اب کوئی اور نسخہ استعمال ہو گا
nusrat.javeed@gmail.com
پتہ نہیں ہمارے ہاں لوگ یہ بات کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ ایک پیشہ ور صحافی کا پہلا کام خبر دینا ہوتا ہے۔ کالم نگاری کے ذریعے کسی خبر پر رائے زنی اس کے بعد کا مرحلہ ہوا کرتی ہے۔ میں کالم بھی لکھتا ہوں۔ مگر لکھتے ہوئے مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ میں ایک ذہین وفطین شخص نہیں ہوں۔ میرا علم محدود ہے۔ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کی عادت برسوں پہلے بھلا چکا ہوں۔ میرے ضمیر میں پارسائی کی خواہش خال خال ہی انگرائی لے کر بیدار ہوتی ہے۔ نہ ہی میرے پاس اس ملک کو بہتر اور خوش حال بنانے کے کوئی قابل عمل نسخے موجود ہیں۔ اسی لیے کالم لکھتے ہوئے میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے سیاسی منظر نامے سے متعلق جاری وساری معاملات پر توجہ مرکوز رہے۔ توجہ کا یہی ارتکاز بعض اوقات ان چیزوں کا ذکر کرنے کی راہیں نکالتا ہے جو اخباروں اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر فی الوقت نظر نہیں آ رہی ہوتیں۔
ابھی تک کسی ٹھوس علمی طریقے سے پاکستان کی آبادی کا تعین نہیں ہو پایا ہے۔ یہ تعین مردم شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے جو اصولی طور پر دسویں سال ہونا چاہیے۔ ہماری حکومت اب کی بار وہ مرحلہ مکمل نہیں کر پائی ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی بدامنی کے علاوہ مردم شماری نہ کرنے کے لیے پنجاب اور سندھ میں بارشوں اور سیلاب کا جواز بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹھوس گنتی تو ہو نہیں پائی ہے۔ مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے۔ اس اٹھارہ کروڑ کی بھرپور نمایندگی سنا ہے کہ شام سات بجے سے رات ایک بجے تک ٹیلی وژن اسکرینوں پر میری طرح کے نوحہ گر اینکرپرسن کیا کرتے ہیں۔ انھیں لوگوں کے ذریعے ہمیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں اب مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں۔ عدلیہ آزاد ہے اور میڈیا چوکس۔ اب جو بھی ہوگا خلق ِخدا کی مرضی کے عین مطابق آئین اور قانون میں دیے گئے ضابطوں کے ذریعے ہوگا۔
آ
صف علی زرداری نامی ایک شخص کے زیر سر پرستی ایک ''نااہل اور بدعنوان حکومت'' کی چھٹی ہو جائے گی۔ پھر نئے انتخابات ہوں گے اور نیک، ذہین اور قوم کا درد رکھنے والے لوگوں کی ایک نئی کھیپ حکمران ہوگی۔ سوال بس اتنا ہے کہ آنے والی حکومت کی سربراہی کس کے پاس ہوگی۔ اگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آنے والے پارسا حکمرانوں کے قائد نواز شریف ہوں گے تو بہت سارے لوگوں کو یہ گمان بھی ہے کہ اب کی باری تو صرف عمران خان کی ہوگی۔ بظاہر یہ گمان اتنا غیر منطقی بھی نہیں لگتا۔ آخر کار وہ ''تبدیلی کا نشان'' ہیں اور لوگ پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے رہ نمائوں اور حکومتوں کو 1988 سے بھگت رہے ہیں۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے جنرل مشرف کا جو کارگل سے سری نگر نہ پہنچ پائے تو غصے میں اسلام آباد پر قبضہ کر بیٹھے۔ کرپٹ سیاستدانوں کو جنرل امجد کے ذریعے جیلوں میں ڈالا اور جنرل نقوی کے ذریعے اصلی جمہوریت کی جڑوں کو سینچتے ہوئے 2002 کے انتخابات تک پہنچے۔ ان کے دور میں ہر چیز بھلی چنگی نظر آ رہی تھی۔ مگر بالآخر پتہ نہیں کس نے کالا جادو کر دیا۔ مشرف کا چیف جسٹس سے پھڈا ہوگیا۔ چیف کے بے شمار جانثار سڑکوں پر آ گئے۔ مشرف نے محترمہ بے نظیر سے این آر او والا سمجھوتہ کر لیا۔ مگر محترمہ اس کے فوائد اُٹھانے سے پہلے مار دی گئیں۔ دُکھ تو انھوں نے جھیلے، صدرآصف علی زرداری بن گئے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم۔ چیف صاحب پھر بھی اپنے عہدے پر بحال نہ ہوئے۔ بالآخر نواز شریف نے لاہور سے لانگ مارچ کیا اور گوجرانوالہ پہنچتے ہی انھیں بحال کرا کر لاہور واپس چلے گئے۔ چیف صاحب بحال ہوئے تو معاملہ اس چٹھی پر اٹک گیا جو حکومت پاکستان کو سویٹزرلینڈ میں آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر چھپائے کروڑوں ڈالروں کا سراغ لگانے میں مدد دے سکتی ہے۔ گیلانی نے وہ چٹھی نہ لکھی۔ گھر بھیج دیے گئے۔ راجہ پرویز اشرف کا انجام بھی ان سے مختلف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ابھی تک جو کچھ میں نے لکھا ہے بڑا بنیادی اور صاف نظر آنے والا ہے۔ مگر اس سب سے آ گے جا کر سوچیں تو حقیقت یہ بھی ہے کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان پہلے تنائو اور پھر کھلے عام ٹکرائو کے سبب ہر چیز ساکت ہوگئی ہے۔ ملکی معیشت جمود سے بدحالی کی طرف لڑھک رہی ہے۔ امریکا اور بھارت جیسے ملکوں سے معاملات اُلجھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کلی طور پر مایوس اور بیزار ہیں۔ شام سات بجے سے رات ایک بجے تک نوحہ گری کرنے والے اٹھارہ کروڑ عوام کی مایوسی اور بے زاری کی ترجمانی تو کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی حالت بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ طاقت اصولی طور پر منتخب ہونے والی حکومت اور اپوزیشن کے رہ نمائوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔ حکومت کو سپریم کورٹ نے جکڑ رکھا ہے۔ اپوزیشن والے اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی گیم بنا سکتے تھے۔ مگر وہ بھی سپریم کورٹ میں فریادیں داخل کرنے کے بعد حکومتی بے بسی کا لطف اُٹھاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں فیصلہ کن قوتیں صرف سیاستدان یا عدلیہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے مخصوص حالات کے سبب عسکری قیادت کا بھی ایک کردار ہے۔ پھر ''پکی نوکری'' والے نام نہاد ''پبلک سرونٹس'' ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ورلڈ بینک ہے جس نے ہمیں بہت سارے قرضے دے رکھے ہیں۔ اسے اپنے قرضوں کی وصولی سے زیادہ پیارا بیاج ہے۔ وہ اپنی رقم کو ڈوبتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دھواں دار تقریریں کر کے ان سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ان سے چھٹکارا ایک مستحکم حکومت کی بنائی طویل المدت پالیسیاں ہی دلاسکتی ہیں۔ حکومت مستحکم نہیں۔ جو حکومت میں نہیں پالیسیاں ان کے پاس بھی نہیں۔ محض نعرے ہیں۔ بڑھکیں ہیں۔
ان حالات میں ورلڈ بینک وغیرہ سے متعلق لوگ ہماری عسکری قیادت اور پکی نوکری والے افسروں کے ساتھ مل کر اپنی سہولت کے لیے کچھ منصوبے سوچنے پر مجبور ہیں۔ آصف علی زرداری کی زیر سرپرستی حکومت کی فراغت کے بعد بجائے فی الفور نئے انتخابات کرانے کے ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی کم از کم دو سالہ حکومت کے ذریعے معاملات کو سنوارنے اور ملکی معیشت کو صحیح پٹڑی پر چلانے کا منصوبہ ان ہی لوگوں نے بنایا تھا۔ میرا گناہ صرف اتنا ہے کہ میں نے اس منصوبے کا بہت پہلے سے ذکر کرنا شروع کردیا۔ اس ذکر کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ میں خود ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت لانا چاہتا ہوں۔
میں اپنی اوقات پوری طرح جانتا ہوں۔کسی تھانے کا ایس ایچ او تو دور کی بات ہے وہاں کے ایک سپاہی کو بھی تبدیل نہیں کرا سکتا۔ اس ملک میں حکومتیں وہی بناتے اور ہٹاتے ہیں جن کے پاس قوت ہے۔ ریاستی قوت عسکری قیادت کے پاس ہوتی ہے یا پکی نوکری والے سول افسروں کے پاس اور یہ دونوں قوتیں اپنی بقاء کے لیے ملک کی معیشت کو روا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنے پر مجبور ہیں۔ بالخصوص ان دِنوں جب آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی ضرورت آن پڑے۔
وہ معاہدہ نہ ہوا تو پکی نوکری والوں کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہونا شروع ہو جائے گا۔ پکی نوکری والوں کو تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کی خاطر ہی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسد عمر کا نام اس کی سربراہی کے لیے چل رہا تھا۔ پھر واشنگٹن کے کچھ پاکستانیوں نے شوکت ترین کی بات چلادی۔ آصف علی زرداری کو نام البتہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا دیا گیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ آج کل پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں اور ہمارے وزیر خزانہ بھی۔ لیکن وہ پی پی پی کے بنیادی رکن تو نہیں رہے۔ انھیں آصف علی زرداری کوعاریتاً انھی طاقتوں نے دیا تھا جن کا ذکر میں کرچکا ہوں۔ وہ طاقتیں جب چاہیں گی شیخ صاحب اپنے ضمیر کی آواز سن کر اصولی بنیادوں پر سینیٹ، وزارت اور پارٹی سے استعفیٰ دے دیں گے۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آیندہ چند دنوں میں وہ یہ سب کچھ نہیں کرتے تو طے کرلیجیے کہ ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کا منصوبہ بھی ترک کر دیا گیا ہے۔ نسخہ کوئی اور استعمال ہوگا۔
ابھی تک کسی ٹھوس علمی طریقے سے پاکستان کی آبادی کا تعین نہیں ہو پایا ہے۔ یہ تعین مردم شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے جو اصولی طور پر دسویں سال ہونا چاہیے۔ ہماری حکومت اب کی بار وہ مرحلہ مکمل نہیں کر پائی ہے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی بدامنی کے علاوہ مردم شماری نہ کرنے کے لیے پنجاب اور سندھ میں بارشوں اور سیلاب کا جواز بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹھوس گنتی تو ہو نہیں پائی ہے۔ مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے۔ اس اٹھارہ کروڑ کی بھرپور نمایندگی سنا ہے کہ شام سات بجے سے رات ایک بجے تک ٹیلی وژن اسکرینوں پر میری طرح کے نوحہ گر اینکرپرسن کیا کرتے ہیں۔ انھیں لوگوں کے ذریعے ہمیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ پاکستان میں اب مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں۔ عدلیہ آزاد ہے اور میڈیا چوکس۔ اب جو بھی ہوگا خلق ِخدا کی مرضی کے عین مطابق آئین اور قانون میں دیے گئے ضابطوں کے ذریعے ہوگا۔
آ
صف علی زرداری نامی ایک شخص کے زیر سر پرستی ایک ''نااہل اور بدعنوان حکومت'' کی چھٹی ہو جائے گی۔ پھر نئے انتخابات ہوں گے اور نیک، ذہین اور قوم کا درد رکھنے والے لوگوں کی ایک نئی کھیپ حکمران ہوگی۔ سوال بس اتنا ہے کہ آنے والی حکومت کی سربراہی کس کے پاس ہوگی۔ اگر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آنے والے پارسا حکمرانوں کے قائد نواز شریف ہوں گے تو بہت سارے لوگوں کو یہ گمان بھی ہے کہ اب کی باری تو صرف عمران خان کی ہوگی۔ بظاہر یہ گمان اتنا غیر منطقی بھی نہیں لگتا۔ آخر کار وہ ''تبدیلی کا نشان'' ہیں اور لوگ پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے رہ نمائوں اور حکومتوں کو 1988 سے بھگت رہے ہیں۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے جنرل مشرف کا جو کارگل سے سری نگر نہ پہنچ پائے تو غصے میں اسلام آباد پر قبضہ کر بیٹھے۔ کرپٹ سیاستدانوں کو جنرل امجد کے ذریعے جیلوں میں ڈالا اور جنرل نقوی کے ذریعے اصلی جمہوریت کی جڑوں کو سینچتے ہوئے 2002 کے انتخابات تک پہنچے۔ ان کے دور میں ہر چیز بھلی چنگی نظر آ رہی تھی۔ مگر بالآخر پتہ نہیں کس نے کالا جادو کر دیا۔ مشرف کا چیف جسٹس سے پھڈا ہوگیا۔ چیف کے بے شمار جانثار سڑکوں پر آ گئے۔ مشرف نے محترمہ بے نظیر سے این آر او والا سمجھوتہ کر لیا۔ مگر محترمہ اس کے فوائد اُٹھانے سے پہلے مار دی گئیں۔ دُکھ تو انھوں نے جھیلے، صدرآصف علی زرداری بن گئے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم۔ چیف صاحب پھر بھی اپنے عہدے پر بحال نہ ہوئے۔ بالآخر نواز شریف نے لاہور سے لانگ مارچ کیا اور گوجرانوالہ پہنچتے ہی انھیں بحال کرا کر لاہور واپس چلے گئے۔ چیف صاحب بحال ہوئے تو معاملہ اس چٹھی پر اٹک گیا جو حکومت پاکستان کو سویٹزرلینڈ میں آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر چھپائے کروڑوں ڈالروں کا سراغ لگانے میں مدد دے سکتی ہے۔ گیلانی نے وہ چٹھی نہ لکھی۔ گھر بھیج دیے گئے۔ راجہ پرویز اشرف کا انجام بھی ان سے مختلف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ابھی تک جو کچھ میں نے لکھا ہے بڑا بنیادی اور صاف نظر آنے والا ہے۔ مگر اس سب سے آ گے جا کر سوچیں تو حقیقت یہ بھی ہے کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان پہلے تنائو اور پھر کھلے عام ٹکرائو کے سبب ہر چیز ساکت ہوگئی ہے۔ ملکی معیشت جمود سے بدحالی کی طرف لڑھک رہی ہے۔ امریکا اور بھارت جیسے ملکوں سے معاملات اُلجھتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کلی طور پر مایوس اور بیزار ہیں۔ شام سات بجے سے رات ایک بجے تک نوحہ گری کرنے والے اٹھارہ کروڑ عوام کی مایوسی اور بے زاری کی ترجمانی تو کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی حالت بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ طاقت اصولی طور پر منتخب ہونے والی حکومت اور اپوزیشن کے رہ نمائوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔ حکومت کو سپریم کورٹ نے جکڑ رکھا ہے۔ اپوزیشن والے اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی گیم بنا سکتے تھے۔ مگر وہ بھی سپریم کورٹ میں فریادیں داخل کرنے کے بعد حکومتی بے بسی کا لطف اُٹھاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں فیصلہ کن قوتیں صرف سیاستدان یا عدلیہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے مخصوص حالات کے سبب عسکری قیادت کا بھی ایک کردار ہے۔ پھر ''پکی نوکری'' والے نام نہاد ''پبلک سرونٹس'' ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ورلڈ بینک ہے جس نے ہمیں بہت سارے قرضے دے رکھے ہیں۔ اسے اپنے قرضوں کی وصولی سے زیادہ پیارا بیاج ہے۔ وہ اپنی رقم کو ڈوبتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دھواں دار تقریریں کر کے ان سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ان سے چھٹکارا ایک مستحکم حکومت کی بنائی طویل المدت پالیسیاں ہی دلاسکتی ہیں۔ حکومت مستحکم نہیں۔ جو حکومت میں نہیں پالیسیاں ان کے پاس بھی نہیں۔ محض نعرے ہیں۔ بڑھکیں ہیں۔
ان حالات میں ورلڈ بینک وغیرہ سے متعلق لوگ ہماری عسکری قیادت اور پکی نوکری والے افسروں کے ساتھ مل کر اپنی سہولت کے لیے کچھ منصوبے سوچنے پر مجبور ہیں۔ آصف علی زرداری کی زیر سرپرستی حکومت کی فراغت کے بعد بجائے فی الفور نئے انتخابات کرانے کے ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی کم از کم دو سالہ حکومت کے ذریعے معاملات کو سنوارنے اور ملکی معیشت کو صحیح پٹڑی پر چلانے کا منصوبہ ان ہی لوگوں نے بنایا تھا۔ میرا گناہ صرف اتنا ہے کہ میں نے اس منصوبے کا بہت پہلے سے ذکر کرنا شروع کردیا۔ اس ذکر کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ میں خود ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت لانا چاہتا ہوں۔
میں اپنی اوقات پوری طرح جانتا ہوں۔کسی تھانے کا ایس ایچ او تو دور کی بات ہے وہاں کے ایک سپاہی کو بھی تبدیل نہیں کرا سکتا۔ اس ملک میں حکومتیں وہی بناتے اور ہٹاتے ہیں جن کے پاس قوت ہے۔ ریاستی قوت عسکری قیادت کے پاس ہوتی ہے یا پکی نوکری والے سول افسروں کے پاس اور یہ دونوں قوتیں اپنی بقاء کے لیے ملک کی معیشت کو روا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنے پر مجبور ہیں۔ بالخصوص ان دِنوں جب آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی ضرورت آن پڑے۔
وہ معاہدہ نہ ہوا تو پکی نوکری والوں کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہونا شروع ہو جائے گا۔ پکی نوکری والوں کو تنخواہوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کی خاطر ہی ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسد عمر کا نام اس کی سربراہی کے لیے چل رہا تھا۔ پھر واشنگٹن کے کچھ پاکستانیوں نے شوکت ترین کی بات چلادی۔ آصف علی زرداری کو نام البتہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا دیا گیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ آج کل پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں اور ہمارے وزیر خزانہ بھی۔ لیکن وہ پی پی پی کے بنیادی رکن تو نہیں رہے۔ انھیں آصف علی زرداری کوعاریتاً انھی طاقتوں نے دیا تھا جن کا ذکر میں کرچکا ہوں۔ وہ طاقتیں جب چاہیں گی شیخ صاحب اپنے ضمیر کی آواز سن کر اصولی بنیادوں پر سینیٹ، وزارت اور پارٹی سے استعفیٰ دے دیں گے۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آیندہ چند دنوں میں وہ یہ سب کچھ نہیں کرتے تو طے کرلیجیے کہ ''قابل، ایماندار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کا منصوبہ بھی ترک کر دیا گیا ہے۔ نسخہ کوئی اور استعمال ہوگا۔