زمین کے آنسو
سائنسدانوں کا کہنا بجا کہ بجلی کی پیداوارکے نتیجے میں ہونیوالی ماحولیاتی آلودگی21 لاکھ افراد کی موت کا سبب بن سکتی ہے
وہ چند من چلے نوجوان تھے۔ مغربی طرز پر آراستہ بڑے سے نیم تاریک کمرے میں جمع اُن سب کے لباس بھی مغربی طرز کے تھے۔ انھوں نے عجیب سے حلیے بنائے ہوئے تھے۔ کانوں میں بُندے یہاں تک کہ نتھنے میں بھی ایک عدد بُندا پیوست ہے۔ عجیب طرز کے کَڑے، دھاگے، پَٹے، اُنگشتریاں۔ ایک نوجوان نے پھول دار شرٹ اور خاکی بنڈی پہن رکھی تھی، سر پر ویسا ہی پھول دار رومال منڈھ رکھا تھا۔ میری وہاں تک رسائی ایک خوش دل نوجوان کے توسط سے ہوئی تھی۔ یہ گزشتہ ماہ کے اواخر کا ذکر ہے۔ یہ سب یہاں ''ارتھ آور'' منانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ سامنے کی دیوار پر ایک بڑی سی ایل ای ڈی روشن تھی۔ اُس پر ایک انگریزی نغمہ چل رہا تھا۔ ایک تو انگریزی اور پھر وہ بھی سازوں کے ساتھ، ہماری سمجھ میں جو آیا وہ کچھ اس طرح تھا۔
ہم اپنی دھرتی پر زہر پھیلا رہے ہیں
ہزاروں ٹن کچرا روزانہ سمندر بُرد کیا جاتا ہے
تبدیلیوں کی ضرورت ہے
یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
درختوں کو سانس لینے دو
ایک تبدیلی لاؤ
کیمیکلز نے زمین کو خراب کر دیا ہے
زمین رو رہی ہے۔ زمین کے آنسو خشک کرو۔۔۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ ''ارتھ آور2013'' کا نغمہ ہے اور ''بگ سٹی انڈینز'' نے پرفارم کیا ہے۔ یہ ''بینڈ'' راک، پاپ اور سرخ ہندی طرزوں کو ملا کر موسیقی ترتیب دینے کے حوالے سے مشہور ہے۔ نغمے میں سرخ ہندیوں کی علامات کو ماحولیاتی بہتری کے لیے خوب صورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نغمے کے اختتام پر سب سے علیک سلیک ہوئی۔ اسی دوران مقامی وقت کے مطابق ''ارتھ آور'' شروع ہو گیا۔ نیم تاریک کمرے کو چند اور روشنیاں گُل کر کے مزید تاریک کر دیا گیا۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 7 ہزار شہروں میں ارتھ آور منانے کی تیاریاں ہیں۔ ان شہروں کی تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر دی جائیں گی۔ یہاں تک کے گھر، دفتر، مال، سڑکیں سب تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ یہاں تک کہ عالمی شہرت یافتہ عمارتوں مثلاً ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، ایفل ٹاور، کریملن وغیرہ سب ایک گھنٹے کے لیے تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ سال میں ایک دن ایک گھنٹے کے لیے علامتی طور پر تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر کے ماحولیاتی مسائل کا شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شدید سردیاں ، شدید گرمیاں، طوفان، زلزلے، ہریکین (سونامی)، قحط، خشک سالی، سیلاب آج جتنی شدت سے زمین کو اور موجودات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دہائی معلوم تاریخ کی گرم ترین دہائی تھی۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آغاز ہی سے زمین کی حدت میں اس تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ اس سے قبل کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ زمین پر نہ کبھی اتنے سونامی آتے تھے، نہ زلزلے، اور نہ ہی سیلاب۔ قدرتی آفات نے تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا ہے۔ موسم پہلے بھی بدلتے تھے لیکن اتنی شدت کی گرمی اور اتنی زبردست برف باریاں اتنی عام نہ تھیں۔ یہاں تک دیکھا گیا کہ جہاں کبھی برف باری نہ ہوئی تھی وہاں بھی گزشتہ سرما میں اولے پڑے۔ لگاتار نمودار ہونے والی شدید قدرتی آفات مختلف مذاہب کی تعلیمات کے مطابق قُربِ قیامت کا پتہ دیتی ہیں تو دوسری جانب سائنس دانوں کی متفقہ رائے کے مطابق انسانوں کے ہاتھوں زمین کی تباہی کا نوحہ سُناتی ہیں۔ اس کا براہ ِ راست اثر یہ ہوا ہے کہ ماحولیاتی تباہی کے نتیجے میں ہونے والی اموات 20 گُنا بڑھ گئیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ''ورلڈ میٹیریولوجیکل آرگنائزیشن'' کا کہنا ہے کہ قریباً 94 فی صد ممالک نے گزشتہ 10 برسوں کو گرم ترین کے طور پر ریکارڈ کیا ہے۔ سوئیڈن کی ''اُمیا یونی ورسٹی'' کی ایک تحقیق ''نیچر کلائمیٹ چینج'' نامی جرنل میں گزشتہ برس شایع ہوئی، اس رپورٹ کے مطا بق ماحولیاتی تبدیلیوں کے دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ صرف حدت میں اضافے سے 1500 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر زمینی حدت میں اضافہ نہ ہوتا تو شاید یہ اموات نہ ہوتیں۔ سوئیڈن کی طرح اسٹاک ہوم میں بھی یہ ہی ہوا۔ جب ترقی یافتہ ممالک میں گرمی کی شدت اور حدت میں اضافے سے اتنی اموات ہو سکتی ہیں تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غیر ترقی یافتہ علاقوں کے انسانوں پر کیا بِیتتی ہے۔ وہاں کیا حال ہوتا ہے کہ جہاں موت سَستی اور زندگی مہنگی ہے، کہ جہاں مرنے والوں کا شمار نہیں کیا جاتا۔
12 جولائی 2013کو ''دی گارجیئن'' رپورٹ کرتا ہے کہ ہر برس 20 لاکھ سے زائد افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ ''جرنل اینوائیر منٹل ریسرچ لیٹر'' میں شایع ہونے والے مطالعے کو رپورٹ کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ، ہر برس 21 لاکھ افراد فضا میں موجود کالک سے لتھڑے ہوئے مہین زرات کی بِنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔ انھیں ''پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو'' کہا جاتا ہے۔ یہ زرات ڈیزل انجن، بجلی بنانے والے پلانٹ اور کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ یونی ورسٹی آف بارتھ کیرولینا کے ڈاکٹر جیسن ویسٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے اندازوں کے مطابق فضائی آلودگی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
''ارتھ آور'' ایک عالمی تحریک ہے جو زمین کو ماحولیاتی تباہی سے بچا نے کے لیے بپا کی گئی ہے۔ یہ ڈبلیو ڈبلیو ایف، یعنی ''ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر'' کے زیرِ انتظام بپا کی گئی ہے۔ اس کا آغاز2007میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب علامتی طور پر تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر دی گئیں۔ بڑھتے بڑھتے آج اس تحریک کی تحریک پر 7 ہزار شہروں میں 29 مارچ کو مقامی وقت کے مطابق8:30 سے9:30 تک تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر کے ارتھ آور منایا گیا۔
بہ ظاہر یہ سب کچھ بہت اچھا اور تعریفی لگتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ممکن کس طرح سے ہو گا؟ سائنس دانوں کا یہ کہنا بجا کہ بجلی کی پیداوار کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی 21 لاکھ افراد کی موت کا سبب بن سکتی ہے لیکن کیا بجلی کی پیداوار سے آج کا انسان دست کش ہو سکتا ہے؟ یہ ہی بات ''کیو ٹو پروٹو کول'' سے علیحدہ ہوتے ہوئے 2011 میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم اسٹیفن ہارپر وغیرہ نے سمجھائی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر کینیڈا ''کیوٹو پروٹوکول'' کے قواعد و ضوابط تسلیم کر لے تو کینیڈا میں ہر سواری، کار، ٹرک، ٹریکٹر، ایمبولینس وغیرہ کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور یہ قوم کی توہین ہے۔ کینیڈا نے اتنی زبر دست ترقی کی ہے۔ اس کے بعد وہ اونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر کے دور میں کیسے جا سکتے ہیں؟ مانا کہ جو لوگ ان جانوروں پر سفر کرتے تھے انھوں نے دنیا کی ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ کیا ڈبلیو ڈبلیو ایف، ارتھ آور یا کسی کے پاس بھی انسانیت اور زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے اس مشکل کا کوئی قابلِ عمل حل ہے؟
ہم اپنی دھرتی پر زہر پھیلا رہے ہیں
ہزاروں ٹن کچرا روزانہ سمندر بُرد کیا جاتا ہے
تبدیلیوں کی ضرورت ہے
یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
درختوں کو سانس لینے دو
ایک تبدیلی لاؤ
کیمیکلز نے زمین کو خراب کر دیا ہے
زمین رو رہی ہے۔ زمین کے آنسو خشک کرو۔۔۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ ''ارتھ آور2013'' کا نغمہ ہے اور ''بگ سٹی انڈینز'' نے پرفارم کیا ہے۔ یہ ''بینڈ'' راک، پاپ اور سرخ ہندی طرزوں کو ملا کر موسیقی ترتیب دینے کے حوالے سے مشہور ہے۔ نغمے میں سرخ ہندیوں کی علامات کو ماحولیاتی بہتری کے لیے خوب صورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نغمے کے اختتام پر سب سے علیک سلیک ہوئی۔ اسی دوران مقامی وقت کے مطابق ''ارتھ آور'' شروع ہو گیا۔ نیم تاریک کمرے کو چند اور روشنیاں گُل کر کے مزید تاریک کر دیا گیا۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 7 ہزار شہروں میں ارتھ آور منانے کی تیاریاں ہیں۔ ان شہروں کی تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر دی جائیں گی۔ یہاں تک کے گھر، دفتر، مال، سڑکیں سب تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ یہاں تک کہ عالمی شہرت یافتہ عمارتوں مثلاً ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، ایفل ٹاور، کریملن وغیرہ سب ایک گھنٹے کے لیے تاریکی میں ڈوب جائیں گے۔ سال میں ایک دن ایک گھنٹے کے لیے علامتی طور پر تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر کے ماحولیاتی مسائل کا شعور اُجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شدید سردیاں ، شدید گرمیاں، طوفان، زلزلے، ہریکین (سونامی)، قحط، خشک سالی، سیلاب آج جتنی شدت سے زمین کو اور موجودات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دہائی معلوم تاریخ کی گرم ترین دہائی تھی۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آغاز ہی سے زمین کی حدت میں اس تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ اس سے قبل کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ زمین پر نہ کبھی اتنے سونامی آتے تھے، نہ زلزلے، اور نہ ہی سیلاب۔ قدرتی آفات نے تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا ہے۔ موسم پہلے بھی بدلتے تھے لیکن اتنی شدت کی گرمی اور اتنی زبردست برف باریاں اتنی عام نہ تھیں۔ یہاں تک دیکھا گیا کہ جہاں کبھی برف باری نہ ہوئی تھی وہاں بھی گزشتہ سرما میں اولے پڑے۔ لگاتار نمودار ہونے والی شدید قدرتی آفات مختلف مذاہب کی تعلیمات کے مطابق قُربِ قیامت کا پتہ دیتی ہیں تو دوسری جانب سائنس دانوں کی متفقہ رائے کے مطابق انسانوں کے ہاتھوں زمین کی تباہی کا نوحہ سُناتی ہیں۔ اس کا براہ ِ راست اثر یہ ہوا ہے کہ ماحولیاتی تباہی کے نتیجے میں ہونے والی اموات 20 گُنا بڑھ گئیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ''ورلڈ میٹیریولوجیکل آرگنائزیشن'' کا کہنا ہے کہ قریباً 94 فی صد ممالک نے گزشتہ 10 برسوں کو گرم ترین کے طور پر ریکارڈ کیا ہے۔ سوئیڈن کی ''اُمیا یونی ورسٹی'' کی ایک تحقیق ''نیچر کلائمیٹ چینج'' نامی جرنل میں گزشتہ برس شایع ہوئی، اس رپورٹ کے مطا بق ماحولیاتی تبدیلیوں کے دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ صرف حدت میں اضافے سے 1500 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر زمینی حدت میں اضافہ نہ ہوتا تو شاید یہ اموات نہ ہوتیں۔ سوئیڈن کی طرح اسٹاک ہوم میں بھی یہ ہی ہوا۔ جب ترقی یافتہ ممالک میں گرمی کی شدت اور حدت میں اضافے سے اتنی اموات ہو سکتی ہیں تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غیر ترقی یافتہ علاقوں کے انسانوں پر کیا بِیتتی ہے۔ وہاں کیا حال ہوتا ہے کہ جہاں موت سَستی اور زندگی مہنگی ہے، کہ جہاں مرنے والوں کا شمار نہیں کیا جاتا۔
12 جولائی 2013کو ''دی گارجیئن'' رپورٹ کرتا ہے کہ ہر برس 20 لاکھ سے زائد افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ ''جرنل اینوائیر منٹل ریسرچ لیٹر'' میں شایع ہونے والے مطالعے کو رپورٹ کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ، ہر برس 21 لاکھ افراد فضا میں موجود کالک سے لتھڑے ہوئے مہین زرات کی بِنا پر ہلاک ہوتے ہیں۔ انھیں ''پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو'' کہا جاتا ہے۔ یہ زرات ڈیزل انجن، بجلی بنانے والے پلانٹ اور کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ یونی ورسٹی آف بارتھ کیرولینا کے ڈاکٹر جیسن ویسٹ کا کہنا ہے کہ ہمارے اندازوں کے مطابق فضائی آلودگی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
''ارتھ آور'' ایک عالمی تحریک ہے جو زمین کو ماحولیاتی تباہی سے بچا نے کے لیے بپا کی گئی ہے۔ یہ ڈبلیو ڈبلیو ایف، یعنی ''ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر'' کے زیرِ انتظام بپا کی گئی ہے۔ اس کا آغاز2007میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب علامتی طور پر تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر دی گئیں۔ بڑھتے بڑھتے آج اس تحریک کی تحریک پر 7 ہزار شہروں میں 29 مارچ کو مقامی وقت کے مطابق8:30 سے9:30 تک تمام غیر ضروری لائٹیں بند کر کے ارتھ آور منایا گیا۔
بہ ظاہر یہ سب کچھ بہت اچھا اور تعریفی لگتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ممکن کس طرح سے ہو گا؟ سائنس دانوں کا یہ کہنا بجا کہ بجلی کی پیداوار کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی 21 لاکھ افراد کی موت کا سبب بن سکتی ہے لیکن کیا بجلی کی پیداوار سے آج کا انسان دست کش ہو سکتا ہے؟ یہ ہی بات ''کیو ٹو پروٹو کول'' سے علیحدہ ہوتے ہوئے 2011 میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم اسٹیفن ہارپر وغیرہ نے سمجھائی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر کینیڈا ''کیوٹو پروٹوکول'' کے قواعد و ضوابط تسلیم کر لے تو کینیڈا میں ہر سواری، کار، ٹرک، ٹریکٹر، ایمبولینس وغیرہ کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور یہ قوم کی توہین ہے۔ کینیڈا نے اتنی زبر دست ترقی کی ہے۔ اس کے بعد وہ اونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر کے دور میں کیسے جا سکتے ہیں؟ مانا کہ جو لوگ ان جانوروں پر سفر کرتے تھے انھوں نے دنیا کی ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ کیا ڈبلیو ڈبلیو ایف، ارتھ آور یا کسی کے پاس بھی انسانیت اور زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے اس مشکل کا کوئی قابلِ عمل حل ہے؟