ماحولیاتی مسائل اور اسلامی احکامات
اسلام دین فطرت ہے۔ مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ بطور خلیفہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ کائنات کے وسائل کو اس کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کریں۔
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ انسان نے اپنے برے اعمال کی وجہ سے کائنات کی فضا کو تباہ کردیا ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے بدترین آلودگی والے شہروں میں ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملک کو ہر سال سیلابوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ہزاروں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ فیکٹریاں آلودہ پانی کو براہ راست ندی نالوں میں پھینک دیتی ہیں جس سے فصلوں کو سیراب کیا جارہا ہے۔ گندے پانی سے اگنے والی فصلیں کھانے سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام ہم پر کیا ذمے داریاں عائد کرتا ہے اور ہم ماحول کو اپنی منفی سرگرمیوں سے کیسے بچا سکتے ہیں۔
اسلام دنیا میں زندگی گزارنے کےلیے مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرتا ہے۔ جہاں اسلام یہ بتاتا ہے کہ ہمارے فرائض کیا ہیں، یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، وہیں یہ ہمیں ماحولیات کے حوالے سے ہماری ذمے داریوں کے بارے میں بھی سکھاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں ماحول (پانی، مٹی، درختوں، حشرات الارض اور نباتات اور جاندار) سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے، یعنی ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں۔
اسلام میں انسانی جسم خدا کی طرف سے دی گئی امانت سمجھا جاتا ہے۔ ہر مسلمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کو صحیح اور جائز طریقے سے استعمال کرے۔ مسلمان دنیا کے وسائل کو جائز حدود کے اندر رہ کر ہی اپنی دسترس میں لاسکتے ہیں۔ ماحولیاتی میدان میں یہ حدود قرآن اور احادیث میں بیان کی گئیں۔ مثلاً حرم کے مہینوں میں حرم کی حدود میں جانوروں کے شکار کی ممانعت، جنگ کے دوران درختوں کو کاٹنے کی ممانعت، اور جانوروں کے چرنے کی زمین کو نقصان پہنچانے کی ممانعت۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کرنے اور وضو کرتے وقت بھی پانی کے بے جا استعمال سے گریز کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح قرآن میں کہا گیا کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ فسادات فی الارض میں ماحولیاتی تباہی بھی شامل ہے۔ انسانوں نے ماحول کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ کھاؤ پیو لیکن اسراف سے کام نہ لو یعنی حدود میں رہ کر وسائل کا استعمال کرو اور ماحول اور خدا کے دیے ہوئے وسائل کو اپنے فائدے کےلیے بے جا ضائع نہ کرو۔ بلکہ انہیں ذمے داری سے استعمال کرو۔
اسلام انسانی وسائل سے استفادہ کرنے کےلیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔ اسی طرح فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص کسی پر زیادتی کرے گا وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا جب تک کہ وہ اس شخص سے اپنی خطا کی معافی نہ مانگ لےجس سے اس نے زیادتی کی ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے دنیا میں ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھا تھا۔ قرآن اور احادیث ایسی ہدایات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھیں اور ان میں دی گئی اپنی ذمے داری کو پہچانیں
مذکورہ بالا قرآن اور احادیث کے حوالہ جات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام مسلمانوں سے ذاتی اور معاشرتی طور پر ذمے داری کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلام اخلاقی طرز عمل کا ضابطہ فراہم کرتا ہے کہ کس طرح ہم اپنے اردگرد کے جانداروں اور بے جان چیزوں کے تحفظ کےلیے ذمے دار ہیں۔ اسلام کی ہدایات پر عمل کرکے ہی ہم اپنی معاشرتی اور ماحولیاتی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نباہ سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی حدود کو پہچانیں اور اپنے اعمال کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں تاکہ ہم صحیح معنوں میں اس دنیا میں خدا کے مطیع بن کر رہ سکیں۔ خدا کا خلیفہ ہونے کا حق ادا کرسکیں اور ثابت کرسکیں کہ ہم اچھے مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔