مہنگائی کے زہرکا تریاق تلاش کیجیے
سیاسی چالوں کی جنگ میں وطنِ عزیز کے اصل مسائل نظر انداز ہوکر ملکی معیشت کے لیے زہر بنتے جا رہے ہیں
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے موٹر سائیکل ، رکشہ اور 800 سی سی تک کی گاڑیوں کے لیے پٹرول پر فی لیٹر 50 روپے سبسڈی دینے کا اعلان کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ پٹرولیم سبسڈی کا عملی پروگرام جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
مزید انھوں نے کہا کہ پٹرولیم سبسڈی براہ راست غریب عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنے گی، شدید معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی ہر ممکن مدد کے لیے کوشاں ہیں۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ مہنگائی سے براہ راست متاثر ہونیوالے طبقات کو ریلیف دیا جائے اور اسی تناظر میں وہ ایسے فیصلوں کا اعلان کررہے ہیں، گو کہ پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا میکنزم سامنے نہیں آیا ہے۔
لہٰذا اس پر رائے دینا قبل از وقت ہوگا، البتہ سبسڈی کو صرف ان لوگوں کی طرف منتقل کرکے دباؤ کی منصفانہ تقسیم کی جائے جن کو حقیقتاً اس کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سبسڈی سے امیر مستفید ہوں جب کہ غریب اور مڈل کلاس لائن میں لگ کر دھکے کھاتی پھرے اور پٹرول پمپ مافیا کی چاندی ہوجائے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ غریبوں کا خیال کرے اور امیروں پر مزید ٹیکس لگائے کیونکہ ملک اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے عالمی قرض دہندہ سے فنڈز چاہتا ہے۔
کوئی بھی فلاحی ریاست عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریز اور سہولتیں دینے کی کوشش کرتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے پر وسائل وقف نہ کرنے سے غربت اور بھوک و افلاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے ریاست پر اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔
سیاسی چالوں کی جنگ میں وطنِ عزیز کے اصل مسائل نظر انداز ہوکر ملکی معیشت کے لیے زہر بنتے جا رہے ہیں، ظاہر ہے اِس زہر کا جب کوئی تریاق ہی تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں تو زہر ختم نہیں ہو سکتا۔ اسی رویے کی بنا پر ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور آج حالات اِتنے پریشان کُن ہو چکے ہیں کہ ملک میں قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کی سکت نہیں رہی۔
ملک میں اِس وقت دو جنگیں لڑی جارہی ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک جنگ تو عوام لڑ رہے ہیں مگر باوجود کوشش کے اُسے اِس جنگ میں معمولی سی بھی کامیابی نہیں مل رہی اب تو عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑنے کے ساتھ بدامنی کا مسئلہ بھی درپیش ہے جو اُس کی مزید توانائی نچوڑ رہا ہے جب کہ دوسری جنگ سیاسی جماعتیں لڑنے میں مصروف ہیں یہ جنگ اقتدار کی جنگ ہے ہر جماعت بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملے کرنے میں مصروف ہے کوئی چھینا گیا اقتدار واپس لینے کے لیے بے چین اور اِس کے لیے فوری طور پر عام انتخابات چاہتا ہے۔
تاکہ جیت کر دوبارہ اقتدار میں آسکے کیونکہ اُسے زعم ہے کہ وہ آج بھی ملک کا مقبول ترین چہرہ ہے لیکن مدِ مقابل تمام چہرے اِس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح فوری طور پر انتخابات میں جانے سے بچ جائیں اور چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی بمشکل حاصل ہونے والا اقتدار پاس رہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ عوام جو پہلے ہی کئی مسائل سے بر سرِ پیکار تھے اب آٹے کے حصول کی جنگ بھی لڑنے پر مجبور ہیں۔
ڈالر کی قلت سے ایل سیز جاری نہ ہونے کی بنا پر درآمدی خام مال صنعتوں کو نہیں مل رہا ، یہ عمل کارخانے اور ملیں بند ہونے کا باعث ہے جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے مزید یہ کہ برآمدی سامان کی تیاری متاثر ہونے سے برآمدات روز بروز کم ہوتی جا رہی ہیں جو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بدترین کمی کی بڑی وجہ ہے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ترسیلاتِ زر میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے منی بجٹ پیش کر کے مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق ، ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ایک جمود کا شکار معیشت پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے سے معیشت مزید سکڑ جائے گی، جس سے بے روزگاری اور غربت مزید بڑھے گی۔ حکومت نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کردیا ہے، عام آدمی کی آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں۔
30 تا 40 ہزار ماہانہ کمانے والے افراد کا گزارا کرنا مشکل تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ سفید پوش لوگ فاقے کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اِس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں 1998 جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانس پالیسی (ایم ای ایف پی) کا ہر روز پاکستان کو نیا ڈرافٹ دیا جا رہا ہے، آئی ایم ایف پہلے سے طے شدہ شقوں میں بھی تبدیلیاں کر کے مزید مطالبات پیش کر رہا ہے۔
چند روز قبل آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹاف لیول معاہدہ کے لیے پاکستان پر مزید چار شرائط رکھی گئی تھیں۔ پہلی یہ کہ سرکلر ڈیٹ کو قابو کرنے کے لیے بجلی پر سبسڈیز ختم کرنے کے ساتھ سرچارج بھی چار ماہ کے بجائے مستقل بنیادوں پر عائد کیا جائے۔
دوسری یہ کہ اسٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان شرح سود میں اضافہ کرے، تیسری شرط یہ تھی کہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کیا جائے جب کہ چوتھی شرط کے مطابق پاکستان کو ایکسٹرنل فنانسنگ پر بھی آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کرانا ہو گی۔
وفاقی حکومت نے کسانوں کے لیے بجلی تین روپے 60 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے ، یعنی کسان پیکیج کے تحت زرعی صارفین کی سبسڈی واپس لے لی گئی ہے جس سے زرعی صارفین کو اب بجلی 13 روپے کے بجائے 16روپے 60 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی۔ اِس اقدام سے جون تک 14 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ دوسری طرف 200 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے سالانہ 335 ارب روپے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جس کے لیے تین روپے 82 پیسے فی یونٹ اضافی سر چارج وصول کیا جائے گا۔
یہ رقم بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی پر خرچ ہو گی۔ حکومت کے ذمے تمام واجبات کی ادائیگی تک سر چارج لاگو رہے گا۔ اِس اضافی سر چارج کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہو گا۔ یہی نہیں، برآمدی صنعتوں کے لیے سستی بجلی کی سہولت واپس لیتے ہوئے 19 روپے 99 پیسے فی کلو واٹ کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سستی بجلی کی سہولت ٹیکسٹائل، اسپورٹس، سرجیکل اور چمڑے کی صنعتوں کو حاصل تھی۔ ٹیرف کا یہ خاتمہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے مایوس کن ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں تین فیصد اضافہ کر کے اِسے20 فیصد کر دیا ہے۔ پرائمری خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف کے ساتھ ساتھ ڈالر ایکسچینج ریٹ سے متعلق معاملات تاحال زیر بحث ہیں۔
آئی ایم ایف کی افغان ٹریڈ کے مطابق ڈالر کی قیمت کی شرط اور موڈیز کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ کم کرنے کی خبر آتے ہی ملک میں ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔آئی ایم ایف کی شرط کے عین مطابق جلد ہی ڈالر کی قیمت افغان ٹریڈ (290 روپے سے زائد) کی سطح کے برابر ہو جانے کا امکان ہے۔
ہمارے معاشرے میں سادہ زندگی اور آسودگی پر زور دیا جاتا تھا ، اس کے تحت لوگ بے جا طور پر اپنی ڈیمانڈ نہیں بڑھاتے تھے ، مگر مغربی تہذیب کے '' کھاؤ ، پیو اور خوش رہو'' (Eat,drink And Be Marry) کے اصول نے ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ، باقی کا کام اشتہاروں نے پورا کردیا ہے۔ اب ہر آدمی کو ہر چیز چاہیے ، جب کہ ہر آدمی کو ہر چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
آج قرض لے کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہوم لون ، کار لون ، موٹر سائیکل لون ، ٹی وی لون ، اور اسی طرح کی دوسرے قیمتی اشیاء پر لون لینے میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ دوسرے قیمتی اشیاء کو خریدنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ کارخانہ دار کاروباری لاگت کے مقابلے میں کئی گنا قیمت وصولنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر روک کا کوئی انتظام نہیں ہے، کم سے کم قیمت (M.R.P.= Maximum Retail Price) کا بھی کوئی مناسب اصول نہیں ہے۔
جس سے واضح قیمت سے کبھی کم پر بازار میں چیزیں ملتی ہیں۔ عوام کو ضروری اشیاء اناج، چینی، پٹرول وغیرہ کو دستیاب کرانے کے نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اسے درست کرنے سے اقتصادی طور پر کمزور طبقہ کو بہت راحت ملے گی اور بازار بھی کنٹرول میں رہ سکے گا۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو افغانستان سے ملنے والی سرحد پر بد امنی کا سامنا ہے اِن حالات میں چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی ملک کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ، جس کے لیے ایک ایسے وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے ، اگر اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ وقتی طور پر روک کر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جنگ میں عوام کا ساتھ دیا جائے اور معیشت بحال کرنے کے لیے سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر کام کیا جائے تو نہ صرف سیاستدانوں کو مقبولیت ملے گی اور معاشی زوال ختم ہو گا بلکہ عوام کو بھی غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔
مزید انھوں نے کہا کہ پٹرولیم سبسڈی براہ راست غریب عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنے گی، شدید معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی ہر ممکن مدد کے لیے کوشاں ہیں۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ مہنگائی سے براہ راست متاثر ہونیوالے طبقات کو ریلیف دیا جائے اور اسی تناظر میں وہ ایسے فیصلوں کا اعلان کررہے ہیں، گو کہ پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا میکنزم سامنے نہیں آیا ہے۔
لہٰذا اس پر رائے دینا قبل از وقت ہوگا، البتہ سبسڈی کو صرف ان لوگوں کی طرف منتقل کرکے دباؤ کی منصفانہ تقسیم کی جائے جن کو حقیقتاً اس کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سبسڈی سے امیر مستفید ہوں جب کہ غریب اور مڈل کلاس لائن میں لگ کر دھکے کھاتی پھرے اور پٹرول پمپ مافیا کی چاندی ہوجائے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ غریبوں کا خیال کرے اور امیروں پر مزید ٹیکس لگائے کیونکہ ملک اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے عالمی قرض دہندہ سے فنڈز چاہتا ہے۔
کوئی بھی فلاحی ریاست عوام پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے گریز اور سہولتیں دینے کی کوشش کرتی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے پر وسائل وقف نہ کرنے سے غربت اور بھوک و افلاس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے ریاست پر اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔
سیاسی چالوں کی جنگ میں وطنِ عزیز کے اصل مسائل نظر انداز ہوکر ملکی معیشت کے لیے زہر بنتے جا رہے ہیں، ظاہر ہے اِس زہر کا جب کوئی تریاق ہی تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں تو زہر ختم نہیں ہو سکتا۔ اسی رویے کی بنا پر ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور آج حالات اِتنے پریشان کُن ہو چکے ہیں کہ ملک میں قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کی سکت نہیں رہی۔
ملک میں اِس وقت دو جنگیں لڑی جارہی ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک جنگ تو عوام لڑ رہے ہیں مگر باوجود کوشش کے اُسے اِس جنگ میں معمولی سی بھی کامیابی نہیں مل رہی اب تو عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑنے کے ساتھ بدامنی کا مسئلہ بھی درپیش ہے جو اُس کی مزید توانائی نچوڑ رہا ہے جب کہ دوسری جنگ سیاسی جماعتیں لڑنے میں مصروف ہیں یہ جنگ اقتدار کی جنگ ہے ہر جماعت بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملے کرنے میں مصروف ہے کوئی چھینا گیا اقتدار واپس لینے کے لیے بے چین اور اِس کے لیے فوری طور پر عام انتخابات چاہتا ہے۔
تاکہ جیت کر دوبارہ اقتدار میں آسکے کیونکہ اُسے زعم ہے کہ وہ آج بھی ملک کا مقبول ترین چہرہ ہے لیکن مدِ مقابل تمام چہرے اِس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح فوری طور پر انتخابات میں جانے سے بچ جائیں اور چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی بمشکل حاصل ہونے والا اقتدار پاس رہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ستم ظریفی یہ کہ عوام جو پہلے ہی کئی مسائل سے بر سرِ پیکار تھے اب آٹے کے حصول کی جنگ بھی لڑنے پر مجبور ہیں۔
ڈالر کی قلت سے ایل سیز جاری نہ ہونے کی بنا پر درآمدی خام مال صنعتوں کو نہیں مل رہا ، یہ عمل کارخانے اور ملیں بند ہونے کا باعث ہے جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے مزید یہ کہ برآمدی سامان کی تیاری متاثر ہونے سے برآمدات روز بروز کم ہوتی جا رہی ہیں جو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بدترین کمی کی بڑی وجہ ہے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ترسیلاتِ زر میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے منی بجٹ پیش کر کے مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق ، ٹیکسوں میں اضافے سے معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ایک جمود کا شکار معیشت پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے سے معیشت مزید سکڑ جائے گی، جس سے بے روزگاری اور غربت مزید بڑھے گی۔ حکومت نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کردیا ہے، عام آدمی کی آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں۔
30 تا 40 ہزار ماہانہ کمانے والے افراد کا گزارا کرنا مشکل تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ سفید پوش لوگ فاقے کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اِس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں 1998 جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانس پالیسی (ایم ای ایف پی) کا ہر روز پاکستان کو نیا ڈرافٹ دیا جا رہا ہے، آئی ایم ایف پہلے سے طے شدہ شقوں میں بھی تبدیلیاں کر کے مزید مطالبات پیش کر رہا ہے۔
چند روز قبل آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹاف لیول معاہدہ کے لیے پاکستان پر مزید چار شرائط رکھی گئی تھیں۔ پہلی یہ کہ سرکلر ڈیٹ کو قابو کرنے کے لیے بجلی پر سبسڈیز ختم کرنے کے ساتھ سرچارج بھی چار ماہ کے بجائے مستقل بنیادوں پر عائد کیا جائے۔
دوسری یہ کہ اسٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان شرح سود میں اضافہ کرے، تیسری شرط یہ تھی کہ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کیا جائے جب کہ چوتھی شرط کے مطابق پاکستان کو ایکسٹرنل فنانسنگ پر بھی آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کرانا ہو گی۔
وفاقی حکومت نے کسانوں کے لیے بجلی تین روپے 60 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی ہے ، یعنی کسان پیکیج کے تحت زرعی صارفین کی سبسڈی واپس لے لی گئی ہے جس سے زرعی صارفین کو اب بجلی 13 روپے کے بجائے 16روپے 60 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی۔ اِس اقدام سے جون تک 14 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ دوسری طرف 200 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے سالانہ 335 ارب روپے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جس کے لیے تین روپے 82 پیسے فی یونٹ اضافی سر چارج وصول کیا جائے گا۔
یہ رقم بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی پر خرچ ہو گی۔ حکومت کے ذمے تمام واجبات کی ادائیگی تک سر چارج لاگو رہے گا۔ اِس اضافی سر چارج کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہو گا۔ یہی نہیں، برآمدی صنعتوں کے لیے سستی بجلی کی سہولت واپس لیتے ہوئے 19 روپے 99 پیسے فی کلو واٹ کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سستی بجلی کی سہولت ٹیکسٹائل، اسپورٹس، سرجیکل اور چمڑے کی صنعتوں کو حاصل تھی۔ ٹیرف کا یہ خاتمہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے مایوس کن ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں تین فیصد اضافہ کر کے اِسے20 فیصد کر دیا ہے۔ پرائمری خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے اہداف کے ساتھ ساتھ ڈالر ایکسچینج ریٹ سے متعلق معاملات تاحال زیر بحث ہیں۔
آئی ایم ایف کی افغان ٹریڈ کے مطابق ڈالر کی قیمت کی شرط اور موڈیز کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ کم کرنے کی خبر آتے ہی ملک میں ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔آئی ایم ایف کی شرط کے عین مطابق جلد ہی ڈالر کی قیمت افغان ٹریڈ (290 روپے سے زائد) کی سطح کے برابر ہو جانے کا امکان ہے۔
ہمارے معاشرے میں سادہ زندگی اور آسودگی پر زور دیا جاتا تھا ، اس کے تحت لوگ بے جا طور پر اپنی ڈیمانڈ نہیں بڑھاتے تھے ، مگر مغربی تہذیب کے '' کھاؤ ، پیو اور خوش رہو'' (Eat,drink And Be Marry) کے اصول نے ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ، باقی کا کام اشتہاروں نے پورا کردیا ہے۔ اب ہر آدمی کو ہر چیز چاہیے ، جب کہ ہر آدمی کو ہر چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
آج قرض لے کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھی کوشش کی جارہی ہے۔ ہوم لون ، کار لون ، موٹر سائیکل لون ، ٹی وی لون ، اور اسی طرح کی دوسرے قیمتی اشیاء پر لون لینے میں سبقت لے جا رہے ہیں۔ دوسرے قیمتی اشیاء کو خریدنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ کارخانہ دار کاروباری لاگت کے مقابلے میں کئی گنا قیمت وصولنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر روک کا کوئی انتظام نہیں ہے، کم سے کم قیمت (M.R.P.= Maximum Retail Price) کا بھی کوئی مناسب اصول نہیں ہے۔
جس سے واضح قیمت سے کبھی کم پر بازار میں چیزیں ملتی ہیں۔ عوام کو ضروری اشیاء اناج، چینی، پٹرول وغیرہ کو دستیاب کرانے کے نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اسے درست کرنے سے اقتصادی طور پر کمزور طبقہ کو بہت راحت ملے گی اور بازار بھی کنٹرول میں رہ سکے گا۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو افغانستان سے ملنے والی سرحد پر بد امنی کا سامنا ہے اِن حالات میں چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی ملک کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ، جس کے لیے ایک ایسے وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے ، اگر اقتدار بچانے اور اقتدار میں آنے کی جنگ وقتی طور پر روک کر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جنگ میں عوام کا ساتھ دیا جائے اور معیشت بحال کرنے کے لیے سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر کام کیا جائے تو نہ صرف سیاستدانوں کو مقبولیت ملے گی اور معاشی زوال ختم ہو گا بلکہ عوام کو بھی غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔