے کے بعد اس خطے کے پارسیوں کو گجرات میں جائے امان نصیب ہوئی تھی۔ اسماعیلیوں نے بھی اسی گجرات میں آکر پناہ لی۔
گجرات کے عرب اور ایران کے ساتھ تاریخی رشتوں کو بے دریغی کے ساتھ نظرانداز کرتے ہوئے مودی کے حامیوں نے اپنے صوبے میں مسلمانوں کو بتدریج مین اسٹریم سے بالکل کاٹ دیا ہے۔ مسلمان اب علیحدہ محلوں میں رہتے ہیں اور ان کے بچے جن تعلیمی اداروں میں جارہے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نظر آتے ہیں۔ کئی امریکی اور برطانوی صحافی گجرات کے مسلمانوں کی مجموعی بیگانگی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے پائے جارہے ہیں کہ بھارت کی نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس مودی کی اس شدت سے حامی کیوں بن گئی ہے۔ ان کی اس فکر مندی کا اظہار مگر بھارتی میڈیا میں اس شدت کے ساتھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خود کو سیکولر کہنے والے کچھ دبکے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ انھیں امید ہے تو بس اتنی کہ مودی کی جماعت کسی نہ کسی طرح 200سے زیادہ نشستیں نہ حاصل کر پائے اور اقتدار کو مکمل اختیار کے ساتھ استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا نریندر مودی ایک کمزور مخلوط حکومت کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلے۔
اپنے صحافتی کیریئر کے ابتدائی دنوں میں مجھے اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں ہونے والے انتخابات کو ڈیڑھ ماہ تک اس ملک میں رہ کر دیکھنے کا موقعہ ملا۔ نئی دلی روانگی سے پہلے جو تھوڑی بہت تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ پاکستانی حکومت کے لیے بھارت پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت کو پورا یقین تھا کہ 1984کے انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہ حاصل کر پائے گی اور بالآخر کوئی کمزور سی مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ دلی پہنچا تو وہاں کے صحافتی اور سیاسی تجزیہ کار بھی اسی نوعیت کی داستان سناتے پائے گئے۔
پھر میں ایک تھیلے میں دو جینز اور کچھ ٹی شرٹس رکھ کر ایک سست رو ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سوار ہوگیا۔ کلکتہ اس کی منزل تھی۔ اس شہر تک پہنچتے ہوئے یوپی اور بہار کے جتنے مسافر بھی ملتے بیک زبان ''لمڈے (یعنی راجیوگاندھی) کو ایک چانس دینے'' کا عہد کرتے سنائی دیے۔ میں نے اس سفر کی بنیاد پر یہ بڑھک لگا دی کہ راجیو گاندھی کو اس انتخاب میں اتنی کامیابی ملے گی جو اس کے نانا اور ماں کو بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ میرا تجزیہ چھپا تو جنرل ضیاء الحق پریشان ہوگئے۔ انھوں نے پاکستان کے بھارت میں مقیم سفارتکاروں کی اس حوالے سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ اس کالم میں لکھنا ضروری نہیں۔
ویسے بھی فی الوقت آپ کو بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ بھارت کے بہت سارے سفر کرنے کے بعد میرا اس ملک سے جی بھر سا گیا ہے۔ وہاں سے کسی سیمینار وغیرہ میں شرکت کی دعوت آئے تو ٹال جاتا ہوں۔ مگر گزشتہ چند دنوں سے میں خود پر کافی لعن طعن کر رہا ہوں کہ ان دنوں مختلف وجوہات کی بناء پر میں بھارت میں کیوں موجود نہیں۔ میرا اصرار ہے کہ اس ملک میں ہونے والے انتخابات بھارتی تاریخ کا ایک اہم ترین مرحلہ ہیں۔ وہاں کے میڈیا پر نظر ڈالیے تو ''اب کی بار مودی سرکار'' کا شور سنائی دے رہا ہے۔ ہماری حکومتی اشرافیہ بھی تقریباً ایسا ہی سوچتی محسوس ہو رہی ہے۔ ان میں سے چند ایک تو بڑے اعتماد سے یہ دعویٰ بھی کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد نریندر مودی، اٹل بہاری واجپائی کی طرح پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوئی نہ کوئی ڈرامائی پہل ضرور کرے گا۔
ذاتی طور پر میں اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ مودی سے خیر کی توقع کرنے والے جنرل مشرف کے دنوں میں تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ چونکہ بھارت کو اصل مسئلہ پاکستانی فوج سے ہے اس لیے واجپائی اور بعدازاں من موہن سنگھ سرکار پاکستان کے ایک فوجی سربراہ کے ساتھ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے معاملات نمٹانا چاہے گی۔ حقیقت مگر یہ رہی کہ جنرل مشرف کے دنوں میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر آنیاں جانیاں تو کافی رہیں مگر دیرپا امن کے راستے اگر دریافت بھی کر لیے گئے تو ان پر سفر کا آغاز نہ ہوسکا۔
بھارت اور دوسرے اہم ملکوں میں پاکستان اور انڈیا کے باہمی معاملات پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت مودی میں سے ایک اور واجپائی دریافت کرتے ہوئے اس پہلو پر بہت زور دے رہی ہے کہ 2002 میں گجراتی مسلمانوں کے قتل عام کی سرکاری سطح پر واضح سرپرستی کرنے کے باوجود RSSکے اس پرچارک نے جو صرف 4گھنٹے سوتا ہے اپنی پوری توجہ گجرات کی معاشی ترقی پر مبذول کر رکھی ہے۔ اس کے بدترین دشمن بھی اس کے بارے میں کوئی کرپشن کہانیاں نہیں سناتے۔ بطور وزیر اعلیٰ وہ صبح پانچ بجے اُٹھ کر سارا دن اپنے صوبے کی معاشی ترقی کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ بھارتی سرمایہ داروں کا بہت چہیتا بھی ہے۔ اگر وہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا تو بہتر حکومت اور اقتصادی ترقی اس کی اہم ترین ترجیحات بن جائیں گی۔ اپنی ان ترجیحات کی بنا پر وہ چاہے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں کوئی پیش قدمی نہ بھی کرے تو کم از کم انھیں اس حد تک بگاڑنا نہ چاہے گا کہ عالمی سرمایہ دار پاک۔بھارت جنگ کے خوف سے جو خوفناک ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی پہنچ سکتی ہے برصغیر سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع ہوجائیں ۔
میری ذاتی خواہش اس خوش گمانی پر اعتبار کرنے کی ہے۔ مگرمودی کے بارے میں جو تحقیق میں نے کی ہے مجھے یہ بات کہنے پر مجبور کررہی ہے کہ وہ ہرگز واجپائی جیسا ٹھنڈا اور دور اندیش نہیں ہے۔ بھارتی صوبے گجرات نے یقینا اس کی وزارتِ اعلیٰ کے ادوار میں بڑی متاثر کن اقتصادی ترقی دکھائی ہے مگر ان سب کے حصول کے لیے نریندر مودی کا اندازِ حکومت ہرگز جمہوری نہیں ہے۔ ایک مشہور امریکی لکھاری کے ساتھ اپنی بات چیت میں وہ بارہا سنگاپور کا ذکر کرتا رہا۔ سنگاپور کی بے پناہ معاشی ترقی دراصل چینی النسل اکثریت میں موجود کاروباری صلاحیتوں کو بھرپورانداز میں اکٹھا کرکے استعمال کرنے میں مضمر ہے۔ نریندر مودی بھی ذکر گجراتیوں کی کاروباری جبلتوں کا کرتا رہتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ لیکن ان گیارہ فی صد گجراتیوں کا تذکرہ نہیں کرتا جو مسلمان ہیں۔ اس کی نظر میں گجراتی صرف ہندو پٹیل ہیں جو افریقہ کے کئی ملکوں میں کاروبار جمانے کے بعد ان لندن اور نیویارک کی منڈیوں پر چھائے ہوئے ہیں۔
وی ایس نیپال نے کئی برس پہلے لکھا تھا کہ ہندو مندر سے جتنا دور ہو اتنا ہی کٹر بن جایا کرتا ہے۔ نریندر مودی کی Core Constituency ''مندر سے دور''بسے ایسے ہی کٹر ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے ''ہندو مذہب'' کے چند بنیادی اصولوں تک محدود رہتے ہوئے ایسے رویے کو فروغ دیا ہے جسے مذہبی فاشزم کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ لوگ 1026 میں سومنات پر محمود غزنوی کے حملے کو اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے وہ حال ہی کا کوئی واقعہ ہو۔ اکبر اعظم جیسا ''دین الہی'' کا پرچارک بھی ان کی نظر میں ایک ''غیر ملکی غاصب'' ہی شمار ہوتا ہے۔ گجرات کی تاریخ کو ازسرِ نو لکھتے ہوئے یہ لوگ اتنا یادرکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ ایران پر عرب اور اسلام کے غلبے کے بعد اس خطے کے پارسیوں کو گجرات میں جائے امان نصیب ہوئی تھی۔ اسماعیلیوں نے بھی اسی گجرات میں آکر پناہ لی۔
گجرات کے عرب اور ایران کے ساتھ تاریخی رشتوں کو بے دریغی کے ساتھ نظرانداز کرتے ہوئے مودی کے حامیوں نے اپنے صوبے میں مسلمانوں کو بتدریج مین اسٹریم سے بالکل کاٹ دیا ہے۔ مسلمان اب علیحدہ محلوں میں رہتے ہیں اور ان کے بچے جن تعلیمی اداروں میں جارہے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نظر آتے ہیں۔ کئی امریکی اور برطانوی صحافی گجرات کے مسلمانوں کی مجموعی بیگانگی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے پائے جارہے ہیں کہ بھارت کی نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس مودی کی اس شدت سے حامی کیوں بن گئی ہے۔ ان کی اس فکر مندی کا اظہار مگر بھارتی میڈیا میں اس شدت کے ساتھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خود کو سیکولر کہنے والے کچھ دبکے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ انھیں امید ہے تو بس اتنی کہ مودی کی جماعت کسی نہ کسی طرح 200سے زیادہ نشستیں نہ حاصل کر پائے اور اقتدار کو مکمل اختیار کے ساتھ استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا نریندر مودی ایک کمزور مخلوط حکومت کی سربراہی کرنے سے معذرت کرلے۔