اچانک

برصغیر میں انگریزوں کی آمد نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔۔۔


[email protected]

ISLAMABAD: عورتیں اور بچے ٹی وی پر روتے نظر آتے ہیں، لڑکے اور بوڑھے فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں، اس لیے کہ کوئی مصیبت ان پر آ چکی ہوتی ہے۔ تکلیف و پریشانی کو آسمانی اور مسلمانی کہہ کر سمجھایا جاتاہے، کوئی افتاد قدرت کی طرف سے آزمائش بن کر آتی ہے یا حکمرانوں کی طرف سے غفلت اور لاپرواہی بن کر۔ ابتدا میں جب پاکستان میں ٹی وی آیا تو ایسی آہ و زاری کرنے والے لوگ فلسطین کے ہوتے تھے، یہ ستر کے عشرے کی بات ہے پھر ایک دہائی گزری تو کشمیر کے مظلومین کی فریاد کرتی تصاویر نظر آئیں۔ اچانک دیکھا گیا کہ نئی صدی میں گورے اور گوریاں روتے ہوئے دکھائی دیے، یہ 9/11 کے بعد کی کچھ تصاویر تھیں۔ کچھ وقت اور گزرا تو ہماری بہنیں و بیٹیاں اور بھائی کسی مصیبت پر روتے ہوئے نظر آئے، سیلاب یا زلزلے پر صبر کر لیا جاتا ہے کہ شاید یہ انسانی بس سے باہر ہو۔

جب انسان بھی انسان پر گولیوں اور دھاتوں کی شکل میں مصیبتیں اور آفتیں نازل کرتے ہیں تو دکھ کی شدت بڑھ جاتی ہے، قحط، کہیں بھوک رقص کرتی ہے تو کہیں پلائو اڑائے جاتے ہیں یہ کبھی اس لیے ہوتا ہے کہ سب کچھ اچانک ہو جاتا ہے یا انسانی لاپرواہی کی بدولت۔ ہم جس مصیبت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تو جھٹکا لگتا ہے۔ آپ دو چار سیڑھیاں ایک ساتھ کود سکتے ہیں، اچانک کوئی بڑی سیڑھی یا چھوٹا گڑھا آ جائے تو انسان لڑکھڑانے لگتا ہے وجہ مشکل ٹارگٹ نہیں ہوتا بلکہ سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان اس کے لیے تیار نہیں ہوتا، لاپرواہی ہو تو آنے والی مصیبتیں قحط کی بھوک سے بھی زیادہ تکلیف پہنچاتی ہیں، اگر انسان پر مصیبت اپنے جیسے انسان کی خود غرضی کی وجہ سے آتی ہے تو یہ المیے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

حکمران عوام سے دور ہوں تو اچانک ہی اقتدار کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے طاقتور حکومتیں اور مضبوط کرسی کا دی اینڈ چند ہفتوں میں ہو جاتا ہے۔ شان و شوکت پلک جھپکنے میں چھن جاتی ہے کئی برس قبل پاکستان کے حکمرانوں کی حکومتوں کے خاتمے کے حوالے سے کالم لکھا تھا ''وہ 120 دن'' کے عنوان سے جائزہ لیا گیا تھا۔ تحقیق تھی کہ پاکستان کے درجن بھر حکمرانوں کا اقتدار صرف چار ماہ کی مختصر مدت، جی ہاں صرف تیرہ ہفتوں میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق اپنے زمانہ حکومت میں غیر طبعی طور پر جاں بحق ہوئے تھے، خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی اور آئی آئی چندریگر اچانک سربراہ مملکت یا اسمبلیوں کے ہاتھوں گھروں کو روانہ ہوئے، ایوب خان کے اقتدار نے فیروز خان نون کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ کر دیا۔

اسکندر مرزا صرف تین ہفتوں میں آئین کے خاتمے کے بعد ہی اقتدار میں رہ سکتے ایوب اور بھٹو کے خلاف تحریکیں چلائی گئیں۔ پاکستان کے دو طاقتور حکمران صرف چار ماہ کے ایجی ٹیشن کے بعد اقتدار سے محروم ہوگئے۔ ایوب کا دس سالہ جشن ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ساتھی انھیں اگلے دس برسوں کے لیے بھی برسر اقتدار دیکھ رہے تھے، بھٹو کی مقبولیت اور مارچ 77ء میں انتخابی کامیابی کو دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حکومت پانچویں مہینے کا سورج بھی نہیں دیکھ سکے گی۔ ان دو حکمرانوں کے وسط میں یحییٰ خان کا زمانہ تھا۔ ''سقوط ڈھاکہ'' کے دو دن بعد اخبارات کے ٹیلی پرنٹر پر ان کا تیار کردہ آئین پیش کیا جا رہا تھا، وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی اقتدار چھوڑنے کا خیال ذہن میں لانے کو تیار نہ تھے، بے نظیر اور نواز شریف کا عشرہ جس میں دونوں نے دو تین سال کی حکومتوں کے بعد رخصتی چاہی۔

تبدیلی اقتدار کے ایک دو ہفتوں قبل بھی انھیں خیال نہیں آتا تھا کہ وہ ایوان سے خاندان میں جا سکتے ہیں یا زندان میں ڈالے جا سکتے ہیں یا اکٹھے کوئی حکمران خلق یا مخلوق سے حکمرانی کا پٹا لکھوا کر نہیں لایا۔ یہ اچانک والی افتاد کیا عام عام انسانوں پر آتی ہیں یا حکمرانوں پر، یہ کبھی بھی کسی پر آ سکتی ہے، اﷲ تعالیٰ سے ایسی آفات اور لاپرواہ حکمرانوں سے پناہ مانگنی چاہیے۔ یہ رب کائنات کا امتحان ہوتا ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ کاروباری لوگوں یا کھلاڑیوں اور فنکاروں نے تاریخ میں ایسے امتحان کو کیسے جھیلا؟ اچانک درپیش آ جانے والے امتحان کو۔

برصغیر میں انگریزوں کی آمد نے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ہندوئوں کے لیے صرف حکمران برے تھے جن کے پاس کچھ نہ تھا ان سے کوئی کیا چھینتا مسلمان حکمرانوں کے علاوہ زمیندار اور کاروباری لوگ بحران میں مبتلا تھے۔ مذہبی طبقے نے دین کو بچانے کے لیے تبلیغ شروع کی۔ اس انقلاب نے امیروں وغریبوں کی پوزیشن کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم نے بھی دنیا بھر میں اچانک مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیے، انڈے اور شیونگ بلیڈ لینے کے لیے قطاریں لگتی تھیں، پھر تقسیم ہند نے اچانک صورت حال کو بدل دیا، ہجرت نے کاروباری حضرات کی جمی جمائی دکانوں کو ختم کر دیا، سن 71ء میں بنگال کے سانحے نے بے شمار خاندانوں کو دینے والے سے لینے والا بنا دیا۔

صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کی بھٹو حکومت کی پالیسی نے راتوں رات نصف درجن کارخانوں کے مالکان کو ایک آدھ دکان تک محدود کر دیا۔ ستر کے عشرے میں اسکول چلانے والے محروم ہو گئے اور ضیا دور میں اسکولوں کے کاروبار میں نیا طبقہ ابھر کر سامنے آ گیا، صدام حسین کے کویت پر قبضے نے دنیا بھر کے ہزاروں خاندانوں کو امیر سے غریب بنا دیا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا ہے کہ رات کو کروڑ پتی کی حیثیت سے سونے والے صبح اٹھنے پر کنگال ہو چکے تھے، بعض اوقات زندگی کے ساز و سامان سو برس کے ہوتے ہیں لیکن پل کی خبر نہیں ہوتی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ فنکاروں اور کھلاڑیوں کے عروج سے اچانک زوال کی کیا داستان ہے۔

پہلوان لوگ ایک دن میں ایک بکرا کھا جاتے اور پانچ پانچ مرغوں کی یخنی پی جاتے، نواب ان کی سرپرستی کرتے، انگریزوں کے بعد تقسیم ہند نے نوابی ختم کر دی، پھر حکومتوں نے اس ''مہنگے شوق'' سے توبہ کر لی، بڑھتی عمر اور غربت نے پہلوانوں کو عجیب و غریب بحران میں مبتلا کر دیا، ہاکی کے کھلاڑیوں نے کبھی اس کھیل سے معاشی فائدے کی امید ہی نہیں رکھی، کرکٹ میں بھی جب پیسہ کم تھا تو امیدیں کم تھیں اور جب پیسہ آیا تو بڑے کھلاڑیوں نے اتنا جمع کر لیا کہ کوئی معاشی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ اچانک افتاد ان پر پڑی جنھوں نے ساری عمر کرکٹ کے لیے کھپائی، ایک دو میچ بھی کھیلے تو اداروں نے جاب دی۔

جب قسمت نے آنکھیں پھیریں تو ادارے بھی منہ موڑ گئے۔ کاروباری حضرات اور زمینداروں کو معاشرہ اہمیت ان کی دولت کے سبب دیتا ہے، یہ نہ رہے تو لوگ تو لوگ سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کھلاڑیوں اور فنکاروں کو دولت کے ساتھ شہرت بھی ملتی ہے، ایک چھن جائے تو صدمہ ہوتا ہے اور دونوں چھن جائیں تو صدمے کی کیفیت دوگنی ہو جاتی ہے۔ نہ کوئی چینل دعوت دیتا ہے نہ کوئی آٹو گراف لیتا ہے اور نہ کوئی پہچانتا ہے، اچانک یہ دو صدمے اچھے بھلے فنکار و کھلاڑی کو نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔

فلمی دنیا میں اداکار صادق علی (پرنس آف منروا) کا نام سنتے ہیں جنھوں نے خوب کمایا اور لٹایا، جب کچھ نہ رہا تو اسٹوڈیو کے باہر ٹھیلا لگا کر خود بھی روئے اور کیپیٹل سینما کی گلی میں بھیک مانگتے ہوئے واقعی دیکھنے والوں کو بھی رلایا۔ ٹاپ کلاس اداکاروں و ہدایت کاروں نے بعد کے دور میں کمایا اور بچایا اور پھر لگایا۔ ایسے لوگوں کا مسئلہ معاش نہیں بلکہ یاد رکھا جاتا ہے، ہم جب کسی اسکول یا کالج میں پڑھ رہے ہوتے ہیں تو درجنوں لوگ ہم سے واقف ہوتے ہیں جب پانچ دس سال بعد جاتے ہیں تو انسان تو انسان بلکہ در و دیوار تک اجنبی بن جاتے ہیں چند ایک اساتذہ یا اسٹاف ممبر میں سے ایک دو ہی ہم کو پہچان پاتے ہیں، اچانک افتاد کی بڑی مثال وحید مراد کی دی جا سکتی ہے۔ وی سی آر کی آمد نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو غیر موثر کر دیا۔ 80ء کی دہائی میں پورا گھرانہ پانچ روپے میں وی سی آر پر فلم دیکھ لیتا تھا۔

پھر وہ پانچ سو روپے ٹیکسی، ٹکٹ اور بوتل کے خرچ کر کے سینما کیوں جائیں؟ احمد رشدی اور لہری جیسے فنکاروں پر اچانک آنے والی مصیبت معاشی تھی، رونا لیلیٰ اور مالا کے ہوتے ہوئے ناہید اختر اور مہناز چھا گئیں۔ مہدی حسن کی جگہ غلام عباس نے لی تو مسعود رانا کا متبادل اخلاق احمد بن گئے، اچانک بے روزگاری اور اوپر سے چاہنے والوں کی سرد مہری پر دگنا عذاب ہوتا ہے فنکاروں کے لیے بھلائے جانے اور نہ پہچانے جانے کا خوف ابھی سے شاہ رخ خان پر طاری ہے، اچھے کی امید اور برے کے لیے تیاری ہی انسان کو مصیبت جھیلنے کے قابل بناتی ہے اوپر والے سے دعا کی جا سکتی ہے کہ ہمیں زلزلے، سیلاب اور قحط جیسی ناگہانی آفات سے بچائے۔ اس صدمے سے محفوظ رکھے جس کے کبھی آثار دکھائی دیتے ہیں اور ان آفات سے بھی بچائے جو آ جاتی ہیں اچانک۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں